چھوٹے ڈیم، بڑے فائدے

October 20, 2020

یہ رواں برس ستمبر کے مہینے کے پہلےہفتےکی بات ہے، جب سندھ سمیت پورے ملک سے طوفانی بارشوں سے ہونے والے کافی جانی اور مالی نقصانات کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہی تھیں۔ایسے میں یہ خبر آئی کہ کارونجھر پہاڑ کے ارد گرداربوں روپے خرچ کرکے بنائےگئے پندرہ سےزاید چھوٹے ڈیمزناکارہ ہوجانے کی وجہ سے ہزاروں کیوسکس پانی رن آف کچھ میں جانے لگا۔

مردان خیل ڈیم کرک

خبر میں بتایا گیا تھا کہ مزید گیارہ ڈیمز کا تعمیراتی کام تعطل کاشکارہے۔ نگرپارکرمیں کارونجھر پہاڑ سے برسات کےدوران جاری ہونے والی نہروں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیےبائیس چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے گئے ہیںجن میںسے نصف پانی جمع کرنے والےاور باقی ری چارج ڈیمز ہیں جن کا پانی زیرِ زمین جذب ہوجاتا ہے ۔ مگر دیکھ بھال اور مرمت نہ ہونےکے سبب پندرہ سے زایدچھوٹےڈیمز ناکارہ ہوچکےہیں۔اس سال ہونے والی بہت زیادہ بارشوں کے باجودیہ ڈیم مکمل طورپر پانی سے بھر نہ سکے۔اس کی وجہ ڈیمزکے حفاظتی بنداور ڈھانچے کا کم زور ہونا ہےجس کےنتیجے میں ہزاروں کیوسک پانی رن آف کچھ میں گر رہا ہے۔

اسمال ڈیمز ڈپارٹمنٹ سندھ کے نمائندے بشیر کھوسوکے حوالے سے خبر میں بتایا گیاتھا کہ اس علاقے میں کُل بائیس چھوٹے ڈیمز ہیں جنہیںاستعمال میں لایا جا رہاہے اورمزید گیارہ ڈیمززیر تعمیر ہیں۔اس وقت کچھ اسٹوریج ڈیمزمیںدس تا پندرہ فیٹ پانی جمع ہے۔دوسری جانب نگرپارکر کے مکینوں کاخبر میں یہ موقف پیش کیا گیا تھا کہ دو درجن سے زاید اسمال ڈیمز ہونے کے باوجود پانی ذخیرہ نہیں ہو پارہا اورجمع شد پانی ایک ہی ماہ میں ختم ہو جاتاہے اور قابل استعمال اس لیے نہیں رہتا کہ اسٹوریج ڈیمز کی صفائی عرصے سے نہیں ہو سکی ہے۔واضح رہے کہ ان میں سے ہر ایک ڈیم پانچ سے دس ایکڑ پر مشتمل ہے اور اس پر دس کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔

دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ دادو اور جام شورو کے مغرب میں کیر تھرکے پہاڑ موجود ہیں۔ ان پہاڑوں میں کئی قدرتی چشمے موجود ہیں جن سے صاف شفاف پانی نکلتاہے،لیکن وہ پانی میلوں تک بہتا ہوا ضایع ہوجاتا ہے۔یہ پانی مفید اندازمیںاستعمال میںلانے کا کوئی انتظام نہیںہے۔اگر یہ پانی ذخیرہ کرنےکےلیے چھو ٹے چھوٹے ڈیمز بنادیے جائیں تواس پانی سے ہزاروں ایکڑ اراضی کو آبادکیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ علاقےکے لوگوں اور مویشیوں کو پینے کے لیے بھی پانی میسرآجائے گا ۔یادرہے کہ اس علاقے کے لوگ اور جانور موسم گرما میں پانی کے لیے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔

وہاں تیل تلاش کرنےوالی کئی کمپنیزکے منصوبے بھی چل رہے ہیں۔ اگر ڈیمز بن جائیں تو انہیں بھی سہولت ہوگی،کیوں کہ وہاں کام کرنے والے افراد کے لیے بہت مشکل سے اور دور دراز سے ٹینکوں کے ذریعے پانی لایا جاتاہے۔اگر یہ ڈیمز بن جائیں تو پہاڑوں کے وسط میں واقعےاس علاقے کو بھی خوش حالی نصیب ہو سکےگی۔

