مہنگائی کا ازالہ

October 21, 2020

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جس کے سوا دو سالہ دور میں گندم اور آٹے کی قیمت میں تقریباً 50فیصد اور چینی، پھلوں، سبزیوں، دالوں سمیت روز مرہ استعمال کی دیگر اشیائے خوردنی کے نرخوں میں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات ایک مستحسن عمل ہے جس کا آغاز اسلام آباد سے کیا جا رہا ہے جہاں پہلے مرحلے میں 9ہزار دکانوں کی مانیٹرنگ کی جائے گی اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حکومت نے مختلف اشیا کے جو نرخ مقرر کئے ہیں ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی گراں فروشی کے سدباب کیلئے پورے ملک میں کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ گرانی پر قابو پانے کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ بنیادی اشیائے ضرورت کی دستیابی اور ان کے نرخوں کو معقول سطح پر قائم کرنے کیلئے تمام انتظامی اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ اُنہوں نے درست نشاندہی کی کہ مہنگائی کی اصل وجہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ اِس پر قابو پایا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اُن کی ہدایت کی روشنی میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف پہلے ہی سخت کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ پنجاب میں مختلف مقامات پر چھاپوں کے دوران گزشتہ روز 475ٹن چینی اور تیس ہزار ٹن گھی قبضے میں لیا گیا۔ آٹا سستا کرنے کیلئے صوبوں سے سرکاری گندم جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پنجاب سے گندم کا سرکاری اجرا 16ہزار ٹن یومیہ سے بڑھا کر 20ہزار ٹن کر دیا گیا ہے جس کی مقدار ایک دو روز میں 25ہزار ٹن کر دی جائے گی۔ صوبوں سے کسانوں کیلئے گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کی تجاویز بھی طلب کر لی گئی ہیں۔ اس سے کاشتکاروں کو گندم کی پیداوار بڑھانے کی ترغیب ملے گی۔ پنجاب نے کم سے کم امدادی قیمت 1650روپے فی من کی تجویز دی ہے جبکہ اسلام آباد کی طرف سے 1745روپے کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک سینئر وفاقی وزرا نے امدادی قیمت بڑھانے سے اتفاق نہیں کیا۔ اس پر آئندہ فصل کیلئے گندم کی کم از کم امدادی قیمت پر غور کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو اپنی سفارشات کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔ حکومت گندم اور آٹے کی جو قیمتیں مقرر کرے گی اس کی نگرانی مقامی حکومتوں کے سپرد کی جائے گی۔ پنجاب میں عوام کو ضروری اشیا سستے داموں فراہم کرنے کیلئے ایک اور اہم اقدام سہولت بازاروں کا قیام ہے۔ اب تک ایسے 196بازار قائم کئے جا چکے ہیں اور ان کی تعداد 350تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زراعت میں استعمال ہونے والے آلات کی قیمتوں کومعقول بنانے پر زور دیا۔ اِس کے علاوہ فلور ملوں کو گندم کی فراہمی بڑھانے کا بھی جائزہ لیا جس سے آٹے کی قیمتوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ حکومت کے یہ اقدامات اسی وقت سودمند ہو سکتے ہیں جب ان کے ثمرات واضح طور پر عوام تک پہنچیں مگر پاکستان بیورو آف شماریات کی تحقیق پر نظر ڈالی جائے تو گندم اور چینی کی درآمد سمیت اب تک کئے جانے والے حکومتی اقدامات کے باوجود چینی اور آٹے کی قیمتیں بے قابو ہیں۔ کراچی میں 20کلو آٹے کا تھیلا ڈیڑھ ہزار میں بک رہا ہے۔ اسلام آباد اور پشاور میں چینی سب سے زیادہ مہنگی ہے ملک بھر میں ضروری اشیا کے سرکاری نرخ نظر انداز کئے جا رہے ہیں اور مہنگائی عروج پر ہے جس سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ حکومت نیک نیتی سے عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنا چاہتی ہے مگر اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت عوام کو گرانی کے عفریت سے بچانے کیلئے مزید کچھ کرے۔