پاکستان پر ملکی تاریخ کا بلند ترین قرض

October 28, 2020

پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور پی ٹی آئی دور حکومت میں یہ قرضے 100 ارب ڈالر کی نفسیاتی حد عبور کرکے 113 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان پر بڑھتے قرضوں کا انکشاف گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی شائع رپورٹ سے ہوتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے گزشتہ دو برسوں میں بیرونی قرضوں میں 17 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ یاد رہے کہ2018ء میں مسلم لیگ (ن) دور حکومت کے آخری ایام میں پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 95.3ارب ڈالر تھا جو پی ٹی آئی حکومت کے دو سالہ دور حکومت میں 17ارب ڈالر کے اضافے سے 113ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ حکومت نے یہ قرضے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، مقامی بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے حاصل کئے۔

بیرونی قرضوں کے علاوہ پی ٹی آئی دور حکومت میں ملکی قرضوں میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا اور حکومت نے مالی خسارے کو پورا کرنے کیلئے گزشتہ دو برسوں میں مرکزی اور نجی بینکوں سے11.5ہزار ارب روپے (11.5کھرب روپے) سے زائد قرضہ حاصل کیا جو مسلم لیگ (ن) کے 5 سالہ دور حکومت میں لئے گئے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ ہیں۔ اِس طرح پی ٹی آئی دور حکومت میں دو برسوں کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں کے مجموعی حجم میں 36.5ہزار ارب روپے (36.5کھرب روپے)کا اضافہ ہوچکا ہے جو جی ڈی پی کا 87 فیصد بنتا ہے۔ واضح رہے کہ 2018ء میں مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں مجموعی قرضوں کا حجم 25 ہزار ارب روپے تھا جو جی ڈی پی کا 72.5 فیصد بنتا تھا مگر گزشتہ دو برسوں میں لئے گئے قرضے جی ڈی پی کا 87 فیصد ہوگئے ہیں اور اس طرح آج ہر پاکستانی ایک لاکھ 80 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں 10برسوں کے دوران 30 ہزار ارب روپے (30 کھرب روپے) کا اضافہ ہوا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے صرف دو برسوں میں ملکی قرضوں میں 36ہزار ارب روپے (36 کھرب روپے) کا اضافہ کیا جو یقیناً ایک تشویشناک امر اور لمحہ فکریہ ہے۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں قرضوں کے حجم میںجس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، وہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہے اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے حکومت میں اِن قرضوں کی واپسی کی استطاعت نہیں رہی تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ کورونا کی صورتحال کے باعث مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی واپسی کی مدت میں ڈیڑھ سے چار برس تک کا اضافہ کردیا گیا ہے جس سے پاکستان کو قرضوں کی واپسی میں کچھ مہلت مل گئی ہے۔

قرضے لینا کوئی معیوب بات نہیں بشرطیکہ یہ قرضے ملک کے ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جائیں جس سے نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہو بلکہ عوام کیلئے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہے جس نے چین سے ایک کھرب ڈالر، جاپان سے ایک کھرب ڈالر اور دیگر ذرائع سے اربوں ڈالر قرضے حاصل کئے ہوئے ہیں مگر یہ قرضے امریکی عوام کی فلاح بہبود کے منصوبوں پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ اِسی طرح وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جو بیرونی قرضے لئے گئے، اُن سے بجلی کے کئی پروجیکٹس لگے جن سے 12 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا ہوئی اور ملک میں نہ صرف لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا بلکہ صنعتوں کا پہیہ رواں ہوا۔ نواز شریف دور حکومت میں انفراسٹرکچر پر بھی بھاری رقوم خرچ کی گئیں اور تقریباً 2 ہزار کلومیٹر موٹر ویز کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ ڈھائی برسوں میں موجودہ دور حکومت میں ملک بھر میں کوئی نئے پروجیکٹس نہیں لگائے گئے اور عوام یہ جاننے میں حق بجانب ہیں کہ ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہ ہونے کے باوجود حکومت نے 36 کھرب روپے کا مجموعی قرضہ کس مقصد کیلئے لیا اور ان قرضوں کو کہاں خرچ کیا گیا؟

عمران خان ماضی میں ہمیشہ سابقہ حکومتوں کےقرض لینے کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد قرض لینے کی روایت ختم کردیں گے لیکن افسوس کہ یہ روایت تو ختم نہ ہوسکی مگر ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ ایسی صورتحال میں ہر شخص یہ سوال کررہا ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ اور ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نام پر عوام کو کیوںبے وقوف بنایا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے اور کیا موجودہ حکومتی ٹیم میں معیشت چلانے کی صلاحیت موجود ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی کوئی مربوط پالیسی نہیں اور حکومتی پالیسی، آئی ایم ایف کی دی گئی پالیسی کا ہی ملک میں نفاذ ہے جس سے مہنگائی اور قرضوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ آج پاکستان پر ملکی تاریخ کا بلند ترین قرضہ تشویشناک منظر پیش کررہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی 5 برس برسراقتدار رہی اور قرضے لینے کا یہ سلسلہ اِسی رفتار سے جاری رہا تو اِس بات کا قوی امکان ہے کہ ملکی مجموعی قرضے گزشتہ 70 برسوں میں لئے گئے قرضوں سے تجاوز کرجائیں گے اور حکومت کا اِن قرضوں کے حوالے سے ڈیفالٹ کرنا یقینی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)