جمہور کا گوجرانوالہ

October 30, 2020

16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ہونےوالا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا عظیم الشان جلسہ تاریخ کا روشن باب بن چکا ہے۔

اِس کامیابی تک پہنچنے کیلئے جمہور پسندوں کو ایک کانٹوں بھری کھائی عبور کرنا پڑی۔ جیسے ہی یہ اعلان ہوا کہ گیارہ جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کا پہلا عوامی امتحان میرے شہر میں ہوگا،حکومت پنجاب نے فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کردیے۔

مسلم لیگ ن کی شہری تنظیم کی طرف سے3اکتوبر کو جناح اسٹیڈیم میں جلسے کی اجازت کی درخواست جمع کروا دی گئی لیکن ضلعی انتظامیہ تاخیری حربے اور ریاستی جبر استعمال کرنے لگی۔

پولیس اور دوسرے سرکاری اہلکاروں نے روزانہ مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے بینر وغیرہ پھاڑنا شروع کردیے۔سرکاری گماشتوں نے ہماری ہورڈنگز اتاریں جو قانونی طور پر کرایہ ادا کرکے حاصل کی گئی تھیں۔

پولیس نے گوجرانوالہ ڈویژن کے چھ اضلاع اور خاص طور پر گوجرانوالہ شہر میں نصف شب کارکنوںکے گھروں پر چھاپے مارے اور انکے خاندانوں کو دھمکیاں دیں۔ پولیس نے مسلم لیگ ن اور دوسری پارٹیوں کی کارنر میٹنگز کو الٹانا شروع کردیا۔ساؤنڈ سسٹم اٹھاکر لے گئے۔

کئی جگہوں سے کرسیاں تک اٹھاکر لےگئے۔ راقم الحروف کو متعدد بار زمین پر بیٹھ کر اپنے ووٹروں سے بات کرنا پڑی۔ انتہا یہ تھی کہ پورے شہر میں ٹینٹ سروس اور اسپیکر فراہم کرنیوالے دکانداروں کو بھی دھمکیاں دی گئیں کہ وہ مسلم لیگ ن کو سامان فراہم نہ کریں۔

کوئی ایسی کارنر میٹنگ نہ تھی جس پر پولیس نے دھاوا نہ بولا ہو۔ متعدد جگہوں پر پولیس نے اجتماع کی جگہوں پر تالہ لگادیا اور ہمیں پوشیدہ عمارتوں میں اپنے کارکنوں کو جمع کرکے جلسے میں شمولیت کی دعوت دینا پڑی۔ اگلا مرحلہ گرفتاریوں کا تھا جس میں پورے شہر سے ہمارے کارکنوں کو حراست میں لیا گیا اور کچھ کو باقاعدہ ایف آئی آر درج کرکے حوالات بھیج دیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے وکلاء کا کردار قابلِ تحسین تھا۔ وہ متحرک رہے اور ہمارے گرفتار کارکنوں کی ضمانتیں کروائیں۔ 14اکتوبر کی رات جب راقم الحروف ایک بار پھر زمین پر بیٹھ کر کارنر میٹنگ کررہا تھا کہ ڈپٹی کمشنر دفتر سے جلسے کے بارے میں گفتگو کرنے کی دعوت موصول ہوئی۔

نصف شب تک ہم نے مذاکرات مکمل کئے کہ ایک اقرار نامے پر دستخط کرنیکی صورت میں جناح اسٹیڈیم میں جلسے کی اجازت دے دی جائے گی۔ 15اکتوبر کا دن شروع ہوچکا تھا پانچ گھنٹے کی بدنیتی پر مبنی تاخیر کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اذان فجرکے وقت ہمیں این او سی جاری کردیاجبکہ جلسے میں صرف 30گھنٹے رہ گئے تھے۔

ہم نے جلسہ گاہ میں تیاری شروع کی اور 15اکتوبر کی شب گوجرانوالہ کے ہزاروںشہری جناح اسٹیڈیم میں جلسے کی تیاری دیکھنے کیلئے اپنے خاندانوں کے ہمراہ پہنچ گئے۔