ایک اور بُری خبر

مسلم لیگ ن کےپچھلے دور حکومت میں بھی کئی ڈیمز تعمیر کیے گئے تھے، لیکن ان ڈیمز کے لاحاصل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے دور کے چارسو ڈیمز میں سے دس ڈیمز کا نمونہ کے طور پر معائنہ کیا گیا تو حیرت انگیز طور پر ان منصوبوں کے ناکام ہونے کا انکشاف ہوا ۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ پوٹھو ہار کے علاقہ میں دس ڈیمز کا معائنہ کیا گیا توان میں سے نو منی ڈیمز کو لاحاصل قرار دے دیا گیااور ایک ڈیم صرف 19 فیصد زرعی رقبے کو سیراب کرنے کا باعث بن سکا۔نو ڈیمز کی تعمیر پر خرچ کردہ خطیر رقم ضایع ہوگئی اور ان کی تعمیر سے ایک انچ بھی رقبہ سیراب نہیں ہوسکا ۔

آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی 16-2015ء کی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ چار سوڈ یم تعمیر کرنے کے منصوبے کاجائزہ لینے کے لیے 38 مختلف ڈیمز کا چناؤ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ راولپنڈی،اٹک اور چکوال میں تعمیر کردہ نو ڈیمز سے کسانوں کو زرعی رقبہ سیراب کرنے کے ضمن میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان نوڈیمز کی تعمیر سے ایک انچ بھی رقبہ سیراب نہ ہوسکا ۔ا ن کی تعمیر اس انداز سے ہوئی کی جمع شدہ پانی زرعی رقبے کو سیراب کرنے کے لیے استعمال نہ ہوسکااور یہ جمع شدہ پانی ضایع ہوگیا۔ زرعی اراضی کو پانی پہنچانے کے لیے پی وی سی پائپس کی تنصیب بھی درست انداز میں نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان ڈیمز کی تعمیر کا مقصد قابل کاشت اراضی میں اضافہ کرکے اسے بروقت پانی پہنچانا تھا، لیکن ان ڈیمز کی تعمیر اس انداز میں کی گئی یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا اور ان نوڈیمز پر خرچ کی گئی رقم ضایع تصور ہوئی\۔اسی طرح اس رپورٹ میں یونین کونسل رینال اور منگوال میں تعمیر کردہ ڈیمز میں پانی موجود ہی نہیں تھا۔ان دونوں ڈیمز کی ناقص تعمیر کی وجہ سے ان میں پانی جمع نہ رہا،دونوں ڈیمز پر خرچ ہونے والی 3000000روپے کی رقم کو ضائع قراردے دیا گیا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آڈٹ ٹیم نے جہلم میں ایک ،اٹک میں ایک ،را ولپنڈی میں ایک، چکوال میں تین ڈیمز کی جگہو ں کا معائنہ کیا۔ کل چھ جگہوں پر تعمیرکردہ ڈیمز کا معائنہ کرنے کے بعد آڈٹ ٹیم نے قرار دیا کہ جن جگہوں پر ڈیمز تعمیر کیے گئے وہ ڈیمز کی تعمیر کے لیے موزوں نہیں تھیں۔آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ چار سو ڈیمز کی تعمیر کے معاملے کی انکوائر ی کی جائے اور انتظامیہ اس منصوبے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے ۔

ہزاروںچھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز بنانا ممکن ہے

پنجاب، پانچ دریائوں کی سرزمین، بالائی علاقے ان کا سرچشمہ، سندھ ان کے مجموعے ’’دریائے سندھ‘‘ کی گزر گاہ کے حوالے سے بلاشبہ دنیا کے زرخیز ترین زرعی خطوں میں شمار ہوتے ہیں جو گندم، چاول، مکئی، کپاس اور دوسری اجناس و سبزیات اور پھلوں کی پیداوار میں وطنِ عزیز کو منفرد مقام دیتے ہیں۔ اسی طرح چاروں موسم قدرت کا حسین تحفہ ہیں۔ان میں سے ایک گرمی کا موسم اپنے ساتھ مون سون لےکر آتا ہے جس سے دریا، ندی نالے، سب ہی سیر ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ سیلابی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں، مگر ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہم اس طرح حاصل ہونے والا لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں پھینک کر ضایع کر دیتے ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ملک کا بہت سا رقبہ بنجر رہ جاتاہے۔

