چھوڑیے صاحب

October 20, 2020

گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے فلاپ شو کے بعد پیپلز پارٹی کی میزبانی میں کراچی میں نسبتاً بہتر جلسہ ہو گیا ہے۔ دو دِنوں میں کچھ لوگوں کے سافٹ ویئر بھی تبدیل کر دیے گئے ہیں، مریم نواز کے سافٹ ویئر کی اپ گریڈیشن سے متعلق ڈاکٹر شہباز گل نے بہت کچھ بتا دیا ہے۔ چپ رہنے والے سے متعلق چوہدری اعتزاز احسن نے قوم کو حقائق سے آگاہ کیا کہ کس طرح راولپنڈی سے ایک ٹیلی فون کال کے بعد مسلم لیگ کے ’’بہادر‘‘ قائد تقریر کرنے ہی سے مکر گئے، ورنہ کراچی جلسے کے انچارج پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے تو صبح سویرے ٹویٹ کر دیا تھا کہ ’’جلسے کے انتظامات مکمل ہیں۔ نواز شریف کی تقریر کے انتظامات بھی کر لئے گئے ہیں‘‘۔

پی ڈی ایم کے قائدین کو کیا پتا تھا کہ خود کو کبھی قائداعظم ثانی اور کبھی امام خمینیؒ کہلوانے والا، مٹھو سے بھی گیا گزرا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مٹھو کون تھا۔ مٹھو سیالکوٹ میں سات بہنوں کا ایک بھائی تھا، گھر میں بہنوں کے سامنے شیر بنا رہتا تھا، اِسی کیفیت میں گلی میں نکلتا تو مار کھا کے آ جاتا، مٹھو پر شیر کی یہ کیفیت ہر دو چار مہینے بعد طاری ہو جاتی تھی، وہ ہر بار اِس جعلی کیفیت میں باہر نکلتا اور ہر بار مار کھا کے آ جاتا، جونہی گھر آتا تو بہنیں کہنا شروع کر دیتیں... ’’مٹھو ہمارا شیر ہے‘‘۔ رفتہ رفتہ مٹھو پر یہ کیفیت آ گئی کہ دروازہ بھی ہوا سے ہلتا تو وہ بہنوں سے کہتا کہ ’’مجھے مارنے والے لڑکے آ گئے ہیں‘‘۔

بہنیں اُسے تسلیاں دیتیں مگر مٹھو کہتا ’’نہیں یہ مجھے ماریں گے، اب میں بولا تو یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے، یہ سارے لڑکے میرے دشمن ہیں اور محلے والے سب کے سامنے میرا تماشا دیکھتے رہتے ہیں‘‘، آخر ایک وقت آیا کہ مٹھو نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا۔

خواتین و حضرات! مسلم لیگیوں نے اپنے قائد کو ایک زمانے میں قائداعظم ثانی کہا۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ کہاں قائداعظمؒ جیسا اصول پرست سچا اور کھرا انسان جس نے دلیری اور بہادری سے حالات کا سامنا کیا اور کہاں ایک ایسا شخص جسے ہر وقت خوف رہتا ہے، کبھی مال کے چھن جانے کا خوف اور کبھی جیل جانے کا خوف۔

ایک موقع پرست، کرپٹ اور بےاصول شخص کا موازانہ قائداعظمؒ سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اب نئے دور میں مسلم لیگی اپنے قائد کو امام خمینیؒ کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔

امام خمینیؒ کا گھر ایک چھوٹی سی گلی میں تھا، اُس گھر کے دو کچے کمرے تھے، ایک قالین، دو پیالے اور کپڑوں کے دو جوڑے تھے جب کہ خواب دیکھنے والوں کے لیڈر کی ابتدا ہی جھوٹ سے ہوتی ہے، میں یہاں عابدہ حسین کی کتاب کے مندرجات کا حوالہ نہیں دینا چاہتا کہ کس کا خاندانی پس منظر کیا تھا۔ امام خمینیؒ سے موازنہ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ مسلم لیگی قائد کی جائیدادیں پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور یہ بھی یاد نہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔

