مُحسنِ انسانیتﷺ کی حیاتِ طیبہ کے درخشاں پہلُو

October 30, 2020

مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے نبی (ﷺ ) ہم نے آپ کو شاہد (گواہ) خوش خبری دینے والا اورآگاہ کرنے والا (ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے اور اس کے حکم کے مطابق آپ ﷺ(لوگوں کو) اللہ کی طرف بلانے والے (دعوت دینے والے ) اور ایک روشن چراغ ہیں۔((سورۃ الاحزاب)

رسالت مآب ﷺکی حیات مبارکہ کا ہر پہلو درخشندہ و تاباں ہے اور اپنی نورانی کرنوں سے تاقیامت اہل ایمان کے دلوں کو منور کرتا رہے گا ، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی پاکیزہ سیرت کا روشن ورخشاں نیرتاباں سامان ہدایت موجود نہ ہو۔ آپ ﷺکی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو آج امت کی نگاہوں سے اوجھل ہو، کیونکہ ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺکے بارے میں قرآن مجید کی واضح آیت موجود ہے۔(ترجمہ)تمہارے لئے رسول اللہ ﷺکی زندگی بہترین نمونہ ہے ۔(سورۂ احزاب‘ آیت:۶۱)نمونہ اسی کو قرار دیا جا سکتاہے جوظاہر وباہر اور کامل و اکمل ہو۔

گویا رسالت مآب ﷺرشد و ہدایت کا مظہر اتم ہیں اور کائنات کا کوئی بھی انسان زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو، وہ محبو ب رب العالمین ﷺکی پاکیزہ سیرت کو مشعل راہ بناکر دنیاوی و اخروی فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ ابتدا میں جو قرآنی آیات پیش کی گئیں ،وہ بھی سیدالاولین والآخرین ﷺکی پاکیزہ سیرت کی ہمہ جہت صفات عالیہ کی بین دلیل ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میں واضح ارشاد فرمایا کہ اے محبوب ﷺہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا یعنی انسانیت پر حجت تمام ہو گئی کہ اللہ کی توحید کو اختیار کریں اور شرک کی نجاست سے اپنے دامن آلودہ نہ کریں ۔آگے فرمایا کہ ہم نے آپ ﷺکو بشیر یعنی خوش خبریاں دینے والا بنا کر بھیجا یعنی جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق عقیدہ و عمل اختیار کرے گا ‘ اسے تو جنت کی خوشخبری سنا دیجئے اور آگے فرمایا کہ ہم نے تمہیں ڈرانے والا بھی بنا کر بھیجا کہ جو شخص بھی آپ ﷺکی دعوت سے اعراض کرے گا اور توحید و رسالت کے دامن سے وابستگی اختیار کرنے سے انکار کر ے گا توپھر ایسے لوگوں کو جہنم کے درد ناک عذاب کی وعید بھی سنا دیجئے کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم کی ہولناکیاں ہیں ‘ جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ آگے فرمایا کہ اے محبوب ﷺہم نے آپ کو روشن چراغ بنا کر بھیجا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ ﷺکو جو روشن چراغ بنا کر بھیجا تو گویا وہ تمام امور آپ نے عملی مظاہرہ کے ذریعے انسانیت کے سامنے پیش فرما دیئے جو جنت کی بشارتوں کے حصول کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام امور بھی انسانیت کے سامنے پیش کر دیئے کہ جن کی وجہ سے انسان جہنم کا ایندھن بن سکتا ہے ۔

سیرت طیبہ کا یہ پہلو کس قدر تابناک ہے کہ رسول مکرم ﷺنے خالق اور مخلوق کے درمیان شرک و کفر کی ضلالتوں کے حائل کردہ دبیز پردے ہٹا دیئے اور بندے اور رب کا تعلق براہ راست استوار فرما دیا۔ سیرت مصطفی ﷺکے مثبت اثرات عرب معاشرے پر اس قدر گہرے اور پائیدار مرتب ہوئے کہ بیٹیاں جو اس معاشرے میں باعث عار سمجھی جاتی تھیں، اب باعث افتخار بن گئیں اور عورتیں اور غلام جن کی معاشرے میں کوئی وقعت نہیں تھی، وہ باوقار ہوگئے اوربلال حبشی ؓ کی جوتیوں کی آواز جنت میں معراج کے موقع پر آپ ﷺکو سنادی گئی۔ صہیب رومیؓ ‘سلمان فارسی ؓ ‘ خباب بن ارت ؓ آل یاسرؓ زید بن حارثہؓ اور ایسے ہی لاتعداد لوگ غلامئی رسول ﷺمیں آ کر بڑے سے بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں سے بھی عظیم المرتبت ہو گئے۔