تہتّربرس گزرگئے،لیکن ہم آج تک سیلابی پانی ڈیمز بنا کر محفوظ نہیں کر سکے۔گزشتہ برس نومبرکے مہینے میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ایک اجلاس میں یہ خوش خبری سنائی تھی کہ جنوبی پنجاب میں کوہِ سلیمان کے علاقوں میں فلڈ مینجمنٹ کے طور پر ڈی جی خان اور راجن پور کے اضلاع میں تیرہ رود کوہی ڈیم بنانے کی فزیبلٹی موجود ہے۔یہ ایک نہایت قابلِ عمل منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے متذکرہ اضلاع میں پہلے مرحلے میں سات چھوٹے ڈیم تعمیر ہوں گے۔

ملک کے میدانی علاقے بالعموم اور بالائی بالخصوص، جن میں خطہ پوٹھوہار، خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان شامل ہیں، قدرتی لحاظ سے ہزاروں چھوٹے اور درمیانے ڈیم بنانے کےلیے نہایت موزوں ہیں جن پر ماہرین اب تک سیر حاصل تحقیقی مقالے بھی پیش کرچکے ہیں۔ان کی تحقیق کی روشنی میں اب مزید تاخیرکیے بغیر متعلقہ حکومتوں کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ آب پاشی کے ساتھ آب نوشی کے لیے بھی درپیش ممکنہ چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔

خطّہ پوٹھوہار کی قسمت بھی بدل سکتی ہے

زرعی ماہرین کے مطابق خطّہ پوٹھوہار میں سیکڑوں چھوٹے ڈیمزکے ساتھ مزید چھ ہزارمنی ڈیمز کی تعمیر کی گنجایش موجود ہے جو کسانوں کی تقدیر بدل دیںگے۔ خطہ پوٹھوہار میں برسات کاپانی ذخیرہ کرنےکے ناکافی وسائل کے باعث سالانہ ساڑھے تین ملین ایکڑ فیٹ پانی ضایع ہوجاتا ہے اوربڑے پیمانے پر زمینی کٹائو کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے . زرعی ماہرین کے مطابق خطہ پوٹھوہار میں بڑی تعداد میں منی ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق خطہ پوٹھوہار میں ہر سال ایک اعشاریہ اٹّھاسی ملین ایکڑ فیٹ برسات کا پانی ضایع ہو جاتاہےاور صرف بارہ فی صد یاصفر اعشاریہ بائیس ملین ایکڑ فیٹ پانی ہی چھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز کی مددسے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کے بہ قول اس خطّے میں پانی کی آمد زیادہ اوراسے ذخیرہ کرنے کی استعدا د کم ہونے کی وجہ سے پانی کا ضیاع ہو رہاہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں چھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز بناکر نہ صرف زمینی کٹائو روکا جاسکتا ہے بلکہ ضایع ہونے والے پانی کا سود مند استعمال کر کے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اورزیرِ زمین پانی کی سطح بلند کرنے(واٹر ری چارجنگ ) میں بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پوٹھوہار سمیت اگر ملک کے دیگر علاقوں میں چھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز تعیر کردیے جائیں تو زرعی زمینوں کی آبادکاری سےدیہی علاقوں سے آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی ازخود رک سکتی ہے، کیوں کہ دیہی علاقوں میں ہی روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔تحقیق بتاتی ہے کہ جن علاقوں میںچھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز اور تالاب تعمیرکیے گئے وہاں موسمیاتی تبدیلیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور ان اقدامات کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہو نا شروع ہو گئی،روزگار کے مواقعے بڑھے اور ماہی پروری اور گلہ بانی کے شعبے کو تقویت مل رہی ہے۔ یہ اقدامات دیہی ترقی کےلیے بہت مثبت تبدیلی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چھوٹے کیوں، بڑے ڈیمز کیوں نہیں؟

بہت سے ماہرینِ آب کے نزدیک بڑےڈیمزکسی بھی ملک میں مسئلے کابہتر حل نہیں ہیں۔ مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی،جام شورو، سندھ کے سینٹر آف انجینئرنگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ڈائیریکٹر،پروفیسر مشتاق میرانی کے نزدیک بڑےڈیمز کی حمایت کرنے والے ان کے نتیجے میں ہونے والی ہائیڈرولوجیکل تبدیلیوں اور نقصانات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کے مطابق بڑےڈیمز کی ضرورت پر بحث ہر سیلاب کے بعد ہوتی ہے۔