مشکل حالات سے بھاگ جانا تو لیڈروں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ پہلے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے سعودی عرب چلے گئے پھر بیماری کا سدا بہار بہانہ بنا کر لندن پہنچ گئے۔ اب بھی ترلے منتوں کے بےشمار فون کرنے کے بعد اور بقول اعجاز الحق ’’اداروں کے سربراہ تو دور کی بات میں نے شہباز شریف کو اُن کے رشتہ داروں کے ہاں کم از کم نصف درجن مرتبہ ترلے کرتے دیکھا ہے‘‘۔

کیا کیا جائے درجن کی باتوں کے ساتھ ہی بلاول کی یاد آ جاتی ہے اسی لئے لوگوں سے کہتا ہوں کہ کم از کم گریجویشن تک اپنے بچوں کو اپنے ملک میں ضرور پڑھائیں تاکہ اُنہیں کلو اور درجن کا فرق تو معلوم ہو سکے۔

سابق صدر پاکستان کے فرزند اعجاز الحق نے حال ہی میں اپنی تقریروں میں کچھ حقائق بیان کئے ہیں کہ کس طرح لال شرٹ پہن کر ایک نوجوان گورنر ہائوس پہنچا، کس طرح ویٹر کی پگڑی اُسے پہنائی گئی۔ ایک ناکام اداکار اور ناکام کرکٹر کے علاوہ بزنس میں بھی ناکام نظر آنے والے نوجوان کو پنجاب اسپورٹس بورڈ کی چیئرمینی، مشاورت اور اُس کے بعد وزارت کیسے ملی؟ کیسے وہ وزیراعلیٰ بنا اور پھر آئی جے آئی بننے کے بعد جب پیسے ملے تو کس نے جزاک اللہ کہہ کر وصول کئے، اعجاز الحق بتاتے ہیں کہ ’’پانچ لاکھ کا تھیلا میرے گھر بھی آیا تھا مگر میری ماں نے مجھ سے کہا کہ یہ فوراً واپس کرو، میرا باپ جب شہید ہوا تو اُس کے اکائونٹ میں دو لاکھ اور چند ہزار روپے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ گلگت سے واپسی پر میں نے نواز شریف کو 55منٹ تک سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا، کس طرح منگلا کے کور کمانڈر کو خفیہ طور پر میاں شریف سے ملوانے کے لئے لے جایا گیا، کس طرح سیف الرحمٰن کے ذریعے کور کمانڈرز کو بی ایم ڈبلیوز کی چابیاں بھجوائی گئیں اور پھر کس طرح جنرل آصف نواز نے اُن چابیوں کو واپس کروایا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ فوج کو کرپٹ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

جنرل آصف نواز مرحوم نے اُس وقت چوہدری پرویز الٰہی کو کیا پیغامات دیے تھے، یہ پیغامات اب بھی چوہدری برادران سے پوچھے جا سکتے ہیں۔ کرپشن سے یاد آیا کہ جن لوگوں نے وہ گاڑی دیکھی ہے جس میں جنرل عثمانی کی وفات ہوئی، اُنہیں سمجھ آ گئی ہو گی کہ کس قدر پرانی گاڑی اُن کے زیر استعمال تھی۔

منی ٹریل اور ذرائع آمدن نہ بتانے والے لیڈر سے متعلق کسی دن لکھوں گا کہ گیانی ذیل سنگھ نے کیا کہا تھا اور یہ بھی بتائوں گا کہ موصوف کو فوج سے مسئلہ کیا ہے، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید مغل سے کیا شکوہ ہے، جنرل ظہیر الاسلام کے ن لیگ کیوں خلاف ہے، یہ کہانی پھر سہی۔ بقول ناصرہ زبیری؎

اس گھر کا نگہبان ہے کچھ اور طرح کا