اردو نثر کی دس بہترین طنزیہ و مزاحیہ کتابیں

October 14, 2020

اردو نثر کی دس بہترین طنزیہ اور مزاحیہ کتابوں کی یہ فہرست پیش کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر آپ چاہیں تو اس فہرست میںترمیم، تنسیخ اوراضافہ کر لیجیے۔ کیونکہ اس طرح کی فہرستیں بالعموم مرتب کی ذاتی ترجیحات کی بھی عکاس ہوتی ہیں اور مرتب چاہے کتنی ہی کوشش انتخاب کو معروضی بنانے کی کرے کہیں نہ کہیں اس کی ذاتی پسند اور ناپسند جھلک ہی جاتی ہے۔

اس فہرست کو پیش کرنے کا مقصد یہ یاد دلانا ہے کہ حالات چاہے جتنے بھی خراب ہوں دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اورزندہ رہنے اور ہنسنے مسکرانے کی کئی وجوہات موجود ہیں۔ بس ذرا حسِ مزاح پاس ہونی چاہیے۔بقولِ مشتاق احمد یوسفی دراصل حسِ مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے اور اگر یہ حس پاس ہو تو انسان مشکلات سے ہنستا کھیلتا گزر جاتا ہے۔

اس فہرست میں صرف نثری کتابوں کو شامل کیا گیا ہے اور مزاحیہ شعری مجموعے اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ فہرست زمانی ترتیب سے بنائی گئی ہے اور یہ ترتیب کسی ترجیح یا پسند کے درجے کو ظاہر نہیں کرتی۔

۱۔مضامینِ فرحت : انتخاب

مرزا فرحت اللہ بیگ پہلے مرزا الم نشرح کے فرضی اور قلمی نام سے مزاح لکھا کرتے تھے۔لیکن کسی طرح یہ راز کھل گیا بلکہ الم نشرح ہوگیا جس کے بعد اپنے اصلی نام سے لکھنے لگے۔ فرحت کی تحریر میں مزاح اور شگفتگی کی ایک زیریں لہر بالعموم جاری وساری رہتی ہے جو بعض مواقع پر سطح پر بھی آجاتی ہے اور قاری کھل کر مسکراتا ہے بلکہ ہنستا ہے۔فرحت کے مزاحیہ مضامین سات جِلدوں میں’’ مضامین ِ فرحت‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں ۔ لیکن ان کے مضامین کا انتخاب بھی کیا گیا ہے جو مختلف ناشرین نے شائع کیا ہے۔ فضلی سنز (کراچی ) کا شائع کردہ انتخاب نیز رفیع الدین ہاشمی کا مرتبہ انتخاب بہتر ہیں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ اردوکے ان لکھنے والوں میں شامل ہیں جن کو اردو زبان پر عبور حاصل تھا اور ان کی تحریر اردو محاوروں کے مفہوم اور استعمال کی عمدہ مثالیں پیش کرتی ہے۔ فرحت کی تحریر میں دہلی کی تہذیب کی جھلکیاں اس کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں۔

۲۔پطرس کے مضامین

احمد شاہ پطرس بخاری فطری مزاح نگار تھے اور انھیں مزاح پیدا کرنے کے لیے کسی تمہید کے پُل سے نہیں گزرنا پڑتا بلکہ مزاح فوراً ہی شروع ہوجاتا ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ پطرس نے یہ مزاحیہ مضامین انیس سو چوبیس یا پچیس کے لگ بھگ لکھے تھے جب وہ گورنمنٹ کالج (لاہور) کے طالب علم تھے لیکن ان کی پختگی اور برجستگی قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی۔ تقریباً نو ّے برس گزرنے کے بعد بھی یہ مضامین تازہ ہیں اور ان کے موضوعات بھی سدا بہار ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے ایک بار بتایا کہ جب لکھتے لکھتے ان کی طبیعت میں روانی نہیں رہتی تو وہ پطرس کے مضامین کو کہیں سے بھی کھول کر پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور مزاج اور قلم میں بشاشت آجاتی ہے۔

پطرس نے بہت کم لکھا اور ان کے مضامین کا مجموعہ ’’پطرس کے مضامین ‘‘ کے نام سے ہے جنھیں بعض ناشروں نے اغلاط اور من مانی تبدیلیوں کے ساتھ شائع کیا ہے اور کتاب کا نام بھی بدل کر ’’مضامینِ پطرس‘‘ کردیا ہے۔ لیکن اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کا شائع کردہ انتخاب بہتر ہے۔

