بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

October 27, 2020

پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی میں پے در پے جلسے ہوئے، جن میں پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو ان کی توقع سےکہیں زیادہ کامیابی ملی۔ عوام کی تعداد و اعتماد نے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ کہنے کو تو حکومتی اہلکار بڑی جی داری سے کہہ رہے ہیں کہ دونوں جلسے پِٹ گئے، عوام نے اپوزیشن کی پکار پر کان نہیں دھرے لیکن حقیقتِ حال نے اعتراض کرنے والوں کی بولتی بند کردی ہے۔ دیکھتی آنکھیں، بولتی زبانیں کچھ کہہ رہی ہیں۔ لوگ جھوٹ بول سکتے ہیں، تعداد کم زیادہ بتا سکتے ہیں، جیسا کہ ہو رہا ہے۔ حکمران طبقہ کہہ رہا ہے‘ جلسے ناکام ہو گئے جبکہ پی ڈی ایم والےخوش ہیں۔ اُن کے بقول اُنہیں توقع سے زیادہ پذیرائی ملی ہے لیکن ٹی وی کیمرے تو حقیقتِ حال کی گواہی دے رہے تھے، وہ تو دنیا نے دیکھا ہے۔ اور تو اور خود وزیراعظم عمران خان نے اپنے چہرے پر غصے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے نئے عمران خان کی نوید سنائی ہے،’’ اب اپوزیشن کو کوئی رعایت نہیں ملے گی‘‘۔ پہلے کون سی رعایت ملی ہوئی ہے؟ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انتقامی کارروائی میں مزید زور پیدا کر دیا جائے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ اُنہیں اپوزیشن بلیک میل کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ اپوزیشن نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

حزبِ اختلاف والے تو تخت کا تختہ کرنے نکلے ہیں، درمیان کا کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں، اسمبلیاں تحلیل کروانا کچھ مشکل نہیں، تحریک عدم اعتماد لانا بھی مشکل نہیں کیونکہ اِن دونوں طریقوں سے ہی حکمرانوں سے جان نہیں چھوٹتی۔ لہٰذا لے دے کے ایک یہی صورت رہ جاتی ہے کہ حکمرانوں پر اتنا عوامی دبائو ڈالا جائے کہ حکمران گھبرا جائیں اور بوکھلا کر خود ہی حکومت سے دست بردار ہو جائیں اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ وزیراعظم نے اپنے غصے کا جس طرح اظہار کیا، وہ نئے عمران خان کا اظہار ہی ہو سکتا ہے۔ اِس سے پہلے بھی انتخابات سے قبل، جس نے عوام کو سبز باغ دکھائے تھے، وہ کوئی اور عمران خان تھے، اقتدار ملتے ہی دوسرے عمران خان سامنے آئے جو اپنے تمام وعدے بھلا بیٹھے اور اب ایک اور عمران خان نے جنم لیا ہے جو اپنے مخالفین کا سامنا ،بغیر کسی قسم کے دبائو میں آئے، کرنے کو تیار ہے۔

وزیراعظم کا منصب بڑے تحمل و برداشت کا متقاضی ہے۔ بہت سی ناپسندیدہ باتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا ہوتا ہے، یوں ہر بات پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا جبکہ اُن کو یقین ہے کہ سب اُن کے ساتھ ہیں تو پھر گھبراہٹ کیسی؟ بےچینی اور غصہ کیوں؟ کہیں اوپر والا ہاتھ ہلکا تو نہیں محسوس ہورہا؟ اگر ایسا ہے تو بھی بہت سوچ سمجھ کر، بہت تحمل کے ساتھ، صبر کے ساتھ مشکل وقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ورنہ نیا پار لگنے سے پہلے ہی ڈوب بھی سکتی ہے۔ اُنہیں سوچنا چاہئے کہ جب وہ حزبِ اختلاف کا حصہ تھے تو اُنہوں نے خود اُس وقت کی حکومت کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا تھا؟ یہ تو مکافاتِ عمل ہے، جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے، کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وزیراعظم کا فرمان ہے، اپوزیشن کے لئے رعایت ختم، اداروں کے خلاف بیانیے پر بھرپور جواب دیا جائے گا، کرپشن کیسز کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچائیں گے حالانکہ یہ وقت ایسا ہے کہ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔

کراچی میں اپوزیشن کے عوامی طاقت کے دوسرے مظاہرے میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو جانا ہوگا، کٹھ پتلی نے دھاندلی کا اعتراف کر لیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا خواب دکھا کر 26لاکھ نوجوانوں کو بےروزگار کردیا گیا۔ مریم نواز نے کہا کہ فارن فنڈنگ کا فیصلہ ہوا تو غداری سامنے آجائے گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ پارلیمنٹ سڑکوں اور جیلوں میں لڑائی لڑے گی۔ اپوزیشن کے تمام اکابرین بھی کسی سے کم نہیں۔

میاں نواز شریف نے جو لائن دی ہے، وہ کوئی خوش گوار نہیں ہے۔ اُنہوں نے قومی سالمیت کے ادارے کو اپنے نشانے ہر رکھا ہوا ہے۔ اُس ادارے کے خلاف اِس طرح بولنا قطعی مناسب نہیں ہے۔ حکومت کا رویہ بھی جمہوری نہیں ہے، دونوں طرف سے لہجہ نامناسب ہے۔ حکمرانوں کےسر پر انتقام سوار ہے تو مخالفین بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