جلسوں میں گھری سیاست

October 22, 2020

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
اگر ماضی قریب میں اپوزیشن بیانیہ حقیقی قومی مسائل مثلاً روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی، دہشت گردی سے جڑے گہرے مسائل اور پاکستان کے اہم ترین ایشو (مسئلہ کشمیر) سے زیادہ جڑا ہوا ہوتا تو اس کے گوجرانوالہ جلسہ میں لوگوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ نمبرز گیم میں جائے بغیر اس جلسہ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ یہ تیرہ جماعتی اجتماع واقعی اتنا بڑا تھا کہ تمام جماعتیں یہ کہہ سکیں کہ وہ لوگوں کو باہر لانے میں کامیاب رہیں۔ یہ مسلم لیگ ن کا پاور شو تھا، جو ان کی مد تک کامیاب کہا جاسکتا ہے۔ باقی جماعتوں کی شرکت نہایت کم تھی۔اپوزیشن کا پہلے کوئٹہ جلسہ کرنے کا پروگرام بنانا اور پھر جلدی میں اس جلسہ کا اعلان کردینا واضح کررہا تھا کہ سوچ و بچار کی ٹریل میں کچھ کمزوریاں تھیں۔ جس طرح سے جلسوں کی تیز رفتاری کے اہتمام کیے جارہے ہیں۔ جو چند دن تغیر و تبدل میں ضائع ہوئے وہ اگر گوجرانوالہ کو مل جاتے تو ایک سیاسی اجتماع کا بہتر ماحول بن جاتا۔جس کے نتیجہ میں شاید چند ہزار مزید لوگ جلسہ گاہ میں آجاتے اور اہم قائدین کوPeak Timeپہ اپنے ارشادات سنانے کا موقع بھی مل جاتا۔ جلسہ اگر بروقت ختم ہوجاتا تو اس شہر کی انتظامیہ کو وقت مل جاتا کہ وہ گوجرانوالہ کو اگلی صبح کے لیے نہلا دھلا کر تیار کردیتی۔ جلسوں کو وقت پر ختم نہ کرنا غلط ہے۔میں نے اپنی24ستمبر کو شائع ہونے والی (ایک پرامن اے پی سی) گزارشات میں لکھا تھا کہ اپوزیشن جس تیزی سے ایک شارٹ اور شارپ احتجاج کی طرف بڑھنا چاہتی ہے، اس کے لیے تاحال قومی مزاج نہیں ہیں پایا ہے۔ احتجاج کی وجوہات اکثر بھی غیر واضح ہیں اور کسی ایسے احتجاج جس کی پہلی اور آخری ڈیمانڈ نئے انتخابات ہوں ایک ایسی پر اپوزیشن ہے جو ایک ایوریج پاکستانی کے لیے ناقابل فہم ہے۔ لہٰذا ایک نہایت ہی کمزور سطح سے حکومت بدلنے کی منصوبہ بندی چند کی خواہش تو ہوسکتی ہے، مگر جیسا کہ اس جلسہ سے واضح ہوگیا، ایک ایوریج پاکستانی ایسی فضولیات میں الجھنا اپنے وقت کا ضیاع خیال کرتا ہے۔مولانا کچھ عرصہ قبل بھی استعفیٰ لینے اسلام آباد گئے تھے۔ بقول ان کے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ جنوری تک عمران خان کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ یہاں غیر موثر اپوزیشن کی وجہ سے عمران مضبوط ہورہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور کشمیر کمیٹی چیئرمین شپ سے ان کی فراغت یقینی طور پہ انہیں پریشان کیے ہوئے ہے۔ وہ اپنے چند ہمنوائوں کے ساتھ وہ سیاسی مسافت جو کئی سالوں میں لوگوں نے طے کی، تب کہیں ان کی آواز کو عوامی پراپرٹی ملی۔ چند مہینوں میں نہیں طے کرسکتے۔ انتخابی عزفرداریاں آپ نہ داخل کروائیں، اس معاملہ پہ حکومتی تعاون کا آپ جواب نہ دیں اور اپنے مدرسوں کے بچوں کو لے کر آپ حکومت گرانیچل پڑیں گے، تو آپ کو ہر جگہ لوگوں کی طرف سے منفی رسپانس ملیں گے۔ جیسا کہ آپ کے ساتھ گوجرانوالہ میں ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں پنجاب اور کراچی میں لوگوں کو لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تاہم عمران خان اکیلے کئی ایسے جلسے ماضی میں کرچکے ہیں۔ افراتفری کے ماحول میں جس تیز رفتاری کے ساتھ جلسے، جلوسوں کا اہتمام کیا جارہہا ہے، اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن کو احساس ہوگیا ہے کہ مختلف حوالوں سے حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہورہی ہے اور کامیابیوں کا یہ سفر اگر درہم برہم نہ کیا گیا تو حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ جتنے بھی لوگ ان دو جلسوں میں باہر آئے ہیں۔ ان میں سے بھاری اکثریت مہنگائی کے ہاتھوں بہت تنگ ہیں۔ حکومت کو اسے ایک ویک اپ کال سمجھ کر مہنگائی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت ایک مضبوط مافیا جو مالی اور انتظامی امور پہ کئی دہائیوں کی مک مکائو پالیسیوں کی بنیاد پہ چل رہا ہے سے عوامی مفاد کے اقدامات اٹھوانے کی کوشش کررہی ہے۔ جہاں اسے بھاری مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ہتھیار ڈال دینا بھی کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ درمیانی راستے نکال کر حکومت کرنے میں کوئی بھی مکمل طور پہ خوش نہیں پاتا اور ان ہی مشکلات نے اس حکومت کو بھی گھیر رکھا ہے۔ وزیراعظم کو آئوٹ آف باکس سوچنا اور عمل کرنا ہوگا اور ایسے اقدامات سے اگر وہ مہنگائی کنٹرول کرلیتے ہیں اور خوردونوش مارکیٹ میں استحکام آجاتا ہے تو پارلیمنٹ اپنی ٹرم مکمل کرلے گی۔جب اپوزیشن احتجاج جوفوکسڈنہ ہونے کی بنا پر اپنے ٹارگٹس کا تعین کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔ اس کی کامیابی کے امکانات بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس اتحاد کو اپنی ذہنی مسافت اور اس سے جڑی مختلف سوچوں کی بنا پہ زیادہ کامیابی کی توقعات نہیں رکھنی چاہیں، کیونکہ حکومت سے جان خلاصی کے لیے موجود آپشنز پہ اتفاق رائے بھی موجود نہیں ہے۔ کنزرویٹو قوتوں کا یہ اتحاد اور یہاں پہ ترقی پسند اور نیشنلسٹ فورسز کی بھی موجودگی ایک ایسامجموعہ ہے جو کسی وقت شدید بنیادی اختلافات کی بنا پہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ اتحاد جہاں ایک نان ورکنگ اجتماع ہے، وہاں اس اتحاد کی بنیاد اصولی کم اور عمران خان سے دشمنی زیادہ ہے۔یہ ڈیمو کریٹک اتحاد جو متحد اور یکسو تو کجا اکٹھا بھی نہیں ہے۔ یہ اتحاد جو لوگوں کو کسی ایک سمٹ پہ ڈالنے کے بجائے لوگوں کو عسکری قوتوں کے خلاف بڑھکانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ اتحاد جسے زیادہ توجہ قوم کو درپیش مسائل مثلاً مہنگائی اور دہشت گردی کے حل کے لیے تجاویز دینی چاہیں اور ایسا نہیں کررہا ہے۔ یہ اتحاد جس کے اہم قائدین کشمیر پہ بات کرنے سے گریزاں ہیں کہ کہیں بھارت ناراض نہ ہوجائے۔ یہ اتحاد جس میں شامل کئی اہم لیڈر علاقائی سیاست کا بوقت ضرورت استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں قومی لیڈر تسلیم کیا جائے اور یہ اتحاد جو خالصتاً اس بنیاد پہ وجود میں آیا ہے کہ ایک منتخب حکومت کو بطاہر وجوہات کے بغیر گھیر بھیجنا ہے۔ ایسا احتجاج ملک کو غیر مستحکم کرنے کی ایک منظم سازش کے سوا کچھ نہیں، اتحاد کا کراچی جلسہ بھی ایک روٹین جلسہ تھا۔ جس میں مولانا کا خطاب کم جارحانہ تھا اور مریم کی شکایات میں کوئی نئی بات نہ تھی۔ آنے والے ہفتوں میں کوئٹہ جلسہ اور دیگر جلسے اور ریلیاں جماعتیں اپنے آپ کو ریلیونٹ رکھنے کے لیے کرتی رہیں گی۔ آنے والے دو، تین ماہ سیاسی طور پہ گرم رہیں گے۔ کیونکہ جلد ہی سینیٹ انتخابات بھی منعقد ہوں گے، جن میں حکومت اکثریت حاصل کرنے کی خواہاں ہے، گرم سرد سی اسی ماحول میں حکومت کو درپیش اہم مسائل پہ توجہ دیتے ہوئے عوام کے لیے آسانیوں کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہر دم کوشاں رہنے چاہیے، اللہ کرے کورونا ایک بار پھر حملہ آور نہ ہو اور یہ موجودہ کم سطح سے نیچے آتا رہے، ورنہ تیرہ جماعتی ات حاد نے اپنا کردار ادا کردیا ہے اور قوم اس کی گواہ ہے۔