۳۔عظیم بیگ چغتائی: انتخاب

مرزاعظیم بیگ چغتائی نے مزاحیہ ناول اور افسانے بھی لکھے ہیں اور مزاحیہ مضامین بھی۔ چغتائی کے مزاح میں شرارتیں اور چلبلا پن بھی ہے ۔ حرکات کا مزاح یامضحکہ خیز صورت حال کا مزاح بھی ان کے ہاں پایا جاتا ہے لیکن جب وہ گفتگو اور تبصرے سے مزاح پیدا کرتے ہیں تو اس کا معیار بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ شرارتوں یا اچھل کودکے مزاح کی تعبیر وزیر آغا نے یہ کی ہے کہ چونکہ عظیم بیگ چغتائی بچپن ہی سے بیمار اور جسمانی طور پر کم زور رہے تھے لہٰذا اس کی تلافی انھوں نے لاشعوری طور پر تحریر میں شرارتیں کرکے پوری کرنے کی کوشش کی۔

چغتائی کو ایک بار زہر دیا گیا تھا۔ اس بات کا انکشاف ان کے خاندان کے افراد میں سے ایک نے راقم کے نام ایک خط میں کیاہے ۔اس کا قصہ یوں ہے کہ چغتائی کی ایک کتاب کُھرپا بہادر کے نام سے ہے جودرحقیقت ریاست جاورا کے راجا اور اس کے دربار کی مضحکہ خیز تصویر کشی کرتی ہے۔ دراصل راجا نے چغتائی کو خود بلا کر ریاست میں جج مقرر کیا تھا لیکن چغتائی کی رگ ِ ظرافت پھڑکی اور انھوں نے اس کا خاکہ اڑاڈالا۔

راجا کو اندازہ ہوگیا کہ چغتائی نے اس کتاب میں اس کا مضحکہ اڑایا ہے لیکن اس نے علی الاعلان سزا دینے کی بجاے چغتائی کوسُست زہر (slow poison) دلوانا شروع کیا ۔چغتائی کی طبیعت بگڑی تو انھیں شبہ ہوا اور وہ راتوں رات ریاست سے فرار ہوگئے۔ لیکن اس زہر کا اثر ہمیشہ ان کی صحت پر رہا اور اس کے بعد وہ مستقل امراضِ معدہ و ہضم میں گرفتار رہے۔عظیم بیگ چغتائی کی مزاحیہ تحریروں کے انتخاب بھی شائع ہوئے ہیں۔ فضلی سنز (کراچی) کا شائع کردہ انتخاب بہتر ہے۔

۴۔ مضامینِ شوکت تھانوی: انتخاب

شوکت تھانوی کی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ درحقیقت بسیار نویسی اور زود نویسی نے شوکت کے فن کو بہت نقصان پہنچایا ۔ان کی زود نویسی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ انھوں نے ایک کتاب محمد طفیل ( مدیرِ نقوش) کی فرمائش پر صرف ایک رات میں ان کو اِملا کروادی تھی۔ لیکن شوکت تھانوی کا مزاح بہرحال توانائی رکھتا ہے اور اس کا ایک اچھا انتخاب ڈاکٹر محمد طاہر قریشی نے کیا ہے جو اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوچکا ہے۔

۵۔پرواز (شفیق الرحمٰن)

شفیق الرحمٰن کسی زمانے میں کتنے مقبول تھے اور اردو کے لکھنے والے ان سے کتنے متاثر تھے اس کا اندازہ یوں لگایئے کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے ’’جنگ ‘‘میں شائع شدہ اپنے ایک انٹرویو میں شفیع عقیل کو بتایا تھا کہ وہ ابتدا میں شفیق الرحمٰن سے بہت متاثر تھے اور انھوں نے شفیق الرحمٰن کے انداز میں لکھنے کی کوشش کی مگر ناکامی پر لکھنے کا ارادہ ترک کردیا۔ بعد ازاں انھیں خیال آیا کہ اگر میں شفیق الرحمٰن کی طرح نہیں لکھ سکتا تو میں اپنی طرح تو لکھ سکتاہوں ۔ چنانچہ انھوں نے اپنا مخصوص اسلوب دریافت کیا اور اردو کے بڑے مزاح نگار شمار ہوئے۔

