آسٹیوپوروسس: ہر سال دنیا بھر میں نوے لاکھ افراد میں فریکچر کا سبب

October 18, 2020

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں 20اکتوبر کو ’’آسٹیوپوروسس کا عالمی یوم‘‘ منایاجاتا ہے۔امسال گزشتہ برس ہی کا تھیم ''Love your Bones'' دہرایا گیا ہے۔یہ ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں ہڈیاں اس قدر کم زور ہوجاتی ہیں کہ معمولی سی چوٹ لگنے سے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات تو ہلکا سا دبائو پڑنے، مُڑنے، کوئی وزنی چیز اُٹھانے حتیٰ کہ کھانسنے یا چھینکنے سے بھی فریکچر ہوجاتا ہے۔ دنیا بَھر میں، بشمول پاکستان، آسٹیوپوروسس کی شرح مَردوں کی نسبت خواتین میں بُلند ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دُنیا بَھر میں آسٹیوپوروسس نوّے لاکھ افراد میں فریکچر کا سبب بنتا ہے۔

آسٹیوپوروسس کو’’خاموش مرض‘‘بھی کہا جاتا ہے،کیوں کہ زیادہ تر کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور مرض اندر ہی اندر اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہتا ہے۔تاہم، جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں جسم کی ہڈیوں، جوڑوں میں درد، ہروقت تھکاوٹ کا احساس، بھوک کی کمی، معمولی سی چوٹ سے ہڈی کا ٹوٹ جانا اور کمر کا جھکائو وغیرہ شامل ہیں۔زیادہ ترمریض ابتداًان علامات پر توجّہ نہیں دیتے، اِسی لیے جب شدید کمر درد، جو کسی فریکچر یا دبے ہوئے مُہرے کی وجہ سے ہو یا کسی بھی سبب کوئی ہڈی ٹوٹ جائے، تومرض تشخیص ہوتاہے۔ آسٹیوپوروسس لاحق ہونے کے کئی عوامل ہیں۔

مثلاً منفی طرزِ زندگی ،متوازن غذا استعمال نہ کرنا، جسمانی سرگرمیوں کا فقدان، طویل عرصے تک مخصوص ادویہ کا استعمال، جسمانی کم زوری، تمباکو نوشی، الکحل کا استعمال اور خواتین میں سن ِیاس (مینوپاز) وغیرہ۔ نیز، بعض ایسے محرّکات بھی ہیں، جو غیر اختیاری ہیں۔ جیسے عُمر بڑھنے کے ساتھ آسٹیوپوروسس کے خطرات بڑھتے چلے جاتے ہیں،لیکن بڑھتی عُمر روکنا کسی کے اختیار میں نہیں۔اسی طرح سفید یا ایشیائی نسل کے افراد میں آسٹیوپوروسس کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ مرض وراثت میں بھی ملتا ہے اور ایسے خاندانوں میں فریکچر ہسٹری پائی جاتی ہے، خاص طور پر والدین میں سے کوئی ایک اس عارضے کے سبب کولھے کی ہڈی کے فریکچر کا شکار ہوجائے، تومرض کےامکانات بڑھ جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں، چھوٹا قد بھی غیر اختیاری عوامل میں شامل ہے کہ عُمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیوں میں کیلشیم کی مقدار کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہڈیوں کے افعال متحرّک رکھنے میںکیلشیم اور وٹامن ڈی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر جسم میں ان دونوں کیمیائی عناصر کی کمی واقع ہوجائے تو یہ مرض جلد لاحق ہوجاتا ہے۔ بعض کیسز میں ضرورت سے کم کھانا، ڈائٹنگ،وزن میں کمی اور موٹاپا کم کرنے کے لیے کی گئی سرجری بھی وجہ بن سکتے ہیں۔اصل میں یہ سرجری جسم میں کیلشیم سمیت غذائی اجزاء جذب ہونے سے روک دیتی ہے۔ اسی طرح جو افراد بہت زیادہ وقت بیٹھ کرگزارتے ہیں،اُن میں زیادہ فعال رہنے والوں کی نسبت آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

