طیارہ حادثہ:8303 pk پر کیا گزری؟

October 24, 2020

رواں برس مئی کی بائیس تاریخ کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے قریب لاہور سے آنے والا پی آئی اے کامسافر بردارطیارہ آبادی پر گرکر تباہ ہوگیاتھا۔ اس سانحے میں مسافروں اور عملے کے ارکان سمیت ستّانوے افراد دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کی خواہش لیے لاہورسے کراچی کو روانہ ہونے والے لگ بھگ سو ہم وطنوں کا زمین پر اترنے سے محض چند لمحےپہلے حادثے کے باعث لقمہ اجل بن جانا ایسا دل دہلا دینے والا سانحہ ہےجو قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں۔ جن گھروں کے چراغ گل ہوئے ان کے لیے تو یہ دائمی دکھ ہے۔لیکن دوسری جانب یہ اٹل حقیقت ہے کہ زندگی ہو تو بڑے سے بڑے حادثےمیں بھی انسان معجزاتی طور پر محفوظ رہ سکتا ہے ۔

اس کا عملی مظاہرہ بد قسمت طیارے کے مسافروں میں شامل بینک آف پنجاب کے صدر، ظفر مسعود اور زبیر نامی نوجوان کے بچ جانے کی شکل میں ہم سب نے دیکھا۔ظفر مسعود نے بہت ہمّت اور جرات کے ساتھ اس شدید دماغی اور جسمانی صدمے کا سامنا کیا اور اپنے دل اور دماغ کا توازن برقرار رکھ کر سادہ اور سہل انداز میں حادثے سے پہلے،حادثہ ہونے کے لمحات میں اور حادثے کے بعد کے حالات اور واقعات کو زیرِ نظر مضمون میں قلم بند کیا ہےجسے قارئین کے لیے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

9اکتوبر 2020کو میری پچاسویں سالگرہ تھی، رواں برس مجھے اپنی سالگرہ پر دوسری سالگراؤں سے زیادہ مبارک بادیں وصول ہوئیں۔ کچھ لوگو ں نے کہا کہ مجھے سال میں دو مرتبہ سالگرہ منانی چاہیے ایک 9اکتوبر کو اور دوسری 22 مئی کو۔ اگرچہ بہی خواہوں کے جذبات کی قدر کرتاہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں کبھی بھی بائیس مئی کو اپنی سالگرہ نہیں منانا چاہوں گا۔ وہ کوئی خوشی کا موقع نہیں تھا؛ اُس وقت ستانوے بے گناہ افراد کی جان چلی گی ، اور یہ ہر حوالے سے انتہائی افسوس ناک دن تھا۔

سب سے پہلے تو میں اس افسوس ناک حادثے کا شکار ہونے والے ستانوے افراد کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ اللہ پاک اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حادثہ ہوتے ہی جب تک میرے حواس نے ساتھ دیا، میرے ذہن میں اپنے ساتھی مسافروں کی سلامتی کی فکر تھی ۔ اگرچہ حادثے کے وقت تک میں کسی کو نہیں جانتا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اُن میں سے چند ایک میرے شناسا بھی تھے ۔ لیکن اس سے قطع نظر، میں اُن تمام کے ساتھ اپنی عجیب سی، ناقابل بیان شناسائی پاتا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرا ذاتی نقصان تھا۔ یقینا اُن کے عزیز و اقارب، بلکہ پوری قوم کے بھی یہی احساسات تھے ۔

طیارہ حادثے کے ساڑھے چار ماہ بعد اپنی سالگرہ پر یہ مضمون مکمل کیا ۔ ہسپتال کے بستر سے یہ مضمون لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد گھر پرجبکہ معلوم اور نامعلوم زخموں سے نبر دآزما ہورہا تھا، یہ سلسلہ جاری رہا ۔ میں نے ایسا اپنے دوست و احباب ، عزیز رشتے داروں اور عوام کے اصرار پر کیا ہے ۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اُس مہلک دن کیا ہواتھا؟لاہور سے کراچی جانے والی PK8303 فلائٹ کے بدقسمت حادثے کے وقت میں نے کیا محسوس کیا؟ اور آج جبکہ میں زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکا ہوں، میں قارئین سے مخاطب ہوں۔

مجھے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ میں اپنی زندگی کے اس جوکھم پر کتاب لکھوں۔ میرا خیال ہے کہ ابھی بہت جلدی ہے ۔ مزید پانچ سال بعد کتاب لکھنے کا سوچوں گا۔ممکن ہے کہ اس دوران قارئین سے شیئر کرنے کے لیے کوئی اور اہم سبق بھی سامنے آجائے۔ خاص طور وہ اس سوال کا جواب مل جائے جو میرے ذہن میں ہے ۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال اس مرحلے پریہ مختصر تحریر ہی مناسب رہے گی ۔

مجھے سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ جب وہ حادثہ ہوا تو میں کیا کررہا تھا اور یہ کہ میرے خیال میں مجھے اللہ تعالیٰ نے کیوں محفوظ رکھا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس ان سوالوں کا کوئی حتمی جواب نہیں، لیکن جواب تلاش کرتے ہوئے مناسب ہوگا کہ میں اُس سانحے کے وقت اپنی ذہنی اور جسمانی کیفیت سے آگاہ کردوں۔ ممکن ہے کہ اس سوال کہ میں کیوں کر محفوظ رہا، کا حقیقی جواب میری پوری زندگی کی کہانی میں مضمر ہو۔ چنانچہ جواب کے لیے مکمل سوانح عمری درکار ہوگی۔ فی الحال یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اُس سانحے سے پہلے میرے ساتھ کیا ہورہا تھا، اور پھر وہ میری زندگی کے اہم ترین ایام تھے، چنانچہ اُن کا میرے بچ جانے تعلق ہوسکتا ہے ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اُس خوفناک دن میں آلارم سے پہلے ہی بیدار ہوگیاتھا۔ شاید خوشی بھی تھی کہ میں اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ عید کی تعطیلات گزارنے ایک ہفتے کے لیے کراچی جارہاہوں۔ حقیقی خوشی کا باعث یہ سوچ بھی تھی کہ میں نے بینک آف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر تعیناتی کے پہلے پانچ ہفتے بہت اطمینان بخش طریقے سے فرائض سرانجام دیے تھے ۔ مجھے بورڈ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بہت طمانیت بخش حمایت ملی تھی ۔ میں قدرے پس و بیش سے بینک میں گیا تھاکیونکہ سرکاری شعبے کی پیشہ ورانہ زندگی کے اپنے خطرات ہوتے ہیں، لیکن میرے تمام شکوک و شبہات بے بنیاد ثابت ہوئے ۔

