اُسوۂ رسولﷺ اور تعلیماتِ نبویﷺ

October 30, 2020

لیاقت بلوچ

(نائب امیر، جماعت اسلامی پاکستان)

چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں جب گھٹا ٹوپ اندھیری رات تھی ،گمراہیوں اور ظلم و ستم کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں، تب فخرِموجودات، سرورِ کائنات،محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کی ولادت و بعثت سے ایک عظیم انقلاب رونما ہوا۔ آپﷺ کی بعثت ایسے معاشرے میں ہوئی کہ دولت پر غرور، جاگیرو جائیداد اور پُرگھمنڈ نسلی اور خاندانی اونچ نیچ،اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا جاننا، غریب پسے ہوئے لوگوں سے چھوت چھات کا معاملہ کرنا،غریب، مسکین کو دبانا،کمزوروں کی کمزوریوں کی بنیاد پر استحصال کرنا، عورتوں کو محض خدمت گزار جاننا، شوہروں کی موت کے بعد ان کی زندگی کو اکارت ماننا ،یہاں تک کہ ان کی خود کشی کو ان کے لئے ذریعہ نجات سمجھنا ،ایک خدا سے انکار اور سیکڑوں ہزاروں دیوی دیوتاؤں کے سامنے ماتھا رگڑنا ، من مانی باتوں کو مذہب سمجھ لینا خود غرضی،بے رحمی ،سود ،زنا ،شراب اورجوا وغیرہ ایسی بیماریاں تھیں جن کی وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی ۔عرب کی معاشرت ان عام بیماریوں کے ساتھ بیمار معاشرت تھی ۔

پھر یہ بھی خطرناک بیماری لاحق تھی کہ یہاں باقاعدہ کوئی حکومت نہیں تھی ،ہر قبیلہ اپنی جگہ آزادتھا ، دوسرے قبیلے کو ناپاک ،غیر اور مقابل جاننا ،انسانی خون سستا اورہلکا سمجھنا ان کا قومی مزاج بن گیا تھا ۔اس دور کے علاج کے لئے ایک بہت بڑے سماجی انقلاب کی ضرورت تھی ۔حضرت محمدﷺ نے جیسے ہی بیدار مغز صالح جوان کی حیثیت سے انسانی معاشرے میں قدم جمایا، ہر مرحلے پر آپﷺ میں خالق حقیقی پروردگار کی عبادت و پرستش کا شوق بڑھا ،قوم کی ابتر حالت بھی آپﷺ کے دل کا درد اور جگر کا سوز بن گئی ،یہ دردوسوز آپﷺ کو ہر وقت بے چین اور مضطرب رکھتا، کوئی معمولی نسخۂ شفاء اس درد کے لئے کارگر نہیں تھا ۔

اسی لیے آپﷺ کی حیاتِ طیبہ مسلسل جدوجہد ،اللہ کے بندوں کی زندگیوں کو بدل دینے کی سعی کا عنوان ہے ۔آپﷺ نے اپنے اخلاق،کردار اوراعمال کے ساتھ انسانوں کے دلوں کی سطح ہموار کی، آپﷺ نے عامۃ الناس کی تربیت و اصلاح کے لئے ایک تنظیم (انجمن) بنائی جس کے ارکان کا یہ عہد ہوتا تھا ۔

۱۔ہم اپنے وطن سے بے امنی دور کریں گے ۔۲۔غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے ۔۳۔مسافروں کی حفاظت کریں گے ۔۴۔طاقت ورکو کمزور پر، بڑوں کو چھوٹوں پر ظلم کرنے اور ناانصافی سے روکیں گے ۔

اصلاح کا یہ اتنا بڑا چارٹر(عہد) تھا کہ جس پر عمل کے لئے دلوں کی دنیا بدلنے، دلوں کی سطح کی ناہمواری کے خاتمے کی ضرورت تھی، اسی لئے ظلم کے معاشرے میں انسانیت کو محسن ، صادق وامین اور رحمۃ للعالمین ﷺکی ضرورت تھی ۔آپﷺ کی بعثت سے اصلاح اور انقلاب کا راستہ کھل گیا۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ کریم نے اعلان کر دیا:’’ترجمہ:اے نبیﷺ بے شک ہم نے آپ کو اس شان کا رسول بناکر بھیجا کہ آپ گواہ رہیں اور آپ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ ہیں ۔

