قصہ دو بدنصیب پڑوسیوں کا

October 20, 2020

بڑے بدنصیب اور بدبخت ہوتے ہیں وہ دو پڑوسی جو ہر وقت لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کی ترکیبیں سوچتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے، ایک دوسرے پر کالک تھوپتے رہتے ہیں۔ اِس نیک کام میں دونوں پڑوسی اپنے ہاتھ کالے کرلیتے ہیں۔ اِس طرح کے بدبخت پڑوسیوں سے آپ جب بھی ملیں گے، دونوں کو آپ رنگے ہاتھوں پائیں گے۔ نفرت کی منفی قوتیں بہت بھیانک ہوتی ہیں۔ آتش فشاں کے لاوے کی طرح نفرت آپ کے وجود میں کھولتی رہتی ہے۔ آپ ترستے رہتے ہیں، مگر آپ چین کی نیند سو نہیں سکتے۔ رات بھر آپ اِس لئے جاگتے رہتے ہیں کہ دشمن کہیں آپ کے گھر پر پتھرائو نہ کردے۔ اِس نوعیت کی آگ دونوں بدنصیب پڑوسیوں کے گھر میں لگی رہتی ہے۔ دشمنی کی دبیز تہوں تلے دب کر دونوں پڑوسی مثبت سوچ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بےچین کیوں رہتے ہیں؟ چڑچڑے کیوں رہتے ہیں؟ جب دیکھو غصے سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر آپے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ اپنے سائے سے ڈرنے لگتے ہیں۔ اپنی پرچھائیں دیکھ کر چونک جاتے ہیں۔ آپ کو پتا نہیں چلتا کہ آپ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں رہتے۔ آپ اپنی ذہنی پریشانیوں کو قبول نہیں کرتے۔ آپ کو تب بھی اپنی ذہنی پسماندگی کا پتا نہیں چلتا جب آپ اپنوں کو دشمن کا ایجنٹ سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنوں کی محبت اور ایثار پر شک کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ نفرت کی آگ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جھلس جاتی ہیں، اس لئے آپ اپنی خامیوں کی نشاندہی کی باتیں برداشت نہیں کرتے۔ آپ کو آپ کی خامیاں بتانے والے کو آپ آستین کا سانپ، دشمن اور جاسوس سمجھتے ہیں۔

دونوں بدنصیب اور بدبخت پڑوسی ایک دوسرے سے نفرت کی دوڑ میں اِس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ اُن کو احساس تک نہیں رہتا کہ ان کے اطراف دیگر پڑوسی اچھے پڑوسیوں کی طرح رہتے ہیں۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ بدنصیب پڑوسی اچھے پڑوسی ہونے کے آداب سے نابلد ہوتے ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے دنیا بھر میں اچھے پڑوسیوں کی بہتات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کی پرورش میں اپنے پڑوسی کے لئے نفرت کا بیج بو دیا جاتا ہے۔

نسل در نسل نفرت کے بیج کی آبیاری ہوتی رہتی ہے۔ آنے والی نسلیں اپنے آپ کو نفرتوں کے خاردار جنگل میں پاتی ہیں۔ رخصت ہونے والی نسل بڑی ایمانداری سے اپنے پڑوسی سے دشمنی اور نفرت کی میراث آنے والی نسلوں کو ورثے میں سونپ دیتی ہے۔ ورثے میں ملی ہوئی نفرت کی میراث پر آنے والی نسلیں اس لئے کاربند رہتی ہیں کہ ان سے پہلے آنے والی نسلوں نے برسہا برس نفرتوں کی آبیاری کی ہوئی ہوتی ہے۔ اپنے بڑے بوڑھوں کی طرح وہ بھی لگن سے نفرتوں کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔

قدرت کا قانون ہے کہ ہم سب ایک جیسے ذہین، ہوشیار، محنت کرنے والے، تخلیقی عمل میں رواں نہیں ہوتے۔ عین اسی طرح ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے پڑوسی ذہنی طور پر ایک سطح پر نہیں ہوتے۔ ایک پڑوسی دشمنی میں اس قدر آگے نکل جاتا ہے کہ اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دیتا۔ گھر کے معاشی حالات کو نظرانداز کردیتا ہے۔ گھر کے بگڑے ہوئے حالات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کی توجہ اپنے پڑوسی کو تباہ و برباد کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ پڑوسی سے نفرت کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے، اس کی مالی حالت خستہ ہوجاتی ہے۔ وہ اِدھر اُدھر سے قرض لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر دہکتی ہوئی نفرت کی آگ جب تک دشمن کو بھسم کرے، تب تک اپنے ہی وجود کی آگ اسے اور اس کے پریوار کو سلگاتی رہتی ہے۔ تب بھی وہ پڑوسی سے نفرت کی انتہائوں سے باز نہیں آتا۔ اس کے بچے آگاہی سے محروم اور ان پڑھ رہ جاتے ہیں۔ زندگی کی کشاکش اور آزمائشوں میں پورے نہیں اترتے۔ مگر گھر کے سربراہ کو قطعی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک پل پڑوسی سے نفرت کرتے ہوئے گزارتا ہے۔اس کے برعکس دوسرا پڑوسی اپنا سب کچھ دائو پر نہیں لگاتا۔ وہ اپنے پڑوسی سے دشمنی میں سبقت لے جانے کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ دشمن کو ٹھکانے لگانے کے لئے ترکیبیں سوچتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھر میں اگر بے چینی ہوگی، افراتفری ہوگی، غربت اور مفلسی ہوگی، وہ کبھی بھی دشمن کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیتا ہے۔ پیداوار اور آمدن میں کمی آنے نہیں دیتا۔ کسی کا مقروض نہیں بنتا۔ اس لئے وہ اپنا سب کچھ دوسرے پڑوسی کی طرح نفرت کی آگ میں نہیں جھونکتا۔ وہ اپنے وسائل کا دس فیصد نفرت کی آگ کو سلگائے رکھنے پر خرچ کرتا ہے اور نوے فیصد وسائل اپنے بچوں اور کنبے کی تعلیم تربیت، ہنرمندی اور بہبودپر خرچ کرتا ہے۔

کچھ ممالک بھی بدنصیب اور بدبخت پڑوسیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک پڑوسی ملک ذہین اور ہشیار ہوتا ہے۔ دوسرا ملک جذباتی اور جنونی ہوتا ہے۔ نام بتانا میں ضروری نہیں سمجھتا۔