واقعہ کراچی اور اُس کے اثرات

October 22, 2020

سیاسی کارکنوں، صحافیوں، سماجی شخصیات اور عام شہریوں کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا اور لاپتا ہونا تو اِس ملک میں برسوں سے روز کا معمول ہے، اعلیٰ عدالتیں اور بااختیار کہلانے والے حکام سب اِس سلسلے کی روک تھام میں ناکام ہو چکے ہیں لیکن مبینہ طور پر اتوار اور پیر کی درمیانی رات سندھ پولیس کے سربراہ مشتاق مہر کو بعض افراد کا اُن کے گھر میں داخل ہوکر چار گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھنا اور اُن سے مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اور محترمہ مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے حکم پر جبراً دستخط کرانا، ایسا شرمناک واقعہ ہے جس کی شاید کوئی دوسری مثال ملک کی پوری تاریخ میں نہ مل سکے۔ کیپٹن صفدر کی یہ گرفتاری اتوار کو مزارِ قائد پر ’’مادرِ ملت زندہ باد‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگانے کے الزام میں مقدمہ قائم کرکے عمل میں لائی گئی۔ فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے پر صبح منہ اندھیرے پولیس کا دھاوا بول کر اور دروازہ توڑ کے کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنا ملک بھر میں حیرت آمیز سوالات کا سبب بنارہا۔ پیر کا پورا دن اِس واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے کنفیوژن میں گزرا لیکن رفتہ رفتہ حکومتِ سندھ اور صوبے کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمہ داروں کے توسط سے واقعے کی تہیں کھلنا شروع ہوئیں اور منگل کو آئی جی سندھ اور ان کے درجنوں نائبین اور ماتحتوں کی جانب سے احتجاجاً رخصت پر جانے کے فیصلے سے صورتحال کی سنگینی پوری طرح واضح ہوئی۔ آئی جی کے علاوہ اس فہرست میں تین ایڈیشنل آئی جی، 25ڈی آئی جی، 30ایس ایس پی، کیپٹن (ر) صفدر کیس کے تحقیقاتی افسر اور متعدد ایس ایچ او بھی شامل تھے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس کرکے میڈیا کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ بلاول بھٹو کا موقف تھا کہ سیاسی ایشوز ہوتے ہیں لیکن کراچی میں ریڈ لائن عبور کی گئی لہٰذا فوج تحقیقات کرائے کہ یہ کون لوگ تھے جو آئی جی کو صبح چار بجے ساتھ لے گئے اور جنہوں نے افسروں کو بے عزت اور ہراساں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہئے کہ حکومت کے اندر، اوپر اور نیچے بھی کوئی حکومت ہے۔ بلاول نے آرمی چیف سے اِس واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا کو بتایا کہ واقعے کے کئی خوفناک پہلو ہیں جن کی تفتیش کیلئے وزراء کی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو سے براہِ راست فون پر رابطہ کرکے کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ بنانے اور انہیں گرفتار کرنے کے لئے آئی جی سندھ پر دباؤ ٖڈالے جانے کے مبینہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی اور اس کے لئے کور کمانڈر کراچی کو فون کرکے احکامات بھی دیے جس پر آئی جی سندھ نے تحقیقات مکمل ہونے تک رخصت پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا اور اپنے تمام ماتحت افسروں سے بھی دس روز تک تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کرنے کی درخواست کی۔ دوسری جانب بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لینے اور شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرانے پر آرمی چیف کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس طرح فی الوقت صورتحال مزید سنگین ہونے سے بچ گئی ہے لیکن اب یہ ناگزیر ہے کہ پورے معاملے کی تحقیقات فوری طور پر مکمل کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور ان کے خلاف قرار واقعی کارروائی کی جائے۔ تحقیقاتی عمل کو طول دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں کیونکہ جن لوگوں نے آئی جی پر دباؤ ڈالا وہ ان کے لئے یقیناً اجنبی نہیں ہوں گے لہٰذا کور کمانڈر کراچی اور سندھ کابینہ کی کمیٹی کے لئے تحقیقاتی عمل کو دنوں میں نہیں گھنٹوں میں مکمل کرلینا دشوار نہیں ہونا چاہئے۔ آئی جی سندھ کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ داروں کے چہروں سے نقاب نہ اتاری گئی تو اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی ہمیشہ ایک بےتعبیر خواب ہی بنی رہے گی۔