شفیق الرحمٰن کی تقریباً تمام کتابیں مزاح کا عمدہ معیار پیش کرتی ہیں مثلاً لہریں،کرنیں، حماقتیں، مزید حماقتیں، شگوفے وغیرہ۔ لیکن پرواز غالباً زیادہ شگفتہ ہے۔ ممکن ہے بعض قاری اس سے اختلاف کریں، لیکن یہ تو طے ہے کہ اردو مزاح کی عظیم کتابوں کی فہرست میں شفیق الرحمٰن کی کسی نہ کسی کتاب کو بہر صورت شامل کرنا ہوگا۔

۶۔ مضامینِ رشید

رشید احمد صدیقی کا مزاح ان کے مزاج کی طرح دھیما ہے۔ رشید صاحب مشرقیت کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے ہاں برجستگی، طنز اور شگفتگی تو ہے لیکن ان کے مزاح میں عریانی یا رکاکت و ابتذال کا شائبہ تک نہیں۔کبھی کبھی فلسفیانہ انداز میں بات سے بات نکالتے ہیں اور اصل موضوع سے دور نکل جاتے ہیں جسے بعض نقادوں نے ’’بہکنے‘‘ سے تعبیر کیا ہے لیکن آلِ احمد سرور کے بقول ’’بہکنا ‘‘ ہی رشید صاحب کا آرٹ ہے۔

رشید صاحب کی کئی کتابیں ہیں لیکن مضامینِ رشید میںجس بذلہ سنجی، شگفتگی اور برجستگی کے ساتھ زبان کا ماہرانہ استعمال ملتاہے ،اور جس طرح انھوں نے ادبی کنایوں اور لفظوں کی تقدیم و تاخیر سے توانا مزاح تخلیق کیا ہے اس کاجواب خود وہ بھی اپنی کسی اور کتاب میں نہیں دے سکے۔ البتہ اعلیٰ ادبی معیار اور اشارات و علامات کی وجہ سے بسا اوقات عام قاری کے لیے رشید صاحب کی تحریرکو سمجھنا آسان نہیں رہتا۔

۷۔افکار ِ پریشاں(ایم آرکیانی)

جسٹس محمد رستم کیانی نے انگریزی میں خاصا مزاح لکھا لیکن اردو میںان کی صرف ایک ہی کتاب یعنی افکار ِ پریشاں ان کی برجستگی، ذہانت اور قومی شعور کو طنزیہ انداز میں ابھارنے کی صلاحیت کی مثال ہے۔ ایوب خان کے دور میں اظہار ِ رائے کی سخت پابندیوں کے سبب اشاروں ، کنایوں، ایمائیت اور ادبی و مذہبی تلمیحات کے ذریعے اپنی تقاریر میں بہت کچھ کہا ۔

یہی تقاریر افکار پریشاں کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئیں۔ رشید احمد صدیقی کی طرح جسٹس کیانی کا مزاح شعر وادب کے حوالوں اور تفکر و تفلسف کی وجہ سے وسیع مطالعہ نہ رکھنے والے قاری کے لیے زیادہ دل چسپی کا باعث نہیں رہتا۔

۸۔بجنگ آمد (کرنل محمد خان)

کرنل محمد خان کی پہلی کتاب بجنگ آمد نے اپنی تازگی، برجستگی اور شگفتگی کی بنا پرحیرت انگیز تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کی اور کرنل صاحب راتوں رات مشہور ادیبوں کی صف میں شامل ہوگئے۔یہ یادداشتیں ہیں لیکن بقول خود ان کے یہ ’’جنگ بیتی ‘‘ہے۔ انھیں دوسری جنگ ِ عظیم میں عراق اور مصر میں فوجی خدمات کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن انھوں نے جنگ کا حال بھی بقول شخصے اس طرح بیان کیا ہے جیسے پکنک منانے گئے ہوں۔

دراصل یہ مزاح نگار کی افتاد ِ طبع ہوتی ہے جوزندگی میںمشکل وقت کو ہنس کر جھیلنا سکھاتی ہے اوریوں ناگوار صورت حال کو گوارہ بناتی ہے ۔ کرنل صاحب کا فن بذلہ سنجی کے ساتھ ہر چیز کو بہ انداز ِ دِگر دیکھنے سے عبارت ہے۔ خوب صورت زبان ،شاعرانہ تراکیب اور شعر وادب کے حوالے ان کی تحریر کے حسن میں اضافے کا سبب ہیں۔