نبی مہربانﷺ نے انسانی زندگی ، انسانی فطرت کی ضروریات کے پیش نظر انسانوں کی رہنمائی کی اور جو لوگ دائرۂ اسلام میں آگئے ،ان کی فکر ، کردار سازی اور اندر کے انسان کو بدل دینے کی مسلسل سعی کی،اور اس میں آپﷺ کا میاب رہے ۔آپﷺ انسانِ کامل ہیں اور اپنی امت کے لئے یہی معیار دیا اور اصولی بنیادیں فراہم کر دیں ۔

سیرت خاتم الانبیاءﷺ کے مطالعے سے بنیادی رہنمائی کے وہ چندپہلو جو بندہ مومن کی زندگی کو کامیاب ،اللہ کے ہاں قبولیت سے آخرت کی نجات اوررسول اللہﷺ کی شفاعت کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔مومن کی صفات کیا ہیں اور کیا ہونی چاہئیں؟بندۂ مومن کے لئے اخلاق حسنہ کیا ہیں ؟اہل ایمان کو باہمی تعلقات کی کشیدگی سے بچاؤ اور مثالی تعلقات کی کیا رہنمائی دی ہے ۔احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ رہنمائی ،آگہی اور ذہن نشین کرنے اور عمل میں ڈھالنے اور پلے باندھنے والی چند تاکید و تذکیر کی تصویریں اسوۂ رسولﷺ اور تعلیمات ِ نبویؐ کی روشنی میں پیشِ خدمت ہیں ۔جو ہر عہد کے مسائل اور چیلنجز میں انسانیت کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔

رسول اللہﷺ کی تعلیمات اوراحادیث مبارکہ سے روشنی ملتی ہے کہ مومن کی صفات کچھ یوں ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا کہ مومن کی عادت نہیں کہ لعن طعن کرے ،فحش گوئی یا بیہودگی اختیار کرے۔ آپﷺ کافرمان ہے کہ جو کوئی کسی شخص کو کسی ایسے گناہ پر طعنے دے جس سے اس نے توبہ کر لی ہو ،ایسا شخص مرنے سے پہلے وہ کام ضرور کرے گا،یعنی اس گناہ میں آلودہ ہو گا۔آپﷺ سے سوال کیا گیا کیا مومن بزدل ہوتا ہے؟فرمایا، ہاں !پھر سوال ہوا کیا مومن بخیل ہوتا ہے ؟فرمایاہاں!سوال ہواکیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ نبی مہربانﷺ نے فرمایامومن جھوٹانہیں ہوسکتا ۔خاتم النبیین ﷺنے فرمایا کہ مجھے اس طرح نہ بڑھانا جس طرح نصاریٰ نے حضرت مسیح ؑکو بڑھایا ۔

میں اللہ کابندہ ہوں بس میرے حق میں تم یہی کہا کرو کہ آپﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا،ماں باپ کو گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے ،صحابہ ؓ نے سوال کیا ،حضور ﷺ کوئی اپنے ماں باپ کو کوئی گالی دیتا ہے ؟فرمایا ہاں جو شخص دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے گا، وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دے گا تو یہ گالی اس نے اپنے ماں باپ کو دی ۔مومن کی تربیت کے لئے نبی آخر الزماںﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے ماؤں کی نافرمانی کرنا،لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینا ، اپنا مال روکنا اورلوگوں سے مانگنا ، ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہنا اور کثرت سے سوال کرنا اور مال ضائع کرنا بھی خدا کوناپسند ہے ۔( مسلم، ترمذی)

