پاکستان اور افغانستان سے پولیو کیسسز رپورٹ ہوتے رہے تو...

October 18, 2020

عالمی ادارۂ صحت اور روٹری انٹرنیشنل آرگنائزیشن کے اشتراک سےدُنیا بَھر میں ہر سال24اکتوبر کو’’پولیو کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے۔اِمسال کا تھیم "Stories of Progress: Past and Present"ہے۔یعنی پیش قدمی کی کہانیاں:ماضی اور حال۔ اس تھیم کے انتخاب کا مقصد جہاں پولیو کے خلاف کی جانے والی جہدوجہد سے آگاہ کرنا ہے، وہیں دُنیا کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ انسدادِ پولیو مُہم میں چاہے جتنی رکاوٹیں حائل ہوں، مگر ایک نہ ایک روزاس مرض کا خاتمہ ہوکر رہے گا۔

شعبۂ طب کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولیو لگ بھگ چھے ہزار سال پُرانا مرض ہے،کیوں کہ مصر کے اہرام سے ملنے والی بعض ممیوں میں ایسی علامات پائی گئیں، جنہیں پولیو سے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے۔پھر1789ء سے تو طبّی حلقوں میں باقاعدہ پولیو کا تذکرہ ہونے لگا۔

1834ء میں پہلی بارریاست ہائے متحدہ امریکا کے ایک جزیرے،سینٹ ہیلینا (Saint Helena)میں پولیو نے وبائی صُورت اختیار کی،جس کے نتیجے میں کئی افراد معذوری کا شکار ہوئے اور متعدّد لقمۂ اجل بھی بن گئے۔اس کے بعد کئی ترقّی یافتہ مُمالک سمیت متعدّد مُلکوں میں پولیو کی وبا پُھوٹتی رہی اور بڑی تعداد میں بچّے اس کا شکار ہوتے رہے۔

بعد ازاں، جب پولیو وائرس پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز ہوا،تو 1855ء میں ڈاکٹر Guillaume Benjamin Armand Duchenne یہ دریافت کرنے میں کام یاب ہوگئے کہ پولیو حرام مغز کے چند خلیات کو متاثر کرتا ہے،جس کے باعث جسم کے بعض اعضا ءخاص طور پر ٹانگیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ اس مرض سے تحفّظ کے لیے مختلف ادوار میں ویکسینزمتعارف کروانے کا بھی سلسلہ جاری رہا،تاہم 1950ء میں ڈاکٹر جانز سالک نے پولیو کے خلاف ایک مؤثر ویکسین دریافت کی، جس کے بعد کئی ترقّی یافتہ مُمالک سے پولیو کا خاتمہ ہوگیا، مگر ترقّی پذیر اور تیسری دُنیا کے کئی مُمالک بدستورلپیٹ میں رہے۔

ستّر کے عشرے میں پولیو کے خلاف مختلف پروگرامز کا اجراء ہوا اور بالآخر مسلسل کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں1988ء میں جب عالمی ادارۂ صحت اور روٹری انٹرنیشنل نے مل کر پولیو کے خاتمے کے لیے جی پی ای آئی(Global Polio Eradication Initiative)نامی مہم کا آغاز کیا، تو 2013ءتک دُنیا بَھر سے پولیو کا 99.9فی صد خاتمہ ہو گیا۔ 100فی صد خاتمہ اس لیے نہ ہوسکا کہ پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا وہ تین مُمالک تھے، جہاں سے کیسز رپورٹ ہورہے تھے۔ تاہم، رواں برس جون میں نائیجریا بھی پولیو سے متاثرہ مُمالک کی فہرست سے الگ کردیا گیا ہے ۔

اب صرف پاکستان اور افغانستان ہی باقی رہ گئےہیں۔واضح رہے کہ 2018ء میں پاکستان میں پولیو سے متاثرہ بچّوں کی تعداد12اور2019ء میں 147تھی، جب کہ رواں برس تادمِ تحریر پولیو کے 74کیسز رپورٹ ہوچُکے ہیں۔ 3ستمبر2020ء تک پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی ایک قسم ڈبلیو پی وی وَن(WPV1:Wild Polio Virus Type1)کے باعث مفلوج ہونے والوں کی تعداد105تھی،جب کہ دُنیا کے بائیس مُمالک میں سفری بے قاعدگیوں کے باعث پولیو کی ایک دوسری قسم سی وی ڈی پی وی(cVDPV:Circulating Vaccine-Derived Polio Virus) سے330افراد متاثر ہوچُکے ہیں۔بیماریوں سے متعلق بین الاقوامی تنظیم آئی ایچ آرنے پاکستان کو ان مُمالک میں شامل کیا ہے، جو نہ صرف پولیو سے متاثر ہیں،بلکہ دُنیا میں پولیو پھیلانے کاسبب بھی بن سکتے ہیں۔

پولیو اعصابی نظام پر حملہ آور ہونے والا ایک ایسا مرض ہے، جواعصابی نظام پر اثر انداز ہو کر معذوری، بلکہ موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ یہ مرض پانچ سال سے کم عُمر، خاص طور پر اُن بچّوں کو جلد متاثر کرتا ہے، جن کا مدافعتی نظام پہلے ہی سے کم زور ہو۔ علاوہ ازیں، حاملہ خواتین بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہیں۔

چوں کہ پولیو وائرس صرف انسانوں میں زندہ رہ سکتا ہے،اس لیے مریض کےپاس موجود افراد میں پولیو سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔پولیو وائرس جسم میں منہ اور بعض اوقات ناک کے ذریعے بھی داخل ہوجاتاہے۔95فی صد افراد میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔پولیو کی پہلی قسم"Abortive poliomyelitis"کہلاتی ہے، جو اعصابی نظام کو متاثر نہیں کرتی اور مرض کی شدّت بھی معمولی نوعیت کی ہوتی ہے۔