۹۔ اردو کی آخری کتاب (ابنِ انشا)

ابن انشا فطری مزاح نگار تھے۔ انھیں مزاح پیدا کرنے کے لیے کسی لطیفے، مضحک صورت حال یا تمہید کی ضرورت نہیں پڑتی۔نثر میں ان کا ایک منفرد اور خوب صورت اسلوب ہے جس میں خالص اردو (ہندی کہہ لیجیے)کے بھولے بسرے الفاظ روانی سے آجاتے ہیں اورمزاح کا مزہ دوبالا کر جاتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ان کی شاعری پر اداسی کی چاندنی چھٹکی ہوئی ہے۔

جنگ اور اخبار ِ جہاں میں ابن انشا کے کالم بہت مقبول تھے۔ ان کے سفرنامے بھی جنگ میں شائع ہوئے ۔ اردو کی آخری کتاب میں ان کا طنز اور شگفتگی پوری قوت سے نمایاں ہوئے۔ یہ ہماری اردو کی نصابی کتابوں کی پیروڈی ہے اور اسے انھوں نے ٹیکسٹ بک بورڈ کو بھیج کر باقاعدہ نامنظور کروایا تھا اور اس کے سرورق پر ’’نا منظور کردہ ٹیکسٹ بک بورڈ ‘‘ بھی لکھوایا تھا ۔

۱۰۔ ز رگزشت (مشتاق احمد یوسفی )

مشتاق احمد یوسفی اردو طنز و مزاح کی تاریخ کے چند نمایاں ترین لکھنے والوں میں شامل ہیں ۔ ان کی پہلی کتاب چراغ تلے نے دھوم مچادی تھی۔اگرچہ خاکم بدہن بھی ان کے مخصوص اسلوب کی آئینہ دار ہے لیکن زرگزشت میں ان کا فن اپنے عروج پر ہے۔ البتہ آب گم میں وہ نہ صرف ناسٹلجیا(ماضی کی حسرت ناک یاد) کا شکار ہیں بلکہ کہیں کہیں اداس بھی ہوجاتے ہیں۔

ایک بار راقم الحروف نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ زندگی میں صرف قہقہے اور مسکراہٹیں ہی نہیں ہیں بلکہ آہیں اور آنسو بھی ہیں،ان کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ اس پر راقم خاموش رہا اور خواہش کے باوجود کسی تبصرے سے احتراماًگریز کیا۔ افسوس کہ ان کی آخری کتاب شام ِ شعرِ یاراں میں شامل بعض تحریریں ان کے اپنے قائم کردہ اونچے معیار کو نہیں چھوُ پاتیں۔

یوسفی کااسلوب رشید احمد صدیقی کی طرح بذلہ سنجی، برجستگی اور الفا ظ کی تقدیم و تاخیر سے تشکیل پاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا اسلوب قطعی منفرد اور جداگانہ ہے۔ اس میںتقلیب ِ الفاظ ، خیالِ معکوس اور قولِ محال کے علاوہ تصرف و تحریف ِ لفظی (پیروڈی)، تفکر اور دانشِ زیست باہم آمیخت ہیں۔

وہ اکثر اس تصرف اور تحریف کے بعد ایسے مقامات سے چپ چاپ گزر جاتے ہیں جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو اور واوین یعنی الٹے کامے (inverted commas) کا استعمال بھی نہیں کرتے حالانکہ جابجا معروف اشعار اور مصرعوں کی تحریف کی ہے ، حتیٰ کہ شیکسپئر کے مصرعے کی بھی ایک جگہ تحریف کر ڈالی ہے۔تحریف کے علاوہ تقلیب ِ الفاظ نے بھی ان کی تحریر میں ایک ’’اچانک پن ‘‘ پیدا کیا ہے جو قاری کو شرارت آمیز تحیرسے دوچار کرتا ہے اور الفاظ کی بدلی ہوئی ترتیب کا انکشاف ہونے پریہ تحیر فوراً ہی قہقہے یا مسکراہٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفی کی نثر اپنی زبان اور انداز کے سبب ایک الگ شانِ دل رُبائی رکھتی ہے اور ان کا شمار اردو کے بڑے مزاح نگاروں کے ساتھ اردو کے صاحب ِ اسلوب نثر نگاروں میں بھی ہونا چاہیے۔