بینک آف پنجاب میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے کسی چیف ایگزیکٹوکی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے اہم فیصلوں میں ایک خلا سا تھا۔ کورونا کی وجہ سے معاملات مزید پیچیدگی اختیار کرگئے تھے ۔ بینک کو درست راستے پر واپس لانے اور اسٹاف کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ اسٹاف ہی تھا جو اُن مشکل اور غیر یقینی لمحات میں فرنٹ لائن پر کام کررہا تھا۔ ضروری تھا کہ نیا سی ای او اُن کی ہمت بندھائے اور اُن کی بہتری اور تحفظ کا خیال رکھے ۔ سینئر ساتھیوں کی حمایت سے میں اسٹاف کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب رہا ۔ اس کے لیے تحریری ابلاغ کے علاوہ فیس بک لائیومیٹنگ کی گئی (مقامی طور پر بینک آف پنجاب وہ واحد بینک تھا جس نے یہ سہولت استعمال کی ) کیونکہ وائرس کی وجہ سے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جانا ضروری تھا۔

ملازمین تک فیس بک لائیو کے ذریعے رسائی ایک شاندار پیش رفت ثابت ہوئی ۔ ایک گھنٹے کے سیشن کے دوران اسٹاف کو آن سکرین سوالات کی اجازت دی گئی۔اُن سوالات کا فوری جواب دینے اور الجھائو دور کرنے کے علاوہ ان کی ترقی اور خوشحالی کی حکمت عملی بھی اُن کے علم میں لائی گئی ۔

یہ تمام اقدامات اور پھر کوویڈ سے متعلق معاملات میں اسٹاف کو ریلیف فراہم کرنے سے اُنہیں اپنے تحفظ کے بارے میں میری سعی اور فکرکا اندازہ ہوگیا کہ ہم اُنہیں معاصر بینکوں کی نسبت زیادہ سہولت فراہم کرنے جارہے ہیں۔ اس کاوش کا ابلاغ نچلی سطح پر بھی کیا گیا ۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ تمام کاوش کسی مفاد کے بغیر، پورے خلوص اور اچھے ارادے کے ساتھ کی گئی تھی ۔ فرنٹ لائن اسٹاف کے خصوصی بونس میں اضافے کے علاوہ اسٹاف کے لیے سود سے پاک رعایتی قرضوں کی حد میں اضافہ کیا گیا ۔ یہ میری پیشہ ورانہ زندگی کے انتہائی طمانیت بخش اقدام میں سے ایک تھا ۔

کہا گیا کہ اسٹاف کو دی جانے والی یہ رعاتیں تھیں جن کی وجہ سے قدرت نے مجھے بچا لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ان اقدامات کا مکمل کریڈٹ نہیں لیتا؛ کیونکہ ان کی منظوری بورڈ نے میری تعیناتی سے پہلے اُس وقت کی سینئر انتظامیہ کی سفارش پرکردی تھی۔ اگر مجھے کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو محض اتنا کہ میں نے اس پیش رفت نہیں روکا، حالانکہ اس کاجواز موجود کہ کوئی اور بینک اُن مشکلات حالات میں ایسی رعاتیں نہیں دے رہا ؛ حتیٰ کہ آج بھی کسی نے ایسا نہیں کیا ۔ پھر میں نے بونس کی بروقت تقسیم کو یقینی بنایا۔ یہ بات ضرورہے کہ میں نے ان سہولیات کی بابت حتمی کارروائی پوری لگن اور دلجمعی سے سرانجام دی۔ میر ی خوش قسمتی تھی کہ ان سہولیات اور مراعات کے اعلان کا شرف مجھے حاصل ہوا اور اس کی وجہ سے میرا پہلا تاثر اسٹاف پر بہت اچھا رہا۔

بینک کے تنظیمی ڈھانچے پر بہت دیر سے نظر ثانی کی ضرورت تھی اور اس مختصر مدت کے دوران میں ایسا کرنے میں کامیاب رہا ۔ اس کی وہ سے اسٹاف کے ابتدائی شکوک و شبہات رفع ہوگئے اور اُنہیں اعتماد ملا۔ درحقیقت میں یہ تمام کام بہت مختصر مدت میں کرنے میں کامیاب رہا جس نے مجھے طمانیت بھی فراہم کی اور بینک آف پنجاب میں میرے مستقبل کی راہوں کو بھی روشن کردیا ۔ کچھ لوگوں نے مجھ سے پوچھا بھی کہ میں اتنی جلدی یہ تمام اقدامات کیوں اٹھا رہا ہوں ۔ شاید کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ میں اگلے دو ماہ تک کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہوں گا، اور یہ کہ میں لاشعوری طور پر اُس وقت مستقبل میں طے پانے والے امورسرانجام دے رہا تھا ۔

