مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

October 29, 2020

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا۔ مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا۔ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا۔ فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ۔ یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ۔ خطا کا ر سے درگزر کرنے والا۔ بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا۔ مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا۔ قبائل کو شیر و شکر کرنے والا۔ اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا۔ اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا۔ مس خام کو جس نے کندن بنایا۔ کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا۔ عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا۔ پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا۔ رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا۔ اِدھر سے اْدھر پھر گیا رُخ ہوا کا۔ سبحان اللہ۔ میں میرے ماں باپ۔ میری اولادیں نبی آخر الزماں ﷺ پر قربان۔ ہم سب کو یقین راسخ ہے کہ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دل عشق محمدؐ سے سرشار نہ ہوں۔

کل پوری اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قریہ قریہ عشاقِ رسولؐ سبز پرچم لے کر نکلیں گے۔ حضور اکرمؐ سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کریں گے۔ سب اس حقیقت پر فخر کریں گے کہ ہم امام الانبیا ؐکی امت میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے ۔ بچپن سے ہم الطاف حسین حالیؔ کی یہ عقیدتیں پڑھتے اور سنتے آئے ہیں۔ یہ اشعار نہیں ہیں۔ ایک منظر نامہ ہے۔ جس میں

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑی ہستی کے ورود۔ ان کے پیغام کبیر۔ ان کی آمد کے مقصد اور ان کی اسوۂ حسنہ سے عرب کی سماجی ۔ عمرانی۔ اقتصادی۔ اخلاقی۔ سیاسی کایا پلٹنے کا ذکر ہے۔ یہ منظوم سیرت النبیؐ ہے۔ عام مسلمان تک بڑی وضاحت سے زمانۂ جاہلیت۔ بعثتِ نبوی اور اس کے بعد عرب کی صورت حال بدلنے کے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔ الطاف حسین حالیؔ نے اس ہادی و داعی سے مخاطب ہوکر یہ فریاد بھی کی تھی۔ اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے۔ امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے۔ جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے۔ پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے۔ جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے۔ اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے۔ جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب۔ اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے۔ فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں۔ بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے۔ ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے۔ نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے۔

حالیؔ نے یہ فریاد ایک سو برس پہلے کی تھی۔ امت کا حال آج بھی برا ہے۔ آج میں اور آپ سب مل کر اپنے پیارے اور سوہنے نبیؐ سے پھر فریاد کرتے ہیں۔ انؐ کے توسط سے خالقِ حقیقی۔ خدائے بزرگ برتر سے رحم کی بھیک مانگتے ہیں۔ حضورؐ ۔ ہم آپس میں بر سرِ پیکار ہیں۔ ہم آپ کی غلامی کا دم بھرتے ہیں۔ مگر زمین کے خدائوں سے ڈرتے ہیں۔ آپؐ نے قیصر و کسریٰ کا غرور ختم کردیا تھا۔ مگر ہم پر وائٹ ہائوس کا خوف طاری رہتا ہے۔ ہم کریملن سے کپکپاتے ہیں۔ 10ڈائوننگ اسٹریٹ سے گھبراتے ہیں۔ اب فرانس جیسا کمزور ملک بھی آپؐ کی شان میں گستاخی کررہا ہے۔ ہم صرف قراردادیں منظور کررہے ہیں۔ اس کے سفیر کو ملک سے باہر نہیں نکال رہے۔ اپنے سفیر کو واپس نہیں بلارہے۔ حضورؐ۔ ہم نے سچ کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ دن رات جھوٹ بولتے ہیں۔ غریبوں کا حق مارتے ہیں۔ سرکاری خزانے کو، بیت المال کو لوٹتے ہیں۔ اور پھر دیارِ غیر میں دندناتے پھرتے ہیں۔ حضورؐ ہم نے عقل و بصیرت سے تعلق توڑ لیا ہے۔ آپؐ نے قبائل کو شیر و شکر کیا۔ ہم قبائل میں بٹ گئے ہیں۔ ہر ادارہ ہر حلقہ ایک قبیلہ بن گیا ہے۔ قبیلوں کے سربراہ خطا کار ہیں۔ مگر ہم ان کو اپنا عظیم رہنما قرار دیتے ہیں۔ آپؐ امین ہیں۔ صادق ہیں۔ ہم آپؐ سے عقیدت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر امانت میں خیانت بھی کرتے ہیں۔ صداقت سے گریز کرتے ہیں۔ آپؐ نے امن۔ سلامتی۔ اخوت کا درس دیا۔ ہم دھماکوں میں جنت ڈھونڈتے ہیں۔ بھائی کو بھائی سے لڑواتے ہیں۔