مشتاق میرانی کے مطابق بڑےڈیم تعمیر کیے جانے سے پہلے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بہت احتیاط کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، کیوںکہ ڈیم ڈاؤن اسٹریم میں پانی کے قدرتی بہاؤ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ ان کی تعمیر میں بہت زیادہ سرمایہ لگتا ہے اور مقامی افراد اور جنگلی حیات کو دربدری جھیلنی پڑتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک بڑے ڈیم شدت پسندوں کا آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں، جیسے کچھ عرصہ قبل عراق میں موصل ڈیم بنا تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیڈ بزنس اسکول کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق بڑے ڈیمز کی نہ صرف اقتصادی، بلکہ انسانی اورماحولیاتی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ 2000ء میں ڈیمز پر عالمی کمیشن کی تحقیق کے بعد بڑے ڈیمز کے قابل عمل اور فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے آزاد تحقیق کم ہی ہوئی ہیں۔ 2000ء تک دنیا بھر میں بڑےڈیمز کی تعدادسینتالیس ہزار سے زیادہ ہوگئی تھی۔ آٹھ لاکھ چھوٹے ڈیمز اس کے علاوہ ہیں۔

آکسفورڈ کی اس تحقیق میں 65 ممالک کے 245 بڑے ڈیمز کا مطالعہ کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق بڑے ڈیمز نے ممالک کو بھاری قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ تحقیق کے مطابق چھوٹے اور جلدتعمیرہوجانےوالےہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس کو زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق برازیل، چین، ایتھوپیا، اور پاکستان جیسی بڑھتی ہوئی معیشتیں تیزی سے ڈیمز کی تعمیر کی طرف جارہی ہیں۔

سابق سفیر، اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے عہدےدار شفقت کاکاخیل کے مطابق سیلابی پانی کا رخ موڑنے یا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز واحد بہترین حل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق جس طرح کے سیلابوں کا ہمیں چند برسوں سے سامنا ہے انہیں سنبھالنے کے لیے مختلف سائز کے ڈیمز مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن یہ کئی موجود راستوں میں سے صرف ایک راستہ ہے۔

ری چارج اور چیک ڈیم

چیک ڈیم عام طور پہ ایک عارضی بند یا پشتہ ہے جو برساتی پانی کے بہاؤ اور کٹاؤ کو روکنے کا کام کرتا ہے۔ اس کے ذریعے چھوٹے سیلابی بہاؤ کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ چیک ڈیم عام طور پربرساتی ندی نالوں کے راستے میں بنائے جاتے ہیں۔

یہ پتھر، مٹی یا گارے، لکڑیوں اور سیمنٹ سے بن سکتے ہیں۔ان کی چوڑائی ان کی اونچائی سے زیادہ ہونی چاہیے، بنیاد مضبوط بنانی چاہیے اور پانی گرنے کی جگہ پتھر ڈالنے چاہئییں۔چیک ڈیم کی اونچائی ایک سے دو میٹر تک ہوسکتی ہے، لیکن دو میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

اگر آپ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں یا ایسے علاقوں میں جہاں زمین ٹیلوں کی شکل میںہے یا وہاں نشیب و فراز ہیں تو آپ چیک ڈیم بناکر ایک تو برساتی پانی ذخیرہ کرکےدرخت اور فصلیں اگانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ان کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سیلابی پانی کا بہاؤ دھیما کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح نشیبی علاقوں میں نقصان کا اندیشہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ چیک ڈیم کے اطراف زمین میں نمی آجاتی ہے اور وہاں درخت اور پودے اگ آتے ہیں۔ ایسی زمین فصل یا درخت اگانے کے لیے موزون بن جاتی ہے۔ اس طرح زیرِ زمین پانی بھی ری چارج ہوجاتا ہے۔

ری چارج ڈیم بھی کم و بیش اسی طرح بانئے جاتے ہیں۔یعنی ندی نالوں کے ساتھ یا برساتی پانی کی گزر گاہوں کے آس پاس۔پانی کے چاروں طرف کسی بھی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے یا گہرے گڑھے کھود کر ری چارج ڈیم کا سادہ سا ماڈل بنایا جاسکتا ہے۔ان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے آس پاس کے علاقے میں زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے۔

