J.B. Priestley

October 22, 2020

خیال تازہ … شہزادعلی
انگریزی ادب کا مطالعہ نہ صرف ہمیں فکر و نظر کے نئے زاویہ ہائے سے روشناس کراتا ہے بلکہ آج پاکستان کو جو لوگ حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنے کے متمنی ہیں ان کے لیے جے بی پریسلے، جارج برنارڈ شاہ اور ایچ جی ویلز جیسے سماجی فلاح و بہبود اور رفاعی فلاحی ریاست کے لیے سرگرم بلند پایہ لکھاریوں اور ادیبوں کے کام کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنا اور زیادہ اہم ہے۔ پاکستان میں بنیادی مسئلہ ہی عام اور پسے ہوئے طبقات کے مسائل ہیں جن کے نام پر سب سیاست تو چمکاتے ہیں عملاً کام نہیں کرتے اور اس باب میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں ایک صفحہ پر دکھائی دیتی ہیں بلکہ بدقسمتی سے ہمارا نام اکثر دانشور طبقہ بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہا وہ بھی حکومت یا حزبِ اختلاف کے راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔ یہ سوچ بھی ابھرتی ہےکہ کاش ہمارے ادیب دانشور، بھی اپنی ذمہ داریوں، مقام اور کام کو پہچان سکیں۔ آج ہم پھر جے بی پریسلے پر بات کرنا چاہیں گے ۔ یہ معروف ادیب، براڈ کاسٹر اور ڈرامہ نگار تھے۔ آپ 1894 میں بریڈ فورڈ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ ادبی جینئس اور وژنری شخصیت ہے جس نے برطانوی فلاحی مملکت کی بنیاد رکھنے میں عہد ساز کردار ادا کیا، پریسلے یہ سمجھتے تھے کہ سرمایہ دار غریبوں سے زیادہ امیروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لیے قلمی جدوجہد کے لیے کمربستہ رہے جو محنت کش طبقے کو طاقت اور حقوق دینے پر مبنی ہو۔ مزدوروں، کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی یونینوں، تنظیموں کی بھر پور حمایت ان کا خاصہ رہا، ان کے اپنے شہر بریڈ فورڈ میں بہت سارے لوگ اس وقت غربت میں زندگی گزار رہے تھے اور برطانیہ بھر میں بھی عدم مساوات کے کئی منظر موجود تھے، اگرچہ برطانیہ میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آرہی تھیں مگر عام شہریوں کو بدستور کئی طرح کے مسائل کا سامنا بھی تھا، بوقت ضرورت آج کی طرح لوگوں کو حکومت کی جانب سے امداد میسر نہیں تھی، برطانوی معاشرہ درحقیقت پسماندہ، کمزور، متوسط اور بالائی طبقات میں منقسم تھا، جس کے پاس زیادہ دولت کی ریل پیل تھی سیاسی طاقت اسی کےپاس تھی، اسی تناظر میں 1906 میں لیبر پارٹی کی تشکیل بھی کی گئی تھی تاکہ مفلوک الحال طبقات کی سیاسی سطح پر نمائندگی کی جاسکے، یہ وہ حالات تھے جنہوں نے پریسلے کے خیالات کو متاثر کیا ، 1919 سے 1921 تک کیمبرج یونیورسٹی سے جدید تاریخ اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے لکھنے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر لندن میں صحافت شروع کی، روزی کمانے کے لئے 1920 کی سخت جانفشانی کی یہ دہائی بھی تھی۔ تاہم ان کے 1929 کے چھپنے والے، ’’دی گڈ کومپینز‘‘ نے انہیں نئی ادبی صورتوں کے ساتھ تجربہ کرنے کے لئے مالی تحفظ فراہم کیا اور بطور قلمکار بین الاقوامی سطح پر انہیں پزیرائی ملی،ان کے چند بڑے ناولوں میں برائٹ ڈے، اینجل پیومنٹ، لاسٹ امپائرز، فیسٹیول ایٹ فاربرج ، دی امیج مین، لیٹ دی پیپل سنگ شامل ہیں، اسی طرح بڑے نان فکشن اور ڈراموں کی ایک فہرست ہے، 1930 میں پریسلے نے بڑی کامیابی کے ساتھ ڈرامہ کا رخ کیا، ان کے ڈراموں میں ڈینجرس کارنر، وین وی آر گیٹنگ میرڈ،آئی ہیو بین ہیر بی فور اور سب سے مشہور این انسپکٹر کالز شامل ہیں، 1930 کے عرصے میں بڑھتی ہوئی معاشرتی عدم مساوات سے پریسلے کا معاشرتی ضمیر مزید بیدار ہوا، 1934 میں پریسلے نے انگلینڈ کے ذریعے ساؤتھمپٹن سے بلیک کنٹری، نارتھ ایسٹ اور نیو کاسل، لنکن، نورفولک اور نوروچ تک اپنے سفر کی ناقابل فراموش رواداد ’’انگش جرنی‘‘ شائع کی اور عدم مساوات کو بیان کیا،اس میں انگلینڈ کے آس پاس کا سفر کرتے وقت انگلینڈ کے لینڈ اسکیپ اور لوگوں کے حالات کو جو کچھ دیکھا اپنے لٹریچر میں اس کمال اور منفرد انداز سے بیان کیا کہ اس سے ہر نسل کی سوچ اور فکر کو متاثر کیا، انگریزی منظر نامے اور اب تک غیر محرک لوگوں کی گرفت میں اور اسے بیان کرنے میں اس نے سوچ اور رویوں پر اثر انداز کیا اور تبدیلی کے لئے عوامی اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد کی جس کی وجہ سے فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا، انگریزی سفر پریسلے کے اپنے آبائی ملک سے گہری محبت کا اظہار کرتا ہے اور ہمیں انسانی حالت اور انگریزی کی نوعیت کے بارے میں بہت کچھ سکھاتا ہے، پریسلے کی تحریروں کے حجم اور حدود کے متعلق انصاف کرنا مشکل ہے، ایلن ڈے کی کتابیات میں ان کے 150سے زیادہ انفرادی شائع شدہ کاموں کی فہرست نیز بہت ساری پیش لفظ اور اخباری مضامین کی فہرست دی گئی ہے۔ این انسپکٹر کالز دوسری جنگ عظیم کے دوران 1945 میں لکھا گیا تھا لیکن پریسلے نے اسے 1912 کے لحاظ سے سیٹ کیا تھا، اس عرصے میں برطانوی معاشرہ تفریق اور عدم برابری سے دوچار تھا جس وجہ سے پریسلے نے 1912 کے غیر مساوی معاشرے کو لوگوں کو 1945 کے عدم مساوات کے متعلق سوچنے کے لیے استعمال کیا اسی لیے اس عرصہ کے طبقاتی درجہ بندی پر مرکزی خیال پیش کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ لوئر کلاس کے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں، کلاس سسٹم ان کی زندگیوں کو مشکل اور دشوار بنا دیتا ہے، اگر وہ کسی مشکل میں پھنس جائیں تو اپنے آپ کو مدد کرنا دشوار مرحلہ بن جاتا ہے (آج کے پاکستان کی طرح) اس وقت کی برطانیہ کی بالائی کلاس کو سماجی زمہ داری کی بہت محدود شعور اور ادراک ہے جو لوگ ان سے کم خوشہال ہیں ان کے مسائل کا یا تو انہیں علم ہی نہیں یا ان کے متعلق جاننا ہی نہیں چاہتے، یا پھر ایسے ہیں کہ کچھ پرواہ ہی نہیں کہ غریب غرباء کس حال میں ہیں کچھ جہالت میں رہنے پر خوش اور تبدیلی سے انکاری ہیں، پریسلے یہ تجویز کرتا ہے کہ بالائی طبقہ کلاس درجہ بندی متعلق سوال نہیں کرتا کیونکہ یہ ان کے لیے کام کر رہا ہے، ان کو علم ہے کہ مسائل کو نظر انداز کر دینا ان سے نبٹنے کی نسبت آسان ہے ، پریسلے کلاس سسٹم کی ناانصافیوں کا انکشاف کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ورکنگ کلاس متاثرہ طبقہ ہے، وہ مڈل کلاس لوگوں کے متکبرانہ اور خود پسندی اور خود غرضی پر مشتمل رویوں کو سوسائٹی کے سامنے رکھنے کی جرأت بھی بے