علامات فلو سے ملتی جُلتی ہوتی ہیں۔ مثلاً بخار، گلے کی سوزش، سَردرد، متلی، قے، تھکاوٹ، گردن، بازوؤں، ٹانگوں اور پشت میں درد اور عضلات کی کم زوری وغیرہ۔ دوسری قسم"Nonparalytic poliomyelitis"میں پولیو وائرس مرکزی اعصابی نظام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ متاثرہ بچّوں میں پولیو کی پہلی قسم کی علامات کے ساتھ گردن اور کمر میں سختی اور کھنچائو محسوس ہوتا ہے۔

تیسری قسم"Paralytic poliomyelitis" خطرناک ہے، جس میں اعصابی نظام متاثر ہونے کے نتیجے میں فالج جیسی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اگر عملِ تنفس کے عضلات متاثر ہوجائیں، تو موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ پولیو کی وجہ سے مفلوج افراد میں موت کی شرح5 سے10 فی صد پائی جاتی ہے۔

بعض کیسز میں پولیو سے صحت یابی کے بعد دوسرا حملہ بھی ہوسکتا ہے،تو چند مریضوں میں پولیو سے متاثر ہونے کے کئی برس بعد کوئی معذوری ، عضلات یا جوڑوں کی کم زوری، سانس لینے اور کھانے پینے میں دشواری اور سردی لگنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔پولیو پھیلنے کے اسباب میں سرِ فہرست انسانی فضلہ ہے،جب کہ یہ متاثرہ فرد کے کھانسنے اور چھینکنے کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔

بعض کیسز میں آلودہ پانی بھی پھیلاؤ کا سبب بن جاتا ہے۔ جب یہ وائرس جسم میں داخل ہوتا ہےتو آنتوں سے ہوکر ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز تک پہنچ کر اُن حصّوں کو متاثر کرتا ہے، جوعضلات کی حرکات قابو میں رکھتے ہیں۔ اس حصّے کے متاثر ہونے کے بعد عضلات کم زور ہونے شروع ہوجاتے ہیں ،یہاں تک کہ معذوری عُمر بھر کا روگ بن جاتی ہے۔پولیو کی تشخیص کے لیے متاثرہ فرد کے گلے،دماغ اور حرام مغز کی رطوبت اور فضلے کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ، البتہ ویکسین (پولیو ڈراپس)کے ذریعے مرض سے بچاؤ ممکن ہے۔

پاکستان میں مستقل پولیو کیسز کا سامنے آنا انتہائی اہم مسئلہ ہے، جن پر کنٹرول کے لیے مسلسل کوششیں جاری ہیں، لیکن کئی عوامل رکاوٹ کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ مثلاً بعض والدین کا اپنے بچّوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوانا، صحت کی بنیادی سہولتوں اور حفاظتی ٹیکوں کافقدان، آلودہ پانی، صفائی ستھرائی کی ناقص صُورتِ حال، پولیو ویکسین سے متعلق منفی پروپیگنڈا، پولیو ورکرز پر حملے وغیرہ۔علاوہ ازیں، ایک سبب ہمسایہ مُلک افغانستان بھی ہے، جو پولیو سے متاثر ہے۔ چوں کہ دونوں مُمالک کے افراد باآسانی ایک سے دوسرے مُلک آ،جا سکتے ہیں،لہٰذ اس ضمن میں بھی کوئی واضح پالیسی ترتیب دیناہوگی۔

گزشتہ برس کے آخر میں جب کورونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے وبائی صُورت اختیار کی،تو پولیو مہم کے ادارے، جی پی ای آئی نے اعلان کیا کہ وہ انسدادِ پولیو مہم کے فنڈز کورونا وائرس کے خلاف جاری مہم میں استعمال کریں گے، کیوں کہ اس عالمی وبا نے انسدادِ پولیو مہم کو خاصا متاثر کیا ہے۔نیز، کچھ عرصے کے لیے پولیو کے خلاف جاری مہم معطّل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان میں بھی وقتی طور پر یہ مہم روک دی گئی۔ تاہم، گزشتہ ماہ(ستمبر )سے مُلک بَھر میں قومی انسدادِپولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور تقریباً 39ملین بچّوں کو انسدادِپولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں۔

ذرا تصوّر کیجیے، ایک معذور بچّے کا دُکھ و کرب اُس وقت کس قدر بڑھ جاتا ہوگا، جب وہ دیگر بچّوں کو ہنستے مُسکراتے کھیلتے کودتے دیکھتا ہے۔ اور جب اُسے اس بات کا علم ہوجائے کہ اس کی معذروری کا سبب محض حفاظتی قطرے نہ پلوانا ہے اور جس کے ذمّے دار کوئی اور نہیں، اُس کے والدین ہیں،تو یہ تلخ حقیقت اس پر کیا اثرات مرتب کرے گی۔ اِسی طرح جب والدین کو بھی اپنی معمولی سی غفلت کا اس قدر شدید نقصان آٹھانا پڑتا ہے، تو وہ مختلف نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یوں پورا خاندان ایک انتہائی تکلیف دہ صُورتِ حال سے دوچار رہتا ہے،لہٰذا اپنے 5سال کی عُمر تک کے بچّوں کو پولیو کے قطرے لازماً پلوائیں، بلکہ اُن والدین کو بھی قائل کریں، جو پولیو ویکسین پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ یاد رکھیے، انفرادی کوشش کے ساتھ پوری قوم کو حکومت ، عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل جُل کر کام کرنا ہوگا،تب ہی ہمارا مُلک بھی ’’پولیو فری زون‘‘ کہلا سکے گا۔

(مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور الخدمت اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)