آسٹیوپوروسس کی پیچیدگیوں میں سب سے عام اور خطرناک کولھے کی ہڈی یا کمر کے مُہرے کا فریکچر ہونایا پچک جانا ہے۔ کولھے کا فریکچر اکثر گرجانے کی وجہ سے ہوتا ہے اور زیادہ تر مریض معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔بعض اوقات ریڑھ کی ہڈی کے مہرے آہستہ آہستہ پچک یا دب جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کمر درد، روزانہ کے حساب سے قد چھوٹا ہونے اور آگے کی جانب جُھک جانے جیسی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نیشنل آسٹیوپوروسس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کولھے کے فریکچر کے 50برس یا اس سے زائد عُمر کے مریضوں میں سے24فی صد ایک سال کے اندر انتقال کرجاتے ہیں،تو ہپ فریکچرکے چھے ماہ بعد85فی صد مریض کسی سہارے کےبغیر چل پھر نہیں سکتے۔نیز، سالانہ رپورٹ ہونے والے کولھے کے فریکچر کے کیسز میں سے 25فی صد مریض خود اپنی دیکھ بھال نہیں کرپاتے اور 50فی صد تاعُمر محتاجی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

آسٹیوپوروسس سے محفوظ رہنے کے لیے ابتدا ہی سے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں، تو ہڈیاں طویل عرصے تک مضبوط و توانا رہتی ہیں۔مثلاً متوازن غذا کا استعمال کیا جائے۔ چوں کہ کیلشیم ہڈیوں کی کثافت بڑھانے( بون ماس ڈینسیٹی )، ان کی مضبوطی اور فریکچر کے بڑھتے امکانات کم کرنے میں معاون ہے،لہٰذا کیلشیم کا استعمال توناگزیر ہے۔ عمومی طور پر روزانہ کی بنیاد پر18سے50سال کے افرادکو(مرد و خواتین)1000ملی گرام کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر جب خاتون کی عُمر50 اور مرد کی70 سال ہوجائے، تو کیلشیم کی ضرورت 1200ملی گرام تک بڑھ جاتی ہے۔ کیلشیم کے حصول کا بہترین مآخذ کم چکنائی والے دودھ کی مصنوعات، گہرے ہرے پتّوں والی سبزیاں اور سنگترے ہیں۔اگر کیلشیم کی مقدار غذا کے ذریعے پوری نہ ہو رہی ہو، تو پھر سپلیمینٹ کیلشیم کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔تاہم، کیلشیم کازائدمقدار میں استعمال کئی طبّی مسائل کا باعث بھی بن سکتا ہے، جن میں گُردے کی پتھریاں بننابھی شامل ہیں۔ اس کے سدِّباب کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی پیئں۔ رہی بات وٹامن ڈی کی،تو یہ کچھ دیر دھوپ میں بیٹھ کر حاصل کیاجاسکتا ہے۔

عام طور پر ایک فرد کو روزانہ وٹامن ڈی کی600سے 800یونٹ مقدار درکار ہوتی ہے،جس سے ہڈیاں مضبوط و توانا رہتی ہیں اور قوّتِ مدافعت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پروٹین کا استعمال بھی ضروری ہے، جو سویا بین، گِری دار میووں، لوبیا، انڈوں اور گوشت وغیرہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر بڑی عُمر کے افراد کم خوراکی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر عُمر رسیدہ افراد کو مناسب مقدار میں پروٹین حاصل نہیں ہورہا ہے، تو بہتر ہوگا کہ معالج سے مشورہ کرلیا جائے۔ عُمر اور قد کی مناسبت سے جسمانی وزن برقرار رکھا جائے۔

عام مشاہدہ ہے کہ جوانی میں شروع کی گئی ورزش کے ہڈیوں پر بہت مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں، لہٰذا جتنی جلد ہو سکے، ورزش شروع کریں اور اسے تاعُمر جاری بھی رکھیں۔یاد رکھیں، وزن اُٹھانے کی ورزشیں بازوؤں، ریڑھ کی ہڈی کے اوپری مُہروں اور پٹّھوں کو مضبوط بناتی ہیں اور چلنا، ٹہلنا، دوڑنا، سیڑھیاں چڑھنا، رسّی کودنا وغیرہ پیروں، کولھوں اور نچلے حصّے کی ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ تیراکی اور سائیکل چلانا بھی اچھی ورزشیں ہیں، لیکن یہ ہڈیوں کی صحت اور مضبوطی میں کچھ خاص معاون ثابت نہیں ہوتیں۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ ہڈی و جوڑ ہیں۔ اسلام آباد میں پی او ایف اسپتال اور اسپیشلسٹ کلینکس میں بطور آرتھوپیڈک اور اسپائن سرجن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)، اسلام آباد کے سابق صدر بھی ہیں)