وہ حکمران جو پی ڈی ایم کو 5ہزار افراد اکٹھا کرنے کا چیلنج دے رہے تھے، وہ جلسے کی رات دس ہزار سے زائد شہریوں کو نوازشریف کے نعرے لگاتے دیکھ کر سراسیمگی کا شکار ہوگئے، 16اکتوبر کا دن چڑھتے ہی ڈویژن کے تمام اضلاع سے خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ پولیس پی ڈی ایم جماعتوں کے کارکنوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے ماررہی ہے۔

15اور 16اکتوبر کی درمیانی شب جلسہ گاہ کےاطراف میں کنٹینر لگاکر عوامی رسائی کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔راقم الحروف کی رہائشگاہ کے تین اطراف کنٹینر لگادیئے گئے تاکہ وہاں کارکن جمع نہ ہوسکیں۔16اکتوبر کی صبح جب گوجرانوالہ جاگا تو ہر طرف کنٹینر تھے۔

جلسہ گاہ میں تیاری کیلئے سامان کو روک لیا گیا تھا اور جو کارکن وہاں کام کررہے تھے، وہ کنٹینروں کے نیچے سے گزرکر اسٹیڈیم تک پہنچے۔وکلاء سے مشورے کے بعد راقم الحروف نے حکومتِ پنجاب کے اس غیر جمہوری اقدام کیخلاف عدلیہ سے رجوع کیا۔

رسائی نہ ہونے کے باعث موٹر سائیکل پر بیٹھ کر سیشن کورٹ پہنچا اور درخواست دائر کی کہ یہ کنٹینر عوام کے آئینی حقوق کو کچلنے کے مترادف ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اورعدلیہ نے بنیادی حقوق کی حفاظت کی۔ سہ پہر 4بجے عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ کنٹینر ہٹادیئے جائیں۔

اُس وقت تک کنٹینروں کے گرد عوام کا جمع غفیر اکٹھا ہوچکا تھا۔عدالتی حکم اور اس جم غفیر نے انتظامیہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور جزوی طور پر عوام کو راستہ ملا کہ وہ جلسہ گاہ تک پہنچ سکیں۔اور ربِ تعالیٰ کے کرم سے گوجرانوالہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ 16اکتوبر کو جناح اسٹیڈیم میں پورے ملک نے دیکھا۔

گوجرانوالہ کے جلسے کے چند اہم پہلو غور طلب ہیں۔یہ پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد جموں کشمیراور گلگت بلتستان کے اتحاد و اتفاق کا مظہر تھا۔پاکستان کے وفاق کی مضبوطی کیلئے یہ خوش آئند امر ہے کہ بلوچستان کی تین سیاسی جماعتوں کی آواز پنجاب کے دل میں سنی گئی۔

خیبر پختونخوا کی آواز پنجاب کے دل میں سنی گئی۔سندھ کی آواز پنجاب کے دل میں سنی گئی۔ اقلیتوں اور خواتین کی آواز پنجاب کے دل میں سنی گئی۔اور محمد نوازشریف نے عوام کے حقِ حاکمیت کا نعرہء مستانہ بھی گوجرانوالہ میں بلند کیا۔

پی ڈی ایم کی بنیادی دستاویز جس کے 27نکات پر 20ستمبر کو اسلام آباد میں دستخط ہوئے تھے، گوجرانوالہ میں وہ دستاویز عوام کی آواز بن کر زندہ ہوگئی۔ جسے بعد میں کراچی اور کوئٹہ کے عوام کے عظیم الشان اجتماعات نے جلا بخشی۔ حکومت کا یہ بیانیہ کہ تمام اپوزیشن چور اور غدار ہے گوجرانوالہ کے عوام نے زمین بوس کردیا۔

میرے شہر کے باسیوں نے جرأت اور اتحاد سے فسطائیت کی فصیل منہدم کی اور پی ڈی ایم کا فقید المثال افتتاحی جلسہ منعقد کرکے پاکستان کی جمہوریت کی تاریخ میں گوجرانوالہ کا نام سنہرے حروف میں لکھ دیا۔