جیب کتروں کے بازار

October 30, 2020

عمران خان نے کہا ’’ تمام جیب کترے ایک اسٹیج پر کھڑے ہو کر شور مچا رہے ہیں‘ تمام چوروں کا احتساب ہو گا، اب ان سے کسی صورت بلیک میل نہیں ہونگے‘ 30 سال سے باریاں لینے والے ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اب جیلوں میں جانا ہے‘‘۔ جواباً احسن اقبال نے سب سے بڑا جیب کترا عمران خان کو قرار دیا۔ احسن اقبال کی جیب تو ابھی تک خاصی بھاری ہے۔ کہتے ہیں، اس کی وکلا فرم کو جو کچھ ملا، ابھی اُس کا حساب کتاب ہونا ہے۔ بہر حال دونوں طرف سے ’’جیب تراشی ‘‘ کے الزامات لگائے جارہےہیں اور پاکستان میں جتنے جیب کترے ہیں، وہ یہ خبریں سن کر مونچھوں کو تائو دیتے پھرتےہیں کہ ہمارا ’’ذکرِ خیر ‘‘ ہورہا ہے۔ ان کے نزدیک تو یہ ایک فن ہے، ہاتھ کی صفائی کا فن مگر انہیں یہ قلق بھی ہے کہ اس فن کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جگہ جگہ بورڈ لگائے جاتے ہیں کہ ’’ جیب کتروں سے ہوشیار رہئے‘‘۔ اکثرصاحبِ فن حضرات کو جیل یاترا کرائی جاتی ہے۔ حالانکہ یہاں بجز فقیر کے کون جیب کترا نہیں۔

عباس تابش نے کہا ہے:

