’’روز ویلٹ ہوٹل‘‘ سازشوں کا شکار

October 21, 2020

امریکہ کے شہر نیویارک کا علاقہ مین ہٹن دنیا کا مہنگا ترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل ہمیں اُس عہد کی یاد دلاتا ہے جب قومی ایئر لائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔ 1924میں تعمیر ہونے والا 19منزلہ یہ ہوٹل نیویارک کی مہنگی ترین عمارتوں میں سے ایک ہے لیکن گزشتہ دنوں ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے اِس تاریخی ہوٹل کو 31اکتوبر سے مستقل طور پر بند کرنے کے اعلان نے پاکستانیوں کو مایوسی کے ساتھ حیرانی سے دوچار کردیا ہے۔

روز ویلٹ ہوٹل کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 1979میں پی آئی اے انویسٹمنٹ نے سعودی شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود سے مل کر یہ ہوٹل لیز پر حاصل کیا تھا۔ بعد ازاں 1999میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کو 3کروڑ 60لاکھ ڈالر میں خریدلیا۔

2005میں پی آئی اے نے سعودی شہزادے کے شیئرز بھی 40ملین ڈالر میں خریدلئے اور اس رقم کے مساوی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واقع ریاض منہال ہوٹل سعودی شہزادے کو ٹرانسفر کردیئے۔ اس طرح آج روز ویلٹ ہوٹل کے 99فیصد شیئرز پی آئی اے اور ایک فیصد شیئر سعودی شہزادے کے پاس ہیں۔

100برسوں سے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے والا یہ تاریخی ہوٹل امریکہ میں پاکستان کی شناخت تصور کیا جاتا ہے اور دنیا کی نامور شخصیات سمیت سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف، وزیراعظم عمران خان، آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سرتاج عزیز نیویارک میں اپنے قیام کے دوران اسی ہوٹل میں قیام کرچکے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ روز ویلٹ ہوٹل کو چلانے کیلئے ہوٹل انتظامیہ نے امریکی بینک جے پی مورگن سے 109ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کر رکھا تھا جسے بعد ازاں کسی دوسرے مالی ادارے نے اپنے نام ٹرانسفر کرالیا تھا تاہم گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ نے 109ملین ڈالر قرضہ اور 20ملین ڈالر اسٹاف کے بقایا جات کے سلسلے میں منظوری دی۔

اس طرح نیشنل بینک آف پاکستان نے یہ قرضہ مالی ادارے کو ادا کرکے ہوٹل کو قرضے سے آزاد کرالیا ہے اور اب روز ویلٹ ہوٹل کی عمارت پر کوئی قرضہ نہیں۔ یہ ہوٹل مسلسل منافع میں تھا اور گزشتہ سال ہوٹل نے تمام ٹیکس اور اخراجات کی ادائیگی کے بعد 28ملین ڈالر کا منافع ظاہر کیا۔ اِسی لئے ہوٹل کو اچانک بند کردینے اور پرائیویٹائز کئے جانے کی خبروں نے شکوک و شبہات کو جنم دیا اور یہ سوال پیدا ہوا کہ منافع میں جانے والے اِس ہوٹل کو بند کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟

اس طرح کی افواہیں گردش کررہی ہیں کہ پی ٹی آئی میں شامل کچھ مقتدر شخصیات اس پراپرٹی کو ہتھیانا چاہتی ہیں جس کی مالیت آج تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ گوکہ حکومت نے ابتدامیں یہ اعلان کیا کہ اس قیمتی پراپرٹی کو فروخت نہیں کیا جائے گا مگر بعد ازاں پرائیویٹائزیشن کمیشن نے جن اداروں کی نجکاری کی فہرست جاری کی، ان میں روز ویلٹ ہوٹل کی عمارت بھی شامل ہے۔ ماضی میں بھی ارباب اقتدار کی جانب سے اس ہوٹل سے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہ ہوسکیں۔

حکومت نے ہوٹل بند کرنے کی وجہ کورونا وائرس کی صورتحال کو قرار دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا کے باعث ہوٹل کے کاروبار میں مشکلات پیش آئی ہیں مگر ٹیکس میں چھوٹ، بیروزگار کئے گئے ملازمین کیلئے حکومت کی جانب سے بیروزگاری الائونس اور بزنس چلانے کیلئے بہت کم شرح سے بینکوں سے لئے گئے قرضوں سے مین ہٹن میں قائم دوسرے ہوٹل فائدہ اٹھارہے ہیں اور انہوں نے اپنے ہوٹلوں کو بند نہیں کیا۔

ہوٹل انڈسٹریز سے وابستہ میرے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ ہوٹل کو مستقل بند کرنے سے نہ صرف پراپرٹی کی مالیت کم ہوجاتی ہے بلکہ بند عمارت سے پیدا ہونے والے کئی مسائل بھی جنم لیتے ہیں اور عمارت خستہ حالی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نیویارک میں کمرشل پراپرٹی کے ڈیلروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہوٹل کو مستقل بند کرنے سے اس پراپرٹی کی مالیت کم ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مین ہٹن میں قائم دوسرے ہوٹل کے مالکان نے اپنا اسٹاف ضرور کم کیا ہے مگر اپنے دروازے پرانے کسٹمرز کیلئے بند نہیں کئے۔

منافع بخش روز ویلٹ ہوٹل کو اچانک بند کردینے کے فیصلے نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نیب نے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب کو چاہئے کہ روز ویلٹ ہوٹل بند کرانے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نیب میں اس معاملے پر غیر جانبدار تحقیقات کرنے کی ہمت ہے کہ نہیں یا پھر اِسے بھی گندم، چینی، بی آر ٹی اور مالم جبہ اسکینڈلز کی طرح دبادیا جائے گا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے اثاثے فروخت یا نجی ملکیت میں دے کر دنیا کی کوئی بھی معیشت بحال یا مستحکم نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس وہ قومیں کامیاب رہیں جنہوں نے اپنے اداروں کو بیچنے کے بجائے فعال کیا۔ نیب جس کی کارکردگی سے خود سپریم کورٹ بھی مطمئن نہیں، وہ اتنے بڑے اسکینڈل سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کا از خود نوٹس لے کر ہوٹل کی بندش کی تحقیقات ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن جیسے کسی ایماندار افسر سے کرائیں تاکہ پاکستان اپنے ایک فیملی سلور سے محروم نہ ہوسکے۔