یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ

October 28, 2020

پاکستان پر ایف اےٹی ایف نے جون18 میں پابندیاں لگائی تھیں کہ آپ دو کام مکمل کریں، ایک تو منی لانڈرنگ ختم کریں اور دوسرامذہبی انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑیں۔ ہم نےبڑے اقدامات بھی کئےلیکن روز روز کبھی وزیرستان کبھی کرک میں کبھی کوئٹہ اور تقریباً سارے بلوچستان میں بارودی سرنگیں پھٹنا، دہشت گردوں کا ہمارے جوانوں کو بلاوجہ مار ڈالنا۔ ایسی خبریں گھر میں چھپا کر بھی نہیں رکھی جا سکتی ہیں۔ آخر وہی ہوا جس کی توقع تھی اور جس میں ہم نے بڑی آسانی سے انڈیا کو ملوث کر دیا، وہ بھی کم نہیں فتنہ پروازی میں وہ ہم سے دس ہاتھ آگے ہے مگر بقول شاعر ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیاــ‘‘۔

اب دو سال بلکہ ڈھائی سال سے زبردستی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر سرکار اعلیٰ نے غلط بیان اور مالی معاملات چھپانے کے خلاف مقدمہ کیا تھا، روز کبھی ان کی بیوی کے مالی معاملات کھنگالے جاتے اور کبھی ان کے بارے میں نئی خبر نکالی جاتی ۔شاید آپ کو معلوم ہو کہ وہ قاضی عیسیٰ ، قائداعظم کے بلوچ رفیق جو زیارت میں بھی ان کے ساتھ رہے ،یہ ان کے بیٹے ہیں۔ آخر کو جسٹس بندیال نے 245صفحات پر مبنی فیصلہ لکھا۔ خلاصہ یہ کہ صدر کو ایسا مقدمہ بنانے کا اختیار ہی نہیں۔ ہم کب تک باتوں کی جلیبیاں بناتے رہیں گے۔ یہی دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے کہ ایک اشاعتی ادارے نے بھیس بدلا۔ وہ سالانہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بنام اردو فیسٹیول کرتے رہے مگر اس کے روح رواںحضرات کو نہ صرف نکال دیا بلکہ ان پر مقدمے بھی قائم کیے۔ کمال یہ کیا ہے کہ اب ایک ادیب جو پروگرام کا روح رواں تھا، اس کے مرنے پہ بھی کوئی تعزیتی اجلاس نہیں کیا اور اب زوم پر اس کی یاد میں پروگرام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایسا ہی فہمیدہ ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ میں بہت تکلیف کے ساتھ سارے پڑھنے والوں اور ادارے سے یہ پوچھ رہی ہوں کہ آپ کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ادب اور ادیب، دونوں کو تم نے کمرشل بنا دیا کہ ان کے بقول گوروں کی یہی فرمائش تھی، جس نے اس ادارے کو چلنا سکھایا۔ اسی کو قصور وار گردانا جا رہا ہے۔ ’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ انڈیا میں ایک طرف تو اردو کو تہ تیغ لانے کی باتیں ہیں۔ دوسری طرف راجدھانی کے علاوہ ہرشہر میں اردو کے نام پر مشاعرے ہو رہے ہیں اور مصرعے پڑھے جا رہے ہیں ’’اردو میری سہیلی ہے‘‘۔ منافقت کی کوئی انتہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ حکومت ریجنل تجارت پر زور دے رہی ہے اور ہمسایوں سے لڑ بھی رہی ہے اور ہندوستان اور افغانستان کے مابین تجارت میں سہولت کار بھی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کے تو ہر کام میں منیر نیازی کامصرعہ منطبق ہوتا ہے ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔ منیرؔ کو بھی کوئٹہ کے مشاعرے میں جب یہ نظم پڑھتے ہوئے سنا تو ایک بلوچ کھڑا ہو کے بولا، شادی کرنےمیں تو کوئی دیر نہیں کی۔ اس سے یہ مطلب سمجھیں کہ ہر قوم میں چاہے دیہاتی ہوں، ان کو بھی بڑی پکی سمجھ ہوتی ہے۔ وہ بے چارے لحاظ اور برادری سسٹم میں اب تک مارے جاتے رہے ہیں۔

بہت سیاپا ہو گیا۔ اب آپ روز اخبار کے ایک چوتھائی صفحے پر کامیاب نوجوان اور آسان قرضوں کے حصول کیلئے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ مجھےکوئی ایک دس بندوں کی فہرست دے جن کا نہ کوئی کاروبار تھا، نہ زیادہ پڑھے لکھے ،نہ کسی امیر کھاتے پیتےگھر سے تعلق تھا۔ ان کو انہوں نے قرضے دیے ہوں اور وہ کامیاب نوجوان بن کر چمک رہے ہوں۔ دور کیوں جائیں آکسفیم ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ اس کے سربراہ نےکہا ہے ’’سود والے قرضے، غریبوں کو دے کر، ہم انہیں پھنسا رہے ہیں۔ یہاں پیسے نہ ہونے کے باعث ملتان میں مختاراںمائی کا اسکول بند ہو گیا۔اس وقت امریکا میں غربت کے باعث لوگ اپنا خون بیچ رہے ہیں اور پاکستان میں پولیس چاہے لاہور کی ہو کہ کراچی کی، وہ معرکے مار رہی ہے کہ جس خاتون نے لاہور میں پولیس کو گالیاں دیں وہ تو ریڈ بک میں لکھی جانی چاہئیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بھٹو صاحب کے نئے نئے زمانے میں پورے پنجاب میں پولیس کی ہڑتال کروائی گئی تھی۔ وہ بھی ان کے پروردہ لوگوں نےکروائی تھی۔ ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں جن کی جب زنجیر ہلا دی جائے ۔ حال ہی میں اٹلی کی حکومت نے پاکستانی لیبر مانگی ہے۔ جو لوگ اٹلی کے سفارت خانے کے باہر کھڑے تھے، اُن سے پوچھا کہ کورونا تو وہاں بھی ہے۔ کیوں جانا چاہتے ہو؟ سب اکٹھا بولے ’’بھوکے مرنے سے کام کرتے ہوئے مرنا بہتر ہے‘‘۔

اقوامِ متحدہ نے اپنی سالگرہ کے پیغام میں کہا کہ ’’اگر عورتوں کو ترقی پذیر ملکوں میں آگے آنے دیا جائے تو انتظامی ڈھانچہ ٹھیک ہو سکتا ہے‘‘۔ آپ کہیں گے بے نظیر دو دفعہ حکمران رہیں ۔ غلط ہے وہ حکمران نہیں رہی،اس کے نام پہ اس وقت کے صدر اور امریکہ نے اپنا حکم چلایا۔ دوسرے دور میں حکومت اس کی نام کی تھی اور سب لوگوں نے اسے اپنی غلط کاریوں کیلئےسہولت کار بنایا ہوا تھا۔ اور اب سارے ملک میں غداری کے فتوے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ سانحہ دہرایا جا رہا ہے۔ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو اس وقت کی حکومت نے نہ صرف بنگالیوں کو غدار کہا تھا بلکہ ہم جیسے ادیبوں اور صحافیوں، جنہوں نے بنگال میں آرمی ایکشن کے خلاف ایک قرار داد پاس کی تھی، سب کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ کسی فلسفی نے کہا تھا ’’پہلے اپنے ذہن کو ٹھیک کرو۔ اپنے ملک کو بعد میں ٹھیک کرنا اور سارے زمانوں میں حب الوطنی کو چیلنج کرنا آخری ہتھیار ہوتا ہے‘‘۔