کوئٹہ اور بنگلورکا موازنہ

بلوچستان میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گر جانے سے قلت آب کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ڈیمز اور ری چارجنگ پوائنٹس نہ بنائے گئے تویہ صوبہ صحرا میں تبدیل ہوجائے گا۔بلوچستان میں نصف صدی قبل کاریز اور چشموں کا پانی دور دور تک بہتا دکھائی دیتا تھا اور20سے 25 فیٹ تک کنوؤں کی کھدائی پر پانی نکل آتا تھا۔ لیکن پھر صوبے میں بجلی کے آتے ہی دھڑا دھڑ ٹیوب ویل لگنا شروع ہوگئے۔

دوسری جانب حکومت نے نہ تو ڈیمز بنائے اور نہ ہی غیر قانونی ڈرلنگ روکنے کے لیے قانون سازی کی۔چناں چہ اب صورت حال یہ ہے کہ اس وقت صوبے کے طول وعرض میں 6 ہزار سے زائد ٹیوب ویلزپانی نکال رہے ہیں اور رہی سہی کسر طویل خشک سالی اور آبادی کے اضافے نے پوری کر دی ہے۔

بلوچستان میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح 2 ہزار فٹ تک گر جانے سے بیش تر اضلاع میں زراعت تباہ ہو گئی ہے۔ کوئٹہ اور گوادر کے باسیوں کو پینے کے پانی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ماہرین نے یہ کہہ کر خطرے کی ایک اورگھنٹی بجا دی ہے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زمین سالانہ دس سینٹی میٹر دھنس رہی ہے۔ کوئٹہ کے باسیوں کو پانی فراہم کرنے والے ادارے واسا کے حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پانی کی ضرورت 5 کروڑ گیلن روزانہ ہے مگر واسا کی جانب سے شہریوں کو 3 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ 2 کروڑ گیلن پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

کوئٹہ شہر میں واسا کے 417 ٹیوب ویلز ہیں جن میں 100 کے لگ بھگ ٹیوب ویلز خراب ہوچکے ہیں۔ واسا کے حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے منگی ڈیم پر کام جاری ہے، جو 2 سال میں مکمل ہو جائے گا، اس ڈیم سے شہر کو یومیہ 8 کروڑ گیلن پانی مل سکے گا، جس سے شہر میں پانی کا مسئلہ کچھ عرصے کے لیے حل ہوجائے گا۔

ماہرینِ آب کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت جو پانی استعمال کیا جارہا ہے وہ آئندہ نسلوں کے حصے کا پانی ہے۔قلت آب کے باعث صوبے سے لوگوں کی ہجرت روکنے کے لیے حکومت کو ڈیموں اور ری چارجنگ پوائنٹس کی تعمیر کے ساتھ ایک جامع آبی پالیسی بھی نافذ کرنا ہوگی۔

دو برس قبل یہ خبر آئی تھی کہ وفاقی حکومت نے کوئٹہ میں زیرِ زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح سے نمٹنے کے لیے منصوبہ تیار کر لیاہے۔ پانی کی زیرِ زمین سطح بہتر کرنے کے لیے 129 چیک ڈیمز تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ضلع کوئٹہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح بہتر کرنے کے لیے چیک ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔

چیک ڈیمز کی تعمیر پر 29 کروڑ 83 لاکھ روپے سے زاید لاگت آئے گی اور ڈیمز کی تعمیر سے 1100 ایکڑ فیٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے ضلع کوئٹہ کے 800 ٹیوب ویلوں میں پانی کی سطح بلند ہوگی۔ چیک ڈیمز کی تعمیر سے بلوچستان میں 8 ہزار ایکڑ زمین بحال ہو گی جبکہ ڈیمز کی تعمیر سے 10 ہزار ایکڑ زمین کا کٹاؤ روکنے میں مدد ملے گی۔لیکن پھر اس منصوبے کا کیا ہوا،کچھ پتا نہیں۔

بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے ایک سینئر عہدے دار کے مطابق کوئٹہ کو طویل عرصے سے صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ واسا پانی کی فراہمی اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی روڈ میپ بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ فنڈز کی عدم دست یابی کی وجہ سے زیادہ تر مقامی ٹیوب ویلز غیر فعال ہیں۔ واسا کےحکام کے مطابق شہر میں2500سے زیادہ سرکاری اور نجی ٹیوب ویلز چل رہے ہیں۔