باکانہ کا مظاہرہ کرتا ہے یہ رویے اس کلاس کے افراد میں عام تھے جیسے کہ ہماری طرف آج بھی یہ طبقات جب بولتے ہیں تو شاہانہ تمکنت اور فرعونیت کے لب و لہجہ میں، ایک اہم تھیم یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ان کے کام کی بناء پر جانچا جائے نہ کہ معاشرے میں ان کے مقام، سٹیٹس یا کلاس کے لحاظ سے ان کے ساتھ سلوک برتا جائے، کسی کا جرم اس لیے نظر انداز یا قابل معافی نہیں ہوسکتا کہ یہ جرم کسی بڑی شخصیت سے سرزد ہوا ہے،برطانیہ کی تاریخ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ صنعتی انقلاب سے خواتین کے ملازمتوں کی ضرورت پیدا ہوئی اور ساتھ ہی شہروں کی صورت حال بدتر، ناقص ان سینیٹری اور پریجوم رہائشی افراد پر مشتمل ہوتی گئی، اکثر ورکنگ کلاس ڈبل روٹی، مکھن اور آلو پر رہنے پر مجبورتھے جبکہ اونچے طبقات جن کو دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور نچلے درجے کے لوگ تھے جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، ایسے میں پریسٹلے جیسے انقلاب سماجی ریفارمر ہی تھے جنہوں نے اپنے ادب، فن کو اپنے لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے وقف کیا لیبر پارٹی مضبوط ہوئی، سوشل سیکورٹی رائج ہوئی، آج اگر ہم اپنے وطن کے حالات پر نظر ڈالیں تو اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہم پریسٹلے کی جدوجہد کے آغاز کے بوقت میں اپنے آپ کو پائیں گے، ایک طرف رولنگ ایلیٹ ہے جو چہرے بدل کر پارٹی تبدیل کرکے حکمرانی کے لیے جال بچھا رہی ہوتی ہے دوسری طرف عوام جن کو دو وقت کی روٹی بھی کئی صورتوں میں دستیاب نہیں _ پھر ہمارے چوتھے ستون سے متعلق دانشور ہیں جو نظام بدلنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے اپر کلاس چاہیے وہ ایک پارٹی سے ہے، دوسری یا کسی تیسری سے ان کے گن گاتے ہیں، ان کی صفائی پیش کرنے پر ’’معمور‘‘ نظر آتے ہیں۔ پریسٹلے نے اپنے ڈرامہ میں ایک تھیم انفرادی ذمہ داری کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اگر ہر شخص اپنے ایکشن کی ذمہ داری لے تو سوسائٹی کی اکثریت کی زندگیاں بہتر بن سکتی ہیں،انفرادی ذمہ داری پھر اجتماعی زمہ داریوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے ہم سب کو ایک دوسرے سے متعلق ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے اور مشترکہ مقاصد کے لیے باہم مل کر کام کرنا چاہیے، دو اقوال پیش خدمت ہیں جو مختلف قسم کی سوچ اور فکر کو واضح کرتے ہیں: کنزرویٹو پارٹی جس کے نظریات اشتراکی اقدار سے متصادم ہیں اس سے متعلق مسز مارگریٹ تھیچر برطانوی وزیراعظم کا قول تھا کہ معاشرے کے طور پر کوئی چیز نہیں ہے انفرادی طور پر مرد اور خواتین ہیں اور خاندان جب کہ پریسٹلے کہتا ہے کہ میں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کے سوا کسی بھی چیز سے پوری طرح سنجیدہ نہیں ہوسکتا تھا، ایک دلچسپ تھیم یہ ہے کہ کچھ لوگ کبھی بھی سیکھ نہیں سکتے، یہ خیال بھی پاکستانی سیاست پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے، ڈرامے کے بعض کردار اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں جب کہ بعض اپنے آپ کو بدلنے کی سعی کرتے ہیں۔