میں عین وقت پر ایئرپورٹ پہنچنے کے لیے بدنام رہا ہوں۔ بعض اوقات تو ٹھیک اس وقت جب کائونٹر بند ہونے اور جہاز کے اُڑان بھرنے کا وقت ہوچلا ہوتا ہے ۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بائیس مئی 2020ء کو میں معمول سے بہت پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ گیا ۔ خوش قسمتی سے مجھے اپنی سیٹ تبدیل کرنے کا کافی وقت مل گیا ۔ شروع میں میری بکنگ کھڑکی کے قریب والی سیٹ تھی لیکن میں ہمیشہ اندرونی سیٹ(Isle) پسند کرتا ہوں۔

ایئرپورٹ پر جلدی پہنچنے کی وجہ سے مجھے سیٹ تبدیل کرکے 1C حاصل کرنے کا موقع مل گیا ۔ میرے پروٹوکول آفیسر کا کہنا تھا کہ جب سیٹوں کی پوری قطار خالی ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اس قطار میں کہا ں بیٹھوں گا، لیکن میرا اصرار تھا کہ میں اپنی عادت کے مطابق اندرونی سیٹ پر ہی بیٹھوں گا۔ اب خیال آتاہے کہ سیٹ کی تبدیلی میرے بچ جانے کی وجوہات میں سے ایک تھی ۔

اسی صبح گیارہ بجے میری سیٹ سیرین ائیر (Serene Air) میں بھی بک تھی ، لیکن میں نے ایک دن پہلے اسے تبدیل کراکے پی آئی اے کی اس بدقسمت فلائٹ میں سیٹ حاصل کرلی تھی ۔ میں نے ایسا دووجوہ کی بنا پر کیا تھا : (1) پی آئی اے کی فلائٹ کا وقت بہتر تھا اوراس کے لیے مجھے علی الصبح جاگ کر ایئرپورٹ آنے کی ضرورت نہیں تھی ۔

مجھے کبھی بھی اتنی صبح جاگ کر ائیرپورٹ کی طرف لپکنا اچھا نہیں لگا؛ اور (2) اگر سیرین ائیرکی فلائٹ منسوخ ہوجاتی تو اس کی دوسری فلائٹ اُسی روز نہیں مل سکتی تھی ۔ اس کے لیے اگلے روز کا انتظا رکرنا پڑتا۔ دوسری طرف پی آئی اے کی دن میں ایک سے زیادہ فلائٹس ہوتی ہیں۔ یہ بات میں اندرون ملک کثرت سے فضائی سفر کے تجربے کی بنیاد پر جانتا تھا۔

ایسا ہوا کہ پی آئی اے کا طیارہ بھی وقت سے قدرے پہلے پرواز کے لیے تیار ہوگیا ۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس روز ہر چیز طے شدہ وقت سے پہلے ہوتی جارہی ہے ۔ کوئی طاقت چاہتی تھی کہ لوگ جلد از جلد، بلا تاخیر، اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔

لائونج میں بیٹھے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اُس روز میرے ایک قریبی دوست کی سالگرہ ہے جس کے ساتھ میرا تعلق بھائیوں جیسا ہے۔ وہ اس بارے میں بہت حساس ہے کہ کیا ہمیں اُس کی سالگرہ کا دن یاد رہا ہے یا نہیں ، خاص طور پر ہم چاروں یونیورسٹی دور کے ساتھیوں کا ’’گینگ لیڈر‘‘ اسے یادرکھتا ہے یا نہیں ۔ ہمارے اس دوست کو بہت اچھا لگتا جب وہ گینگ لیڈر اُس کی سالگرہ کو یاد رکھتا اور سب سے پہلے نیک تمنائوں کا پیغام بھیجتا ۔ ہم سب دوستوں کا واٹس ایپ گروپ ہے ، جیسا کہ آج کل یہ ایک معمول ہے ۔ جب کبھی کسی کی سالگرہ ہوتی ہے ، واٹس ایپ گروپ کا ٹائٹل تبدیل کرکے اُسے مبارک باد کا پیغام دیا جاتا ہے اوراس کی تصویر ڈسپلے کی جاتی ہے ۔ اُس کی تصویر کسی اور دوست کی سالگرہ آنے تک لگی رہتی ہے ۔

وہ چھٹی کا دن تھا، اور آدھا دن گزر چکا تھا لیکن تصویر تبدیل نہیں ہوئی تھی ۔ صورت ِحال کی ’’نزاکت‘‘ کو بھانپتے ہوئے میں نے ’’گینگ لیڈر‘‘ کو پیغام بھیجا کہ وہ آج کے دن کے حوالے سے واٹس ایپ گروپ کا ڈسپلے تبدیل کردے۔ میں خود بھی ایسا کرسکتا تھا کہ اُس دوست کو مبارک باد کا پیغام بھیجوں اور تصویر تبدیل کردوں کیونکہ میں بھی گروپ ایڈمنز میں سے ہوں لیکن میں نے روایت شکنی نہ کی۔ بات بتانے کی یہ ہے کہ انسان کو دوسرے کے احساسات اور خوشی کا خیال رکھنا چاہیے ۔

یہ چیزیں بظاہر معمولی دکھائی دیتی ہیں لیکن محبت اور یگانگت بڑھانے میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خدا اُن سے محبت کرتا ہے جو اُس کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔ اس سے قارئین کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں کس قسم کی شخصیت رکھتا ہوں۔ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی لیے آج کے دن تک زندہ رکھا ہے ۔

اگرچہ میں جہاز کے پرواز کرنے سے پندرہ یا بیس منٹ پہلے پہنچ چکا تھا لیکن مجھے معلوم ہوا کہ میں جہاز میں داخل ہونے والا آخری مسافر تھا ۔ میرے بعد شاید ہی کوئی مسافر آیا ہو۔ کم وبیش تمام مسافر اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے، چنانچہ پائلٹ نے شیڈول سے قدرے پہلے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ چونکہ میں سب سے پہلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ، اس لیے میں نہیں جانتا تھا کہ جہاز میں اور کون موجود ہے ۔