حضورؐ۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے قیام کا مگر 1500سال سے ہم بادشاہوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہجرتیں اب بھی ہورہی ہیں۔ مگر انصار کا جذبہ اب نہیں ہے۔ ریاستِ مدینہ کے قواعد و ضوابط کا مطالعہ نہیں کرتے۔ ہم اپنے سرکاری دفاتر قیصر و کسریٰ کے محلات کی طرح بناتے ہیں۔ مسجد ۔ محراب و منبر کا رخ نہیں کرتے۔ ہم سب گنہ گار ہیں۔ بحر ِعصیاں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم آپؐ کی امت کے فرد ہیں۔ ہم پر کرم۔ عنایت۔ ہم،ہمارے حاکم اور ہماری راہبری کے دعویدار بھٹکے ہوئے ہیں۔ آپؐ تو پروردگار کے محبوب ہیں۔ ہماری ان سے سفارش کریں کہ وہ ہمیں سیدھی راہ پر آنے کی توفیق دے۔ رزقِ حلال کی جستجو۔ رزقِ حرام سے نفرت پیدا کرے۔ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ایمان رکھنے والوں پر کفر اور غداری کے فتوے صادر نہ کریں۔ ہم میں تحقیق اور تصدیق کی اہلیت عطا ہو۔ کافر ایک ملت واحدہ ہیں۔ مگر ہم سب بٹے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اے عادلؐ۔ اے ابولقاسمؐ۔ ابوالطاہرؐ۔ ابو ابراہیمؐ۔ امام المتقین۔ خطیب الامم۔ ہم شرمسار ہیں ۔ نادم ہیں۔ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر، دوسروں کے امور میں مداخلت کرنے پر۔ اپنے اداروں پر تہمتیں لگانے پر۔ یتیموں غریبوں کے کام نہ آنے پر۔ آپؐ نے مس خام کو کندن بنایا۔ ہم سونے کو لوہا بنارہے ہیں۔ آپ نے کھرے کھوٹے کو الگ کیا۔ ہم کھوٹوں کو کھروں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ آپ نے مفاسد کو زیر و زبر کیا۔ ہم مفاسد کو سر کا تاج بنارہے ہیں۔ آپ نے غلاموں کو آزاد کیا۔ ہم آزادوں کو غلام بنارہے ہیں۔ ہمارے علماء خاموش ہیں۔ ہماری درسگاہیں علم کا نور پھیلانے سے قاصر ہیں۔ ہمارے طبیب۔ مریضوں کو شفا دینے سے پہلے ان سے زر کی طلب کرتے ہیں۔

اے مزمل۔ اے مدثر۔ مجسم حلم و عفو۔ آپ کے وسیلے سے ہم قادرِ مطلق سے رحمت ،برکت، خوشحالی کے طلب گار ہیں۔ ہم صبح آزادیٔ کامل کو ترس رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں۔ لیکن دین کے اجارہ داران کے جوابات نہیں دیتے۔اے اللہ ۔ (حضرت)محمدؐ پر اُن کی آل پر سلامتی ہو۔ جیسے تو نے (حضرت) ابراہیمؑ اور ان کی آل پر کی۔ اے اللہ (حضرت) محمدؐ اور ان کی آل کو برکتوں سے نواز۔ جیسے تو نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی آل کونوازا۔ آمین۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)