تنگ آچکے ہیں لڑائی جھگڑوں سے ہم

October 27, 2020

یہ پوچھنا، بلکہ کہنا کہ پڑوسی آپس میں کیوں لڑتے ہیں، مناسب نہیں لگتا۔ طے شدہ بات ہے کہ اچھے پڑوسی آپس میں کبھی نہیں لڑتے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ پڑوسی آپس میں لڑتے ہیں، قطعی غلط ہے اچھے پڑوسی آپس میں کبھی نہیں لڑتے۔ برے پڑوسی آپس میں لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں۔ اپنا کوڑا کرکٹ پڑوسی کے بیرونی دروازے کے آگے ڈال آتے ہیں۔ ایک دوسرےکو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ سائنسدان آئن اسٹائن نے ایک ہاتھ سے تالی بجانےکیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام گر آزمائے تھے۔ مگر وہ ایک ہاتھ سے تالی بجانے کا ہنر ایجاد کرنے میں ناکام رہا تھا۔ آپ آئن اسٹائن کو جانتے ہیں نا؟ پچھلی صدی کا حیرت انگیز سائنسدان تھا۔ آئن اسٹائن کی ایجادات کا ہم مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی اور اس کے اپنے عقیدہ کے پیروکار عیسائی بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ عیسائیوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اسقدر ایجادات کی ہیں کہ مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی اور دیگر اقوام مل کر بھی عیسائیوں کی ایک چوتھائی کے برابر ایجادات دنیا کو نہیں دے سکے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ ایک ہاتھ سے تالی کبھی نہیں بج سکتی۔ تالی بجانےکے لئے دو ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر دونوں ہاتھ آپ کے ہیں، اور آپ تالیاں بجا رہے ہیں، تو پھر آپ کے اس فعل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے معرکہ مار لیا ہے اور آپ بہت خوش ہیں۔ اگر ایک ہاتھ آپ کا اور ایک ہاتھ کسی غیر کا ہے اور آپ تالی بجا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دونوں نے دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لئے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ تالی بجانے کے لئے اگر ایک ہاتھ آپ کا ہےاور ایک ہاتھ آپ کے دشمن کا ہے، تب اس تالی بجانےکے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی دبائو میں آکر دو دشمنوں نے آپس میں سمجھوتا کر لیا ہے۔ لمبی بات مختصر کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ لڑائی جھگڑا کرنے کیلئے دونوں پڑوسیوں کا برا ہونا ضروری ہے۔ اچھے پڑوسی آپس میں کبھی نہیں لڑتے۔ کسی ایک پڑوسی سے بھول چوک ہو جائے تو فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ برے پڑوسیوں کی طرح ایک دوسرے پر بہتان تراشی نہیں کرتے ۔ اگر ایک پڑوسی اچھا اور دوسرا پڑوسی برا ہے، پھر بھی ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

ایک اچھا پڑوسی اپنے برے پڑوسی کی خرمستیاں اور من مانیاں اس خندہ پیشانی اور صبر و تحمل سے ٹال دیتا ہے کہ برا پڑوسی کھسیانی بلی بن کر کھمبا نوچنے لگتا ہے۔ برے سے برا پڑوسی اچھے پڑوسی کے صبر و تحمل کے سامنے ششدر اور شرمندہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا لڑائی جھگڑے اور آئے دن کی چپقلش کیلئے دونوں پڑوسیوں کا برا ہونا لازمی ہے۔ اچھائی میں بڑی مثبت طاقت ہوتی ہے،برائی کی منفی قوتوں پر ایک نہ ایک روز حاوی ہو جاتی ہے۔ یقین جانیے ایسے دو پڑوسی جو ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، سوتے جاگتے ایک دوسرے کا برا چاہتے ہیں، بڑے برے اور بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے ا پنے گھر میں افراتفری ہوتی ہے۔ نظم و ضبط کا فقدان ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں ہوتا۔ کنبےکے افراد میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ رہتے تو ایک ساتھ ہیں مگر ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ اس طرح کے دو پڑوسی جب دیکھو آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ پورے اڑوس پڑوس کا ماحول خراب کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اپنے لڑائی جھگڑوں سے پورے پڑوس، بلکہ پورے گردونواح کا ماحول خراب کر دیتے ہیں۔ لڑاکو اور جھگڑالو پڑوسیوں کے اعصاب شکن غل غپاڑے میں آس پاس کے لوگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ جو لوگ ابھی تک ہوش و حواس میں ہیں، وہ بھی عنقریب حواس باختہ ہونے کو ہیں۔

یہ بات وثوق سے میں نےاس لئےکہی ہے کیوں کہ میں جھگڑالو پڑوسیوں کے گرد و نواح میں رہتا ہوں۔ میرا شمار ان بے شمار لوگوں میں ہوتا ہے جو عنقریب حواس باختہ ہونے والے ہیں۔ ہم لوگ اس لئے حواس باختہ ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ ہم لوگ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ جھگڑالو پڑوسیوں سےکیوں کر راہ و رسم بڑھائی جائے۔ آخر ہم سب ایک ہی پڑوس میں رہتے ، ایک ہی محلے میں رہتے ہیں۔ اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ رابطہ تو ہونا چاہیے۔ یہ کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ اگر اسرائیل، سعودی عرب اور عرب امارات آپس میں رابطہ رکھ سکتےہیں، تو پھر ازل سے جھگڑالو پڑوسی اگر ہم نیم دیوانوں کی وساطت سے رابطہ میں آتےہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟

اچھائی برائی درکنار، ہمہ وقت لڑنے مرنے والے دو لڑاکو پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے رابطہ میں لانا ہم نیم دیوانوں کو امکان سے باہر محسوس ہوا ہے۔ جھگڑالو پڑوسی اب تو اس بات پر بھی طیش میں آجاتے ہیں کہ جس ہوا میں ایک جھگڑالو پڑوسی سانس لے رہا ہے، اسی ہوا میں اس کا دشمن پڑوسی کیوں سانس لے رہا ہے؟ جو بارش ایک جھگڑالو پڑوسی کے گھر پر برستی ہے؟ دونوں جنگجو پڑوسی ہم نیم دیوانوں کو ایک دوسرے کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ دونوں کےمنہ سے ایک ہی بات نکلتی ہے، ’’فیصلہ کر لو۔ تم یا تو میرے ساتھ ہو، یا اس کے ساتھ ہو‘‘۔