خاتم المرسلینﷺ کی تعلیم وتربیت نے صحابہ کرامؓ کو جس مسلسل اور کٹھن نظام تربیت سے گزارا ،انہیں دیکھیں اخلاق حسنہ کے نقش تلاش کریں تو رہنمائی ملتی ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ طعن کریں ، غیبت کریں ،تجسّس اور حسد میں پڑے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ فحش کام کرنے والے اور فحش گو سے محبت نہیں رکھتا جو بازاروں میں چلّاتا پھرتا ہے ،مؤمن کی یہ شان نہیں کہ وہ لعن طعن کرے ، تم ایک دوسرے سے یہ نہ کہو کہ تجھ پر خدا کی لعنت ہو یا اللہ کا غضب ہو یا دوزخ میں جائے ،آپﷺ نے فرمایا کہ میں لوگوں کو دھتکارنے ،لعن طعن کرنے نہیں، بلکہ رحم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔قرآن اعلان کرر ہا ہے کہ آپﷺ رحمۃ للعالمین ہیں ۔مسلمان کو گالی دینا فسق اور بلا جواز جنگ کرنا کفر ہے ۔سرور دو عالمﷺ کے یہ ارشادات ہر جگہ عامۃ الناس تک پہنچا دینا ہر عالم ،ہر صاحب ایمان کاکام ہے ۔

آپ ﷺ نے فرمایا، مومن میں تمام خصائل پیدا ہو سکتے ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے ،فرمایا کہ چھ چیزوں کی تم ضمانت دو میں تمہارے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔۱۔ جب کوئی بات کروسچ بولو۔۲۔جب کوئی وعدہ کروپورا کرو۔۳۔اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کرو۔۴۔امانتوں کی حفاظت کرو۔۵۔اوراپنی آنکھیں نیچی رکھو۔۶۔ہاتھوں کو (ظلم و ناانصافی سے)روکو۔(مشکوٰۃ )

آپﷺ نے بندہ ٔ مومن کی تعلیم و عمل کے لئے رہنمائی فرمائی کہ جس میں امانت نہیں ،اس کا ایمان نہیں اور جس کا عہدمضبوط نہیں اس کا دین نہیں ،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدﷺ کی جان ہے ،کسی شخص کا دین ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان ٹھیک نہ ہو او رزبان ٹھیک نہیں ہوتی جب تک اس کا دل ٹھیک نہیں ہوتا۔وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا ہمسایہ اس کے شر (بوائق )سے محفوظ نہ ہو، لوگوں نے پوچھا یارسول اللہﷺ بوائق کیا ہے؟ فرمایا اسے دھوکہ دینا اور اس پر ظلم کرنا ۔

رسول اللہ ﷺ نے انسانی معاشرے خصوصاً اہل ایمان، اپنے امتیوں کی تعلیم وتربیت میں رہنمائی فرما دی، ایک شخص نے عرض کیا حضورﷺ، میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا تمہاری ماں ، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیاپھر کون ؟فرمایا تمہارے والد۔(متفق علیہ )خاتم النبیینﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بڑے بڑے تین گناہ نہ بتاؤ ں،صحابہ ؓ نے عرض کیا، ہاں رسول اللہﷺ بتایئے، فرمایا اللہ کا شریک بنانا ،ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور مکروفریب کی بات کہنا۔(الحدیث، ادب مفرد)

حضورﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ کس کے لئے ،فرمایا اس شخص کے لیے جو اپنے ماں باپ میں سے دونوں کو یا ایک کو بڑھا پے میں پائے اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو ۔ (صحیح مسلم )

رسول اللہﷺ کے اُسوۂ حسنہ اور تعلیماتِ نبویؐ پر مبنی یہ ارشادات و فرمودات بلاشبہ معاشرتی ،تہذیبی ،عائلی ،دینی ،اخلاقی غرض ہر شعبہ ٔ زندگی میں انسانیت کو درپیش مسائل و چیلنجز کا بے مثال حل پیش کرتے اور ایک ایسے اسلامی فلاحی معاشرے کی اساس و بنیاد ہیں،جو انسانیت کےلیے فلاح وکامیابی کا سرچشمہ اور آخرت میں نجات کا ضامن ہیں۔