اس عہدِ جیب تراشاں کو اب ہوا معلوم

یہاں کے لوگ گرہ میں سوال باندھتے ہیں

بے شک یہ ’’ عہدِ جیب تراشاں ‘‘ہے، اِس میں کسی کی جیب بھی سلامت نہیں۔ ’’عہدِ جیب تراشاں‘‘ سے مولانا عبدالستارخان نیازی یاد آگئے۔ یہ واقعہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ جن دنوں انہیں جنرل ضیاء نے چھ ماہ کیلئے میانوالی میں نظر بندکردیا تھا تو مولانا نے اتحادِ بین المسلمین کے موضوع پرایک کتاب لکھنی شروع کی تھی۔ اُس وقت مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ بولتے تھے اور میں لکھا کرتا تھا، اِنہی دنوں اُنہوں نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ’’ مجھے معمول کے مطابق جلسے میں تقریر کے بعد تھانے کی حوالات میں بند کردیا گیا۔ وہاں ایک شخص مجھ سے پہلے قید تھا۔ اُس کابڑا نورانی چہرہ تھا۔ سفید ریشمی داڑھی تھی۔ مجھ سے ملا بھی بڑے احترام سے۔ میں نے ملتے ہوئے کہا، لگتا ہے آپ بھی میری طرح حکومت کو للکارنے والوں میں سے ہیں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ اُس نے کہا، مولانا !مجھے بابا جیب تراش کہتے ہیں۔ میں جیب تراشوں کا پیر ہوں۔ میں نے حیرت اور پریشانی سے کہا، نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا۔ آپ جیب تراش نہیں ہوسکتے تو کہنے لگا مولانا میں نے صرف آپ سے ہاتھ ملایا ہے نا۔ اس کے باوجود آپ کو بتا سکتا ہوں کہ’’ آپ کی جیب میں ساٹھ روپے اور پچاس پیسے ہیں ‘‘۔مولانا کہنے لگے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری جیب میں کتنے پیسے ہیں، میں نے اپنی جیب سے رقم نکال کر گنی تو حیران رہ گیا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ اتنا درست اندازہ کیسے ممکن ہے۔ تو کہنے لگا آپ چاہیں تو آپ کو بھی خبر ہوسکتی ہے۔ مولانا کہتے ہیں ’’ میں ہنس دیا اور کہا نہیں بابا، اِس عمر میں میں جیب تراش نہیں بن سکتا۔ تو اس نے حکیمانہ تبسم بکھیرتے ہوئے کہا’’مولانا یہ عہد،عہدِ جیب تراشاں ہے۔ ساری دنیا جیب تراش ہے۔ بڑی بڑی طاقتور قومیں چھوٹی چھوٹی اور پسماندہ قوموں کی جیبیں تراشتی ہیں۔ حکومتیں کرنے والے اپنےعوام کی جیب تراشتے ہیں۔ سرمایہ دار مزدور کی جیب تراشتا ہے اور جاگیر دار اپنے مزارعے کی جیب کاٹتا ہے۔ پیر اپنے مریدوں کی جیب کترتے ہیں۔ مولوی اپنے نمازیوں کی جیبوں سے مال نکالتا ہے۔ دکاندار گاہک کی جیب تراشتا ہے۔ ہر ہاتھ کی دو انگلیوں میں ایک بلیڈ ہے جسے جہاں موقع ملتا ہے وہیں چلا دیتا ہے۔ جو ہنر مند ہوتے ہیں وہ صاحبِ عزت بنے رہتے ہیں، جو بے ہنر ہوتے ہیں پکڑے جاتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ یہ زمانہ جیب تراشوں کا زمانہ ہے۔ میں ابھی اُس سے گفتگو کرنا چاہتا تھا مگر اس نے کہا کہ میرا جانے کا وقت ہو گیا ہےاور حوالات کا دروازہ کھلا اور ایک سپاہی نے اسے باہر آنے کو کہا اور وہ میرے ہاتھ پر بوسہ دے کرباہر نکل گیا۔ شاید اسے تھانے سے جیل منتقل کیا جارہا تھا ‘‘۔مجھے مشہور جیب تراش ’’جیرا بلیڈ‘‘ یاد آرہا ہے۔ جیرے نے ایک دن تین لوگوں کی جیبیں کاٹیں۔ پہلی جیب سے ایک بجلی کا بل، ایک گیس کا بل، ایک پانی کا بل اور اس کے ساتھ چیزوں کی لمبی فہرست بر آمد ہوئی مگر رقم ندارد۔ دوسرے شخص کی جیب سے بیس روپے اور تین غزلیں برآمد ہوئیں۔ یہ شخص یقیناً شاعرتھا اور تیسرے شخص کی جیب سے صرف ایک خط بر آمد ہوا جوگائوں سے اس کی ماں نے اسے بھیجا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ’’ میری طبیعت بہت خراب ہے اوردوائی خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ تین دن پہلے ہمسائے نے خیرات کی تھی وہاں سے کھانا لائی تھی وہ بھی آج ختم ہوگیا ہے۔ فوری طور پرکچھ کرو‘‘۔جیرے بلیڈ نے اس دردناک خط کو کئی بار پڑھا اور پھر جو شاعر کی جیب سے 20روپے برآمد ہوئے تھے، وہ اس کی ماں کے پتے پر بھیج دئیے۔

بہر حال یہ طے ہے کہ کسی اور کی جیب کٹے نہ کٹے، عوام کی جیب ضرور کٹ جاتی ہے۔ کوئی مسئلہ ہو، جنگ کا خطرہ ہو یا کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار تباہ ہوں۔ کچھ بھی ہوا ہو، جیب غریب کی کاٹی جاتی ہے، امیر کی نہیں۔ اب تو عوام کی حالت اُس دیہاتی جیسی ہے جس کی میلے میں جیب کٹ گئی تھی اور اس نے واپس گائوں آکر لوگوں سے کہا’’بھئی میلہ کیا تھا، لوگوں نے بس میری جیب کاٹنے کیلئے ایک ڈھونگ رچا رکھا تھا‘‘۔لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک میں آٹا، چینی، دالیں، گھی، دودھ، ادویات، بجلی وغیرہ ہی کیوں مہنگی ہوتی ہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ انہیں غریب استعمال کرتے ہیں، ایئر کنڈیشنرز، کوٹھیاں، کاریں، سامان ِ آرائش وغیرہ یعنی امیروں کے استعمال والی چیزوں پر 260فیصد ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا؟ بے شک اس وقت حکومت مہنگائی کو روکنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے مگرپنجاب کے سہولت بازاروں کے سوا کہیں کوئی چیز نارمل ریٹ پرنہیں مل رہی۔ جیسے ہی غریب جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی بڑا جیرا بلیڈ جیب کاٹ چکا ہے۔