سیرت طیبہ کا ہر پہلو کس قدر روشن و رخشندہ ہے کہ اگر آپ باپ ہیں تو فاطمہؓ ام کلثومؓ ‘ رقیہؓ اور زینبؓ کے بابا کو دیکھ لیں کہ اگر حسنینؓ دوران نماز کندھوں پر سوار ہو جاتے ہیں تو آپ ﷺسجدہ لمبا کر دیتے ہیں مگر شفقت و محبت کے لبریز جذبات سے انہیں اتارتے نہیں۔ سیرت طیبہ کا یہ پہلو کہ بحیثیت شوہر آپ ﷺسب سے عظیم نظر آتے ہیں ۔ امام کائنات ہونے کے باوجود آپ ﷺاپنی ٹوٹی ہوئی جوتیاں خود گانٹھ لیتے ہیں۔پرانے کپڑے خود سی لیتے اورازواج مطہراتؓ کے ہمراہ گھریلو کاموں میں بھی ہاتھ بٹادیتے اورکوئی عار محسوس نہیں کرتے حالانکہ عرب معاشرے میں یہ بڑی عجیب بات تصور کی جاتی تھی۔

فتح مکہ آپ ﷺ کی شانِ رحمت،رواداری،انسان دوستی اور عفوو درگزر کا تاریخ ساز واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی جنگی حکمت عملی کی بہترین مثال ہے ۔اس کے علاوہ غزوۂ خندق بدر و حنین اور اُحد کے معرکے اپنی مثال آپ ہیں۔فتح مکہ کے موقع پر ایک روح پرور منظر چشم فلک نے اس دم دیکھا کہ جب آپ ﷺصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی معیت میں شان سے اس بیت اللہ میں داخل ہوتے ہیں کہ جہاں کے دروازے آپ ﷺاور آپ کے جانثاروں پر بند کردیئے گئے تھے اور وہ کون سی تکالیف تھیں جو اہل مکہ نے آپ ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر روا نہیں رکھی تھیں۔

آج وہی ظالم لوگ ہیں کہ جو طاقت کے نشے میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکانام و نشان تک مٹا ڈالنا چاہتے تھے ‘ امام کائنات علیہ الصلوٰاۃ والتسلیم کے دربار میں شرمندگی سے سر جھکائے اپنی اپنی قسمتوں کے فیصلے سنائے جانے کے منتظر ہیں ۔ ہر آدمی عرب روایت کے مطابق سمجھتا تھاکہ آج فاتح اعظم ﷺشاید ہمارے جرائم کی کم از کم سزا موت تجویز فرمائیں گے ‘ لیکن تاریخ ایسے فاتح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جیسی ہمارے فاتح اعظم ﷺنے پیش فرمائی۔

آپ ﷺکا منشاء و مقصود شہروں کو مسخر کرنا نہیں، بلکہ دلوں کو مسخر کرنا تھا اور کائنات میں اللہ کے کلمے کو غالب کرنا مطلوب تھا۔ بڑے بڑے سرداران قریش احساس ندامت کے ساتھ مجرموں کی حیثیت سے دربار رسالت مآب ﷺمیں حاضر ہیں اور اپنے بارے میں فیصلے کے منتظر ہیں کہ رحمت کائنات ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ آج تم مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو؟تمام حاضرین آپ ﷺکی عظمت و شرافت کے گن گانے لگ جاتے ہیں۔ آپ ﷺارشاد فرماتے ہیں جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا ۔

آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ یہی نہیں بلکہ آپ ﷺنے ہر ایک کو امان عطا فرما دی اور آپ ﷺمکہ مکرمہ میں اس شان سے فاتحانہ داخل ہوئے کہ بغیر قتل و غارت کے اسلامی پرچم اپنے مرکز پر لہرا دیا گیا اور وہ بیت اللہ جو بتوں کی نجاست سے آلودہ کر دیاگیا تھا، آپ ﷺنے قیامت تک کے لئے خالصتاً اللہ رب العالمین کی توحید کے گن گانے والوں کے لئے پاک کر دیا۔ نیز آپ ﷺنے کلیدبردار کعبہ کو بلاکر بیت اللہ کی چابی عطا فرمادی کہ جس نے آپ ﷺپر بیت اللہ کے دروازے بند کردیئے تھے مگر رحمت و شفقت کے ماہِ تمام نے احسان کی وہ عظیم مثال قائم فرما دی کہ تاحشر اسی خانوادہ میں بیت اللہ کی چابی رہے گی۔

سیرت مبارکہ کا ہر پہلو روشن و تابناک اورضیاء بار ہے۔ ہادی عالم،نیر تاباں ﷺ کی سیرت طیبہ تو ہر متلاشی حق کے لیے مینارۂ نورہے۔ آپ ﷺکی سیرت پاک کے گن مسلم ہی نہیں، بلکہ غیر مسلم بھی گاتے ہیں اور کیوں نہ گائیں کہ آپ ﷺکی سیرت پاک سراسر ہدایت ہی ہدایت ہے۔