مزید ٹیوب ویلز کے لیے فنڈز مختص کرنے کے بعد ڈیمز کی تعمیر اور پرانے آب پاشی کے کاریز سسٹم کو بحال کرنے پر توجہ دی جائے۔ ساتھ ہی کوئٹہ میں پرائیویٹ بورنگ کرنے والوں پر سختی کی جائے اورباقاعدہ لائسنس یافتہ افرادیاکمپنیز مخصوص علاقوں میں بورنگ سے پانی نکالیں کیوں کہ یہ عمل زمین کو تیزی سے چھلنی کر رہا ہے۔

بعض ماہرینِ شہری منصوبہ بندی کے مطابق حکومت ِ بلوچستان کوئٹہ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق اربن پلاننگ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے یہاں پانی کا بحران شدید تر ہو تا جا رہا ہے۔ بلوچستان قدرتی طور پر ایک قحط سے بار بار متاثر ہونے والا علاقہ ہے، جہاں پانی کی قلت کوئی نئی بات نہیں۔ برطانوی راج میں تعمیر ہونے والی ہنہ جھیل اور اس سے منسلک آب پا شی کا نظام آج بھی ایک بڑے علاقے کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے، مگر افسوس کا مقام ہے کہ ٹینکر مافیہ نے ہنہ جھیل کو بھی نہیں بخشا اور دو برس قبل پمپوں سے پانی نکالنے کے باعث یہ جھیل مکمل طور پر خشک ہو گئی تھی۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نہ صرف پرانے کاریز سسٹم کو بحال کیا جائے بلکہ جلد از جلد نئے ڈیمز اور پانی کے ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ اس کے ساتھ غیر قانونی بورنگ کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

آئیے،اب پڑوسی ملک بھارت چلتےہیں۔وہاں بھی ایک شہر کوئٹہ جیسی صورت حال کا سامنا کررہا ہے ،لیکن زرا مختلف انداز میں۔یہ شہر بنگلور ہے۔وہاں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کی غرض سے جو چیک ڈیم تعمیر کیا گیاہے اس سے شہر میں پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوا ہے ۔بنگلور سٹی ضلع رورل ڈرنکنگ واٹر اینڈ سینی ٹیشن ڈپارٹمنٹ نے شہر کے بیرونی علاقوں اور آنیکل تعلقہ کے 22 دیہاتوں میں چیک ڈیم تعمیر کیا ہے ۔ نالوں میں بہنے والا بارش کا پانی روک لیے جانے کی وجہ سے چیک ڈیم میں پانی کی سطح بڑھ گئی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلور ضلع کے 96 گرام پنچایتوں کی حدود میں 812 دیہات ہیں۔ گرمی کا موسم شروع ہونے کے فوری بعد ان علاقوں میں پانی کی شدید قلت پیش آتی تھی ۔

چند دیہات میں بورویل خشک ہوجانے کے سبب مکینوں کو ایک گھڑا پانی لانے کے لیے کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا تھا ۔ پانی کی سطح میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے بورویل کھودنے کے باوجود پانی فراہم نہیں ہوتا تھا ۔ چیک ڈیم کی تعمیر کے بعد پانی کی قلت میں سدھار آیا ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ بنگلور کے مشرقی تعلقہ کے آڈور، این جی گولہلی، کاڈو سونپن ہلی، آنیکل کے داسن پورہ، انڈلواڈی سمیت 22 دیہات میں چیک ڈیم تعمیر کیا گیاہے ۔ بارش کے پانی کو چیک ڈیم میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کیے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں گرمی کے موسم میں بھی ڈیم خشک ہونے کے امکانات نہیں ہیں ۔ کئی چیک ڈیمز میں پانی کی سطح زیادہ ہے۔

ان چیک ڈیمز کی تعمیر پر کُل 1.76کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ آنیکل تعلقہ میں 5چیک ڈیم تعمیر کرنے کے لیے54 لاکھ، مشرقی بنگلور کے 4 چیک ڈیمز کے لیے 22 لاکھ ،شمالی بنگلور تعلقہ کے 8 چیک ڈیمز کے لیے61 لاکھ اور بنگلور ساؤتھ میں چیک ڈیم کی تعمیرکے لیے 39 لاکھ روپئے خرچ کیے گئے۔یوں اب آنیکل تعلقہ کے 6 دیہات کے سوا شہر کے کسی بھی تعلقے میں پینے کے پانی کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ ان 6 دیہات کو ٹینکرزکے ذریعےپانی فراہم کیا جارہا ہے۔