گلگت بلتستان الیکشن 2020: کون ہوگا کس کے مقابل ؟

October 19, 2020

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

فیض سیفی، وجیہہ اسلم

عبد اللہ لیاقت، حافظ شیزار قریشی

گلگت بلتستان انتخابات کا طبل بج چکاہے۔سیاسی جماعتیں انتخابی دنگل کیلئے پہلوان اکھاڑے میں اتار چکی ہیں۔کوئی پرانے انتخابی گھوڑوں کولیکر جیت کیلئے پر اعتماد ہے تو کوئی نئے سیاسی چہروں کو مقابلے میںلانے کو تیار ہے۔جہاں سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے وہیں انتخابی پرندے گھونسلے بدلنے کو بھی تیار نظر آتے ہیں۔15 نومبر 2020ء کوصوبہ گلگت بلتستان کے دس اضلاع کی 24 نشستوں پر براہ راست الیکشن منعقد ہورہے ہیں ۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق صوبہ بھر میں548 امیدوار مقابلے کیلئے تیار ہیں۔جی بی میںکل ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے جس میںمرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5ہزار 363 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہیں۔تادم تحریر حکمراں جماعت تحریک انصاف نے 24،پیپلزپارٹی نے بھی 24 جبکہ مسلم لیگ نواز نے 18میدان میںاتارے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام ف نے 12، اسلامی تحریک پاکستان نے 8 امیدوار، مجلس وحدت المسلمین کےچار جبکہ جماعت اسلامی نے تین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔جنرل نشستوںپر خواتین کے انتخاب کی بات کی جائے تو تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اور مجلس وحدت المسلمین نے ایک ،ایک خاتون امیدوار کو مقابلے کیلئےمیدان میںاتارا ہے۔الیکشن 2020 ء میںمجلس وحدت المسلمین اور تحریک انصاف چند نشستوں پرسیاسی اتحاد کیساتھ الیکشن کا حصہ ہیں۔گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ آزاد کشمیر اسمبلی سے زیادہ مختلف نہیں ،مرکز میںحکمراں جماعت ہی یہاں بھی حکمرانی کرتی رہی ہے۔مسلم لیگ نواز ہو یا پیپلزپارٹی دونوں نے اپنے اپنے دور حکومت میںجی بی میںحکمرانی کی۔

تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیاجائے توامیدواروں کےسیاسی جوڑ توڑ جاری ہیں ۔ماضی میںحکمراں جماعت مسلم لیگ نواز کے چار بڑے امیدوار اپنے سیاسی گھونسلے تبدیل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ان امیدواروں میںسابق اسپیکر اسمبلی حاجی فدا محمد شاد،سابق وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حاجی حیدر خان، سابق وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی اور سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر محمداقبال شامل ہیں۔ن لیگ کے کچھ امیدوار بطور آزاد انتخابی عمل کاحصہ ہیں۔اس کے علاوہ بیشتر امیدوار ناراضی کے باعث اپنی سیاسی جماعتیں چھوڑ کر آزاد حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں۔

سیاسی ماہرین کا کہناہے کہ چونکہ مرکز میںتحریک انصاف حکومت میںہے جس کی وجہ سے ان کے جیت کے امکانات زیادہ ہیں اور یہاں کی سیاسی تاریخ بھی ایسی ہی ہے۔اب دیکھنایہ ہوگاکہ ماضی کی تاریخ کے مطابق نتائج برقرار رہتی ہیںیا تاریخ کے برعکس نتائج سامنے آتے ہیں۔