اپنے ہی لشکر کا عَلم

October 30, 2020

تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور پی ڈی ایم کی مقبولیت سے پاکستانی سیاست کے پٹڑی پر واپس آنے کی امید جاگ اٹھی ہے۔ پی ڈی ایم کی طرف سے چلائی جانے والی احتجاجی مہم میں لاکھوں لوگوں کی پرجوش شرکت اور آئینی جمہوریت کی بقا کے لیے جارحانہ پیش قدمی نے حکمرانوں کے گویااوسان خطا کر دیے ہیں۔کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ وہ پارٹی، جو حکمرانوں کی مدد سے ملک میں احتساب کو انقلاب میں بدلنا چاہتی تھی، دو سال کے اندر ہی عوام میں اپنی مقبولیت اِس قدر کھو بیٹھی ہے کہ ہر طرف سے اُس کے استعفےکے نعرے بلندہورہے ہیں۔پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران انتخابات کے مسئلے پر شروع ہوا اور یہ اس کا فطری ردعمل ہے کہ اس کا حل حقیقی، منصفانہ اور فوری انتخابات ہی ہیں۔

نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک پاک و ہندمیں بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلیں لیکن یہ تبدیلیاں ایک سطح سے نیچے نہیں گئیں ، دیہی علاقوں میں سردار،وڈیرے ،چوہدری ،خان اور سجادہ نشینوں کی حاکمیت ہنوز ختم نہیں ہوئی۔اس عمل میں فکری تبدیلیاں اس وقت ہوئیںجب ایوب خان کی آمریت کے خلاف تنگ آکر عوام نے اس کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیا اوریوں ایوب خان جیسے طاقتور حاکم کوبھی اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔پی ڈی ایم کی تحریک اسی نظام کی تبدیلی کے نعرے کو ارتقا پذیر کرتے ہوئے ریاست اور عوام میں ایک مضبوط رشتہ پیدا کرے تاکہ اس سماج کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی جانب گامزن کیا جا سکے۔آج اکیسویں صدی میں ہمارے احتساب کے عمل نے پاکستانی معاشرے کو انحطاط کی طرف گامزن کررکھا ہے۔معاشی حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں ۔کاروبار غیر یقینی حالات کی وجہ سے ماند پڑ گیا ہے ۔سماجی اور انتظامی ادارے مفلوج ہوتے جا رہے ہیں اور خارجہ امور میں غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ کیا جار ہاہے۔کسی بھی سماج میں سیاسی بحران اس وقت جنم لیتا ہے جب ملک کو درپیش مسائل شدید ہو جاتے ہیں اور ان مسائل سے حل کے متعلق مجموعی اتفاق رائے ختم ہو جاتا ہے، ہر مشکل دور میں کچھ عناصر اپنے مشوروں اور تعاون کا تحفہ لے کر حکمرانوں کی طرف بڑھتے ہیں جیسا کہ آج کل عمران خان کو بھی ایسے مشوروں سے نوازا جا رہاہے۔یحییٰ خان کو بھی ایسے دوستوں نے افہام و تفہیم کی راہ چھوڑ کر،بزورِشمشیر ایک انا پرست حل کی تلقین کی تھی اور یوں انہوں نے عوام کے جمہوری فیصلے کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو دو لخت کر دیاتھا۔پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ تباہی اور بربادی کے بعد ہر شخص اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ملک کی تباہی کی اہم وجہ’’ جمہوری عمل‘‘ سے انحراف تھا۔لیکن جب اس تباہی سے بچنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں تو سیاسی فضا اتنی خراب کردی جاتی ہے کہ مصنوعی خود اعتمادی میں مبتلا حکمران طبقہ، ان تاریخی اسباق سے روگردانی کرتا ہے۔اس ملک کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے لیکن اکیسویں صدی میں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ اور عمرانیات سے روگردانی کرنا جہالت اور تنگ نظری کو دعوت دیتا ہے۔ایک غیر جمہوری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مفلوج ذہن،ریاستی دانشوراور قانون دان اس اجتماعی فکر اور حکمت کے نعم البدل نہیں ہو سکتے جس کی پاکستان کو اس نازک موڑ پر اشد ضرورت ہے۔

پی ڈی ایم کا اتحاد آج عوام کو اپنی ایجی ٹیشن کا حصