بُراوقت

October 28, 2020

آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ برے وقت کے لئے کچھ جمع کر لو ۔ انسان اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے، اُس برے وقت کی تیاری کرتا ہے۔ کچھ پیسے جمع کرکے وہ ایک پلاٹ خریدتا ہے۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا۔ یہ وہ پلاٹ ہیں، جن میں اُسے کبھی رہائش پذیر نہیں ہونا بلکہ یہ صرف اور صرف برے وقت کے لئے خریدے گئے ہیں، جیسے شریف خاندان نے لندن میں خریدے تھے۔ برے وقت کا خوف انسان پر اِس بری طرح سوار ہے کہ دنیا کا ہر شخص اضطراب میں ہے۔ دنیا کا ہر آدمی اُس برے وقت کے لئے زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔ کبھی آپ ماہرینِ نفسیات یا ایک صوفی کے پاس آنے والے لوگوں کے مسائل سنیں۔ آپ پر ایک عجیب انکشاف ہوگا کہ غریب آدمی جس قدر پریشان ہے، امیر بھی کچھ کم نہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ غریب کی پریشانی تو سمجھ میں آتی ہے۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی کہ گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے؟ بچوں کی تعلیم کس طرح مکمل ہوگی؟ اُن کی شادیاں کیسے کی جائیں گی؟ جس شخص کے پاس اربوں روپے پڑے ہیں، اُسے تو ایک گہرے سکون میں ڈوب جانا چاہئے تھا۔

لوگ کاروبار کرتے ہیں، دولت کماتے ہیں۔ جب وہ بہت زیادہ دولت کما چکےہوتے ہیں تو پھر سوچتے ہیں کہ سیاست میں آنا چاہئے تاکہ سیاسی قوت بھی میسر ہو۔ وہ ایم این اے بن جاتے ہیں۔ قسمت یاوری کرے تو ایک دن ملک کے وزیراعظم بھی۔ اِس سے زیادہ ایک انسان کو محفوظ مستقبل کی کیا ضمانت مل سکتی ہے کہ وہ جس ملک میں رہتا اور کاروبار کرتا ہے، وہاں اُس کی اپنی حکومت قائم ہے۔ ایسا شخص اگر چوری چھپے پیسے اکٹھے کر کے برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں خفیہ طور پر فلیٹ خرید اور اکائونٹس کھول رہا ہو تو یہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قلاش شخص برے وقت سے جس قدر خوف زدہ ہے، ملک کا حکمران اُس سے بھی زیادہ ڈرا ہوا ہے۔ ملک کا حکمران اتنا ڈرا ہوا ہے کہ وہ اُس برے وقت میں اپنی شاہی زندگی ترک کرکے کسی دوسرے ملک میں ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہے لیکن انسان جو کچھ مرضی کرے، وہ برے وقت سے بچ نہیں سکتا۔ یہ برا وقت ہے کیا؟ برا وقت یہ ہے کہ جس اولاد کو آپ نے اپنی گود میں کھلایا ہے، وہ جائیداد کے لئے آپ ہی سے جنگ شروع کر دے گی۔ برا وقت یہ ہے کہ معمر قذافی کی طرح، جس ملک پر آپ نے چار عشرے حکومت کی ہے، اُسی کی گلیوں میں عوام تشدد کرکے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے۔ برے وقت کیلئے تیاری معمر قذافی اور صدام حسین سے زیادہ اور کسی نے نہ کر رکھی تھی۔ کئی ممالک میں جائیدادیں، بینک بھرے ہوئے۔ ہیرے جواہرات کے ڈھیر۔ پھر کہاں گئی برے وقت کی اُن کی تیاری؟ میاں محمد نواز شریف نے برطانیہ میں جو جائیداد برے وقت سے بچنے کے لئے بنائی تھی، وہ الٹا اُن کے گلے پڑ گئی۔ یہ جائیداد نہ ہوتی تو وہ بچ نکلتے۔ برے وقت سے بچنے کے لئے انسان جو تدبیر کرتا ہے، وہ اُلٹا اس کے گلے پڑ جاتی ہے۔

برا وقت یہ ہے کہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود آپ ایک ماہرِ نفسیات کے سامنے بیٹھ کر تحلیلِ نفسی پر مجبور ہیں۔ آپ اُسے اپنے اُن خیالات تک رسائی دے رہے ہیں، جو ساری دنیا سے آپ نے چھپا رکھے تھے۔ برا وقت یہ ہے کہ آپ کے اپنے ہی خیالات شیش ناگ بن کر آپ کو ڈس رہے ہیں۔ برا وقت یہ ہے کہ یہ اذیت ناک خیالات آپ کو شدید اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں اور آپ کی دولت آپ کے کسی کام کی نہیں۔ برے وقت سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ برا وقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے اعضا میں کمزوری آتی چلی جائے گی۔ برا وقت یہ ہے کہ آپ کا اپنا جسم آپ کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ برا وقت یہ ہے کہ باکسنگ کا ایک ہیوی ویٹ چیمپئن پارکنسن کا شکار ہو جاتا ہے۔ برا وقت یہ ہے کہ آپ کے جسم پہ فالج گر جاتا ہے اور اولاد میں سے کوئی آپ کو سنبھالنے کو تیار نہیں۔ انسان مریخ اور چاند پہ بسنے کی تیاری کر رہا ہے، کیوں؟ آدمی اِس اضطراب میں ہے کہ اس کرّۂ ارض پہ برا وقت آ سکتا ہے۔ اُسے کہیں اور شفٹ ہو جانا چاہئے کہ یہ سیارہ اگر تباہ ہو تو کسی اور زمین پہ انسانی نسل باقی رہے حالانکہ مریخ زندہ مخلوقات کیلئے ہرگز سازگار نہیں۔ پھر انسان اُس تکلیف دہ زندگی کی جانب دوڑتا کیوں چلا جا رہا ہے؟ اِس لئے کہ کروڑوں برس پہلے ہمارے آبائو اجداد نے زمین پہ برا وقت آتے دیکھ رکھا ہے۔ دمدار ستارہ گرنے یا عالمگیر آتش فشانی سے اِس نے وہ بےپناہ تباہی دیکھ رکھی ہے، جس میں دو تہائی جاندار انواع (species) صفحۂ ہستی ہی سے مٹ گئیں۔

انسان دراصل جس برے وقت سے ڈرا ہوا ہے، اُسے قرآن میں القارعہ کہا گیا ہے۔ ایک زور دار دھماکہ، جس سے زمین کو دھچکا لگے گا اور پہاڑ جس سے ٹوٹ کر ہوا میں اِس طرح اڑنے لگیں گے، جیسے روئی کے گالے اُڑتے ہیں۔ سورج زمین کے قریب آجائے گا اور چاند (اور پہلے دو سیاروں عطارد اور زہرہ) کو نگل لے گا۔ یوں سورج اور چاند یکجا ہو جائیں گے۔ دودھ پلاتی مائیں اپنے بچوں کو فراموش کر دیں گی۔ قبر میں گل سڑ جانے کے بعد آپ کو دوبارہ تخلیق کر دیا جائے گا۔ برا وقت پھر تب شروع ہوگا، جب آپ سے آپ کے اعمال کا حساب مانگا جائے گا اور آپ کے پلّے کچھ نہ ہوگا۔ برے وقت سے وہی بچ سکتا ہے، جس نے خدا کا ہاتھ تھام رکھا ہو۔ برا وقت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انسان جتنی مرضی تیاری کر لے، اُس سے بچ نہیں سکتا۔