ایک صاحب جو میری قطار میں ہی بیٹھے تھے لیکن وہ اندرونی سیٹ سے دو سیٹیں پیچھے چلے گئے ۔ اب یہ تمام قطارخالی تھی ۔ انہوں نے کورونا سے تحفظ کا مکمل لباس پہنا ہوا تھا ۔ میں نے انہیں جہاز میں دیکھا تو سہی لیکن حفاظتی لباس کی وجہ سے نہ پہچان سکا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ کون تھے اور میں اُنہیں جانتا تھا۔

میں اکثر جہاز کی پرواز سے پہلے اپنے آئی پیڈ کو آن کرلیتا ہوں۔ میں اس پر کوئی فلم دیکھتا ہوں یا کوئی اور کام کرلیتا ہوں ۔ اُس روز بھی میں نے یہی کچھ کیا ۔ چند ایک مواقع پر جب مجھے کچھ کھانے پینے کی اشیا لینی پڑیں (میں روزے سے نہیں تھا) میں اپنی ای میلز پر کام کرتا رہا ۔ کرنے کے لیے بہت سا کام تھا اور میں پوری طرح مصروف تھا۔ بطور سی ای او، بینک آف پنجاب کی بلیک ٹی شرٹ پہنے میں اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ جہاز میںکون کون سوار ہے ۔

یہ کراچی میں پہلی مرتبہ جہاز اتارنے کے وقت لگنے والا جھٹکا تھا جب میں نے آئی پیڈ سے نظریں ہٹائیں اور چونک کر ادھر اُدھر دیکھا کہ دوسرے مسافروں کے کیا تاثرات ہیں۔ حسب ِمعمول، پائلٹ نے درست وقت پر لینڈ ہونے کا اعلان کیا اور سب کچھ معمول کے مطابق دکھائی دے رہا تھا، لیکن جب جہاز نے لینڈنگ کی تو تین غیر معمولی جھٹکے لگے ۔ پہلے جھٹکے پر تو مجھے زیادہ پریشانی نہ ہوئی کیونکہ جب جہاز معمول کی رفتار سے زیادہ تیزی سے لینڈکرتا ہے تو ایسا جھٹکا لگتا ہے ، اور PK8303 کی رفتار یقینا تیز تھی۔

لیکن پہلے جھٹکے کے فوراً بعد لگنے والا دوسرا جھٹکا تھا جس نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے آئی پیڈ کو بندکیا اور گردوپیش پر نظر دوڑائی کہ مسافروں کا کیا رد عمل ہے ؟ اتنی دیر میں تیسرا جھٹکا لگا، اور چند لمحوں میں پائلٹ نے جہاز کو اُوپر اُٹھانے کا فیصلہ کیا جو کہ انتہائی غیر معمولی بات تھی ۔ میری زندگی میں کم از کم ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میری طرف والی کھڑکی بند ہوچکی ہے۔ میں اُٹھا اور کھڑکی کھولی تاکہ دیکھوں کہ باہر سے ہمیں کیا ہدایت مل رہی ہے اور کس بری صورت حال کے لیے تیار ہونا ہے؟ اب تک طیارہ ہوا میں دوبارہ بلند ہوچکا تھا ، شاید تین ہزار فٹ تک۔ یہ سب کچھ بہت عجیب اور خوفزدہ کردینے والا تھا ۔

کھڑکی سے باہر مجھے کوئی افراتفری یا پریشانی دکھائی نہ دی اور نہ ہی مسافروں میں سے کوئی چیخ یا چلا رہا تھا ۔ کم از کم مجھے کچھ سنائی نہ دیا ۔ میں نے اپنی سیٹ پر بیٹھ کر ارد گرد دیکھا جہاں لوگ میرے پیچھے والی نشستوں کی قطار میں بیٹھے تھے ۔ وہ سب پرسکون تھے ، لیکن کچھ آیات کی تلاوت کررہے تھے ۔ تمام واقعات غیر معمولی اور ڈرا دینے والے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی بدترین صورت ِحال پیش آنے والی ہو، جیسا کہ بعد میں ہوا۔ میری سیٹ اسٹاف کیبن سے تھوڑی سی پیچھے اور مسافروں کی نشستوں کے درمیان تھی۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ دو ایئرہوسٹس بیٹھی دعائیں کررہی تھیں۔ کاک پٹ کا دروازہ بند تھا۔

کریش لینڈ نگ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے اور نہ ہی اس قسم کا کوئی اعلان ہوا تھا۔ اچانک کاک پٹ سے ایک اور، اعلان ہوا، اور یہ آخری اعلان تھا، ’کیبن اسٹاف، لینڈنگ کے لیے تیار رہیں۔‘‘ حادثے سے چند سیکنڈ پہلے ایک جھٹکا لگا، جس کی وجہ غالباً انجن کی خرابی تھی،ا ور اسی جھٹکے کے ساتھ کاک پٹ کا دروازہ بھی کھل گیا ۔ میں نے سامنے والی اسکرین سے دیکھا تو مجھے ایسے لگا جیسے جہاز عمودی طور پر زمین کی طرف گر رہا ہے ۔ اگرچہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا لیکن عمارتیں اتنی قریب دکھائی دے رہی تھیں کہ مجھے ایسے ہی لگا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ جہازکسی خوفناک حادثے شکار ہونے جارہا ہے اور اس وقت اسے ٹالا نہیں جاسکتا ۔

میں اس تمام واقعے کے سب سے اہم حصے کی طرف بڑھ رہا ہوں ۔ اگرچہ میں موت سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا ،میں دیکھ چکا تھا کہ اب جہاز کسی بھی لمحے زمین سے ٹکرانے والا ہے اور میں کسی بھی قسم کے انجام کے لیے خود کو تیار کرچکا تھا، میرے دل نے اللہ تعالیٰ کو پکارا، ’’کیا میں مرنے والا ہوں؟‘‘جواب ملا، ’’ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘میں نے دوبارہ پوچھا اور ایک مرتبہ پھر دل نے یہی جواب دیا ، ’’جہاز ٹکرانے والا ہے لیکن تم نہیں مرو گے ۔‘‘اس جواب کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ جہاز کا ٹکرانا تو طے ہے لیکن میں نے نہیں مروں گا۔ جب بھی میں ان لمحات کو یاد کرتاہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اعتماد میرے اندر کہاں سے آیا ، لیکن ایسا ہی ہوا تھا ۔ میرے والد صاحب نے بتایا کہ جب اُنھوں نے ٹی وی پر طیارے کے حادثے کی خبر سنی اُنہیں بھی میرے بچ جانے کا اتناہی یقین تھا۔

جب اللہ پاک نے مجھے حوصلہ اور طاقت دی اور بچ جانے کا اعتماد بخشا تو اس کے بعد میں نے کوئی دعا نہ کی، حالانکہ میرے سامنے ایئرہوسٹس آہ وزاری کرتے ہوئے دعائیں کررہی تھیں۔ میری سیٹ کے دائیں طرف موجود عملے کی بھی یہی حالت تھی ۔ سچی بات یہ ہے کہ کچھ بھی تلاوت کرنے کا وقت نہیں تھا۔ جب تک میں نے اپنے دل میں اپنے خدا کے ساتھ مکالمہ کیا ، جہاز بے قابو ہوچکا تھا ۔ یہ سب کچھ چند سیکنڈ ز کے اندر ہوا تھا ۔ کاک پٹ سے نہ کوئی اعلان ہوا ، نہ کوئی اشارہ ملا کہ جہاز ناگہانی حالت میں ہے ۔ میرے اندازے کے مطابق جہاز کو لینڈنگ کی تیسری ناکام کوشش کے بعد بلند ہوئے دس منٹ گزر چکے تھے ۔

اُسی وقت ایئرہوسٹس کو بھیانک صورت ِحال کا اندازہ ہوگیا اور اُنھوں نے تلاوت اور دعائیں کرنا شروع کردی تھیں۔ میں نے بھی تلاوت کرنے کی کوشش کی تھی ۔میں سن سکتا تھا کہ ایئرہوسٹس کی دعائوں کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی ۔ اُن کی آواز کی شدت اور کرب سے پتہ چلتا تھا کہ اُنہیں اندازہ ہوگیاتھا کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ،اور یہ کہ اب صرف خدا ہی اُنہیں بچا سکتا ہے ۔ وہ بہت خوفناک لمحہ تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ دیگر افراد کا بھی یہی حال ہوگا لیکن میرا دھیان ایئرہوسٹس کی حالت پر اس قدر تھا کہ میں دیگر کونہیں دیکھ سکا کہ وہ کیا کررہے تھے یا کیا کرسکتے تھے ۔

جہاز کا غالباً پچھلا حصہ کسی بلند عمارت سے ٹکرایا تو اس وقت جہاز افقی حالت میں تھا۔ ٹکرائو سے شدید جھٹکا لگا۔ اس وقت تک مجھے احساس تھا کہ میں شدید زخمی نہیں ہوا ہوں، لیکن میں بے ہوش ہوگیا ۔ شاید یہ کریش کے دبائو کا نتیجہ تھا کیونکہ میرے سر پر یا کہیں ا ور کوئی شدید ضرب نہیں لگی تھی ۔ درحقیقت جب میں زمین پر گراتو بھی مجھے ایسا کوئی زخم نہیں لگا جو میری بے ہوشی کا باعث بنا ہو۔

بہرحال میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ورنہ وہ مناظر میرے ذہن پر شدید اثرات مرتب کرسکتے تھے اور بچ جانے کے باوجود میراذہن زندگی بھر کے لیے متاثر ہوجاتا یا میں اُس وقت کوئی احمقانہ حرکت کر بیٹھتاجو اُن حالات کو تبدیل کردیتی جن کی وجہ سے میں آج زندہ ہوں ۔ مجھے ہوش اُس وقت آیا جب مجھے زمین سے اٹھایا گیا ۔ چنانچہ ان اصل لمحات کی کوئی یاد میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ میں کچھ نہیں جانتا کہ میں جہازسے باہر کیسے گرا؟ میں ٹھوس زمین کی بجائے مسافروں سے بھری ہوئی کار پر کیسے گرا؟ جہاز کے ملبے سے مجھے کیسے نکالا گیا ؟ اور اس طرح کے بہت سے واقعات کا میں عینی شاہد نہیں ہوں۔

مجھے ان لمحات کے بارے میں بعد میں دیگر ذرائع سے علم ہوا۔ جہاز ماڈل کالونی سے ٹکرانے کے بعد کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔ اسٹاف کا کیبن اور کاک پٹ اور مسافروں کے بیٹھے کے حصے ٹوٹ گئے ، چونکہ میں بالکل سامنے بیٹھا ہوا تھا، اس لیے جب جہاز تباہ ہوا تو میری سیٹ جہاز سے باہر جا گری اوراس کے ساتھ میں بھی ایک مکان کی چھت پر گر گیا ۔ خوش قسمتی سے سیٹ مکان کی چھت پر بالکل سیدھی گری اور پھر اچھل کر میرے سمیت سڑک پر گری ۔ اگر سیٹ الٹ جاتی تو مجھے مہلک چوٹیں لگ سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔

مزید خوش قسمتی کہ میں سڑک کی بجائے سیٹ سمیت ایک کار پر گرا۔ اگر میں مکان کی چھت سے سڑک پر گر تا تو بھی میری جان جاسکتی تھی ، لیکن خدا نے مجھے بچا لیا ۔ خدا ئی مدد یہیں تک ہی نہ تھی ۔ خوش قسمتی سے جس کار پر میں گرا، اُس میں مسافر تھے ورنہ کسی کو میرا پتہ نہ چلتا کہ میں زندہ ہوں۔ کارکے مسافروں نے مجھے بتایا کہ جب اُنھوں نے اپنی گلی میں ایک دھماکے کی آواز آئی تووہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کی کار سے کیا چیز ٹکرائی ہے ۔ وہ کار سٹارٹ کرکے جانے والے تھے کہ اُن کی کار کی سکرین ٹوٹ کر جاگری اور اُنھوں نے مجھے بونٹ سے ٹکراتے دیکھا ۔ میں مدد کے لیے چلا رہا تھا ۔ اس طرح اُنھوں نے مجھے بچا لیا ۔

مجھے یہ سب کچھ یاد نہیں ، لیکن ایک چشم دید گواہ نے یہ سب کچھ مجھے بتایا تھا۔ کارکے مسافروں نے مجھے کار اور جہاز کے ملبے ، اور غالباً سیٹ کے درمیان سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس پر اُنھوں نے مدد کے لیے دیگر افرادکو پکارا۔ آگ تیزی سے اس طرف بڑھ رہی تھی جہاں میں پھنسا ہوا تھالیکن پانچ مہربان ہمت کر کے اس طرف بڑھے اور مجھے وہاں سے نکالا۔ اس کے بعدوہ تمام جگہ جل کر راکھ بن گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب میرے حواس بحال ہونا شروع ہوئے ۔ شاید اس کی وجہ تکلیف تھی۔ جلد ہی میں پوری صورت ِحال کا ادراک کرنے کے قابل ہوگیا ۔ میں نے اپنی مدد کرنے والوں کو بتایا کہ میرا ایک بازو اور ٹانگ ٹوٹ چکے ہیں اور کمر میںدرد ہورہا ہے (شاید جل چکی تھی)۔ اُنھوںنے مجھے بہت نرمی سے اُٹھایا اور وہاں سے نکالا۔

جس گلی میں طیارہ گرا تھا وہ بند تھی اور اس سے اب گزرنا ممکن نہیں تھا، لیکن ایک مرتبہ پھر خوش قسمتی نے میرا ساتھ دیااور دو عمارتوںکے درمیان تنگ سا راستہ مل گیا۔ وہاں گیٹ لگاہوا تھا جو عام طور پر بند ہوتا ہے لیکن اس موقع پر گیٹ کا تالا کھلا ہوا تھا ۔ مجھے اس راستے سے نکال کر سڑک پر لایا گیا جہاں ایک ایمبولینس نے مجھے سی ایم ایچ اسپتال ملیر تک پہنچایا۔ خدا کے فضل و کرم سے یہ سب کچھ ایک طے شدہ بندوبست کی طرح ہوتا چلا گیا۔

جس لمحے مجھے ایمبولینس میں منتقل کیا گیاتو ڈرائیور سے میرا پہلا سوال تھا کہ دیگر مسافروں کا کیا بنا؟ مجھے بتایا گیا کہ میں پہلا شخص ہوں جسے زندہ بچایا گیا ہے ، دیگر کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں پھر مجھے اسپتال میں ڈاکٹروں نے فوری طور پر مجھ پر توجہ دی۔ میں نے ایک بار پھر دیگر مسافروں کے بارے میں پوچھا ۔ اُن کا جواب بھی وہی تھا جو ایمبولینس ڈرائیور نے دیا تھا۔ نصف گھنٹہ تک جب میرے عزیز و اقارب کو میری اطلاع نہیں ملی تو اُن پر قیامت گزر گئی ۔

میں اُن کی جگہ خود کو رکھ کر اس اذیت کا تصور کرسکتا ہوں۔ میں نے ڈاکٹروںاور پیرامیڈکس سے ایک موبائل فون کی درخواست کی کہ میں اپنی والدہ کو فون کرکے اپنے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ ایک لیڈی ڈاکٹر نے میری والدہ کا نمبر ملایا لیکن اُن کا فون بند تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنے والد کا نمبر دیااوراُن سے بات کی۔ اس دوران بھی میرے ذہن میں دیگر مسافروں کی تشویش تھی ۔ چند منٹوں کے اندر میرے اہل خانہ اور دوست وہاں پہنچ گئے اور میں ایک مرتبہ پھر اپنوں کے درمیان تھا ۔ مجھے دارالصحت اہسپتال لے جایا گیا جہاں میرے بازو اور ٹانگ کا آپریشن ہوا۔ چار جون 2020ء کو میں اپنے گھر میں تھا۔

اس دوران مجھے پوری قوم کی طرف سے جو محبت اور چاہت ملی وہ میرا سب سے قیمتی اثاثہ ہے ۔ میں آج بھی اس کے بارے میں سوچ کر یا بات کرکے جذباتی ہوجاتا ہوں۔یہ احساس عمر بھر میرے ساتھ رہے گااورمیرے دل کو گرماتا رہے گا۔

اسپتال میں ابتدائی تشخیص کے مطابق میرا دایاں بازو، دو جگہوں سے ٹوٹا تھا جبکہ بائیں ٹانگ میں فریکچر ہوا تھا۔ لیکن تین دن بعد معلوم ہوا کہ میری جسمانی حالت کہیں پیچیدہ ہے کیونکہ میرے تمام جوڑ (ligaments) ٹوٹ چکے تھے ۔ آپریشن کے ذریعے ڈاکٹرنے میرے ٹخنوں کے جوڑ درست کردیے ۔ اس دوران مجھے ہدایت کی گئی کہ میں کچھ دیر انتظار کروں اور دیکھوں کہ کیا دیگر جوڑ خود بخود درست ہوجاتے ہیں یا نہیں، یا پھر مجھے باقی زندگی اسی طرح ہی بسر کرنی پڑے گی ۔ اس کے بعد دوسرا صدمہ یہ تھا کہ مجھے ہیما ٹوما (Haematoma) کی شکایت ہونے لگی اور میر ے جسم میں خون جمع ہونا شروع ہوگیا ۔

پہلے بائیں ٹانگ میں ، پھر دائیں ٹانگ میں اور پھر بائیں اور دائیں اعضا میں ۔ اس مرض میں کسی سخت صدمے ،اندرونی زخم یا سرجری کی وجہ سے خون شریانوں سے باہر آکر جسم میں جمع ہوجاتا ہے ۔ جب تکلیف بڑھ جائے تو پھر جمے ہوئے خون کو باہرنکالنا پڑتا ہے ۔ میری ٹانگ پر چار مختلف جگہوں پر خون نکلنے کے راستے بنائے گئے ۔ ڈیرھ ماہ کے بعد یہ جما ہواخون ایک ہی راستے سے باہر نکلنے لگا۔ اس کے بعد ایک اور صدمہ میرا منتظر تھا ۔ میری کمر کی جلد ریڑھ کی ہڈی کے اوپر سے مردہ ہوگئی تھی ۔ ایک تکلیف دہ اپریشن کے ذریعے مردہ جلد کو ہٹایا گیا ۔ اب یہ زخم بھرنے کے مرحلے میں ہے ۔

یہاں میں ماہر ِ نفسیات کے ساتھ ہونے والی نہایت اہم اور مفید مشاورت قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔اس کا مقصد صدمے کے بعد نفسیاتی کرب کی کیفیت سے نکلنا تھا ۔ میں نے مشاورت کے مختلف سیشنز رکھے تاکہ اگر اس صدمے کی وجہ سے مجھے نفسیاتی الجھائو کا سامنا ہے تو وہ ابھی ٹھیک ہوجائے ۔ ایسا نہ ہوکہ بعد میں وہ پیچیدگی اختیار کرلے ۔ ایسی مشاوت کرنے پر عام ذہن راضی نہیں ہوتا لیکن میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کیونکہ حادثے کا شکار ہونے والے افراد کے نفسیاتی مسائل جسمانی زخموں کی نسبت ازخود مندمل نہیں ہوتے ہیں۔ میں ابھی بھی ایک امریکی ڈاکٹر کے ساتھ کتھارسزکے سیشنز کررہاہوںاور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک اس کیفیت سے اطمینان بخش طریقے سے نکل نہیں آتا۔ فی الحال میں اپنی نفسیاتی صحت سے مطمئن ہوں۔

جیسا کہ یہ ابتلا کافی نہیں تھی، جون میں مجھ میں کورونا کی علامات ظاہر ہوگئیں۔ غالباً ٹیسٹ وغیرہ کے دوران انفیکشن ہوگیا تھا ۔ مجھے واضح نہیں تھا کہ کوویڈ 19 سے ہونے والی انفیکشن ہے یا ادویات کی بھاری خوراک کا نتیجہ ہے ۔ بہرحال جون کے اختتام پر کورونا ٹیسٹ کرایا جو کہ منفی آیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کورونا ہو کر ختم بھی ہوچکا تھا ۔ خیر یہ حیرت کی بات نہیںکیونکہ جب میں اہسپتال میں تھا تو اس وقت کورونا پورے عروج پر تھا اور مجھے دو ہفتوں کے دوران کم از کم دوسو سے تین سوا فراد ملنے آئے تھے ۔ بہرحال اب یہ ماضی کا حصہ ہے۔

خدا کے فضل سے اب میرادایاں ہاتھ جو جوڑ سے ٹوٹ گیا تھا ، بہتر ہے لیکن میں اس پر زیادہ دبائو نہیں ڈال سکتا۔ بائیں ٹانگ محدود حرکت کرسکتی ہے اگرچہ گھٹنے کے قریب سے اس کا جوڑ اتر گیا تھا ۔ میں ویل چیئر اور واکر استعمال کرتا ہوں جس سے کچھ حرکت ممکن ہوجاتی ہے ، لیکن ابھی یہ حرکت مجھے تھکادیتی ہے۔ اس لیے میں ان کا زیادہ استعمال نہیں کرتا۔ اسے ایک معمول کی حرکت کی بجائے ایکسرسائز یا اکتاہٹ دور کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے منظر تبدیل کرنے کی سہولت کہا جاسکتا ہے ۔ فزیکل ٹرینر کا کہنا ہے کہ ایک ماہ تک میں زندگی کے معمول پر واپس آسکتا ہوں، جو کہ خوش آئند بات ہے ۔ تاہم بائیں ٹانگ کا جوڑ مکمل ٹھیک ہونے میں کم از کم چھے ماہ لگ سکتے ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مجھے لگنے والے زخم اُس صورت حال کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو میرے ساتھ پیش آسکتی تھی ۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میں خدا کا شکر ادا کررہا ہوں کہ اُس نے مجھے یہ دیکھنے کے لیے زندہ رکھا کہ لوگ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں، اور یقینا اُن کی محبت میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے ۔ ایمسٹرڈم سے تعلق رکھنے والی میری ایک دوست جانتی ہے کہ میں میوزک بینڈ، دی کورز (The Corrs) کو کتنا پسند کرتا ہوں۔ اس نے بہت کوشش کرکے اس بینڈ کی مرکزی گلوکارہ ، اندریا کور کے دستخط کرا کر مجھے ایک بک اور ویڈیو پیغام بھیجا ہے ۔ یہ محبت بھرے تحائف زندگی بھر کے لیے میرا اثاثہ ہیں۔

میں اپنی زندگی اس طرح بسر کرنے کی کوشش کررہاہوں جیسے میں کسی بہت بڑے سانحے سے نہیں گزرا ، بلکہ مجھے کچھ معمولی سے زخم آئے تھے ، اور یہ کسی طیارہ حادثے کا نتیجہ نہیں ۔ ظاہر ہے اس حقیقت کو مکمل طور پر ذہن سے جھٹک کر نکالا نہیں جاسکتا ۔ لیکن میری کوشش ہے کہ خدا نے جتنی زندگی میری لکھی ہوئی ہے، اسے معمول کے مطابق ، ایک عام انسان کی طرح گزاروں۔

میں نے 13 جولائی 2020ء کو کام شروع کیا تھا۔ میں ’’ورک فرام ہوم‘‘انتظامات کے تحت گھر سے کام کرتا رہا ۔ اس کے بعد میں نے اٹھائیس ستمبر 2020 ء کو لاہور آفس جائن کیا ۔ درحقیقت میں نے ورک فرام ہوم کو ایک نئی اختراع دے کر ورک فرام اہسپتال بیڈ بنا دیا ہے ۔میں کام کی رفتار اور معیار سے بالکل مطمئن ہوں۔ طیارہ حادثے میں بچنے کے بعد اہسپتال کے بستر سے دو ماہ سے بھی کم عرصے میں کام پر حاضری دینا ایک شاندار تصور ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ مجھے کوئی معذوری نہیں ، اور یہ کہ میں معمول کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔

اپنے معالج کے مشورے سے میں نے چار ماہ بعد لاہور کا سفر کیا ۔ میں نے سفر کے لیے ایک مرتبہ پھر اپنی قومی ایئرلائن، پی آئی اے کا انتخاب کیا ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ قومی اثاثہ ترقی کرے اور اپنے قدموں پر کھڑا ہو یہاں تک کہ یہ ایک مرتبہ پھر اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرسکے ۔ میرے دوبارہ پی آئی اے کے ذریعے سفر کرنے سے لوگوں میں اعتماد بحال ہوا ہوگا۔ اس کے علاوہ میرے ذہن کے نہاں خانوں میں دبے ہوئے خوف پر بھی قابو پانے میں مدد ملی ۔ یقینا ہم خوف اور اوہام کو ذہن میں بٹھا کر زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔

میں گزشتہ چند ماہ کے دوران لوگوں سے ملنے والی بے پناہ محبت پر ان کا بے حد مشکور ہوں۔ چھبیس ستمبر 2020ء کو لاہور جانے کے لیے پی آئی اے کی پرواز بہت پرسکون تھی ۔اترتے ہوئے ایک لمحے کے لیے نگاہوں کے سامنے وہ منظر ضرور تازہ ہوگیا تھا ۔ لیکن یہ صدمہ مکمل طور پر مندمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ طیارہ حادثہ میں شکار ہونے والے افراد کے پسماندگان کی طرف سے کچھ افسوس ناک ردعمل سامنے آیا۔ اس پر مجھے افسوس ہے ، لیکن میں نے ایسا ارادی طور پر نہیں کیا تھا ۔ میں قطعی طور پر غیر سیاسی شخص اور ایک پیشہ ور شہری ہوں۔

پی آئی اے کے ذریعے سفر کرنے کے پیچھے میرا کوئی ایجنڈا نہیں تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی فضائی کمپنی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن پر قابو پائے جانے کی ضرورت ہے ۔ مجھے بھی ان مسائل کی وجہ سے تکلیف لاحق ہے ۔ میں اب ویل چیئر یا چھڑی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ممکن ہے کہ چند ماہ بعد میرے گھٹنے کا ایک اور آپریشن ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں پی آئی اے کی سرپرستی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت محض ایک تماشائی کی طرح اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بجائے ان مسائل کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔ یہ ہماری قومی ایئرلائن ہے ؛ ہمارا قومی اثاثہ ہے ؛ ا ور یقینا یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے ۔

کچھ لوگ ممکن ہے کہ ان خیالات سے اتفاق نہ کریں اور میں اُن کی رائے کا بھی احترام کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ میں غلط ثابت ہوں لیکن سرِدست ہمیں مثبت ارادوں اور اچھی نیت رکھنے چاہیے ۔ اگر ضرورت محسوس تو میں حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے پسماندگان کے ساتھ بات کرنے کے لیے حاضر ہوں۔میں انہیں پہنچنے والے صدمے اور اس کی شدت سے پوری طرح آگاہ ہوں ۔ میں ایک مرتبہ پھر دہرانا چاہوں گا کہ PK8303 کے ساتھی مسافروں کا صدمہ پوری زندگی میرے ساتھ رہے گا۔ میں ہمیشہ اُن کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔

جب بھی میں اس لرزہ خیز حادثے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے پاس اپنے بچ نکلنے کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی ۔ یہ ایک معجزہ تھا ۔ مجھے خدانے بچانا تھا ، بچا لیا۔ میرا خود سے صرف ایک ہی سوال ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کیوں ؟ مجھے کیوں بچا لیا گیا ؟ مجھے اس کے جواب کی تلاش ہے ۔ اس تحریر کو پڑھ کر قارئین بھی سوچ سکتے ہیںکہ ایسا کیوں ہوا۔ میرے لیے یہ ایک معمہ ہے ۔ ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا مجھ سے خوش ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں جو خدمات سرانجام دے رہا تھا اور جس طرح دے رہا تھا، وہ سلسلہ جاری رکھوں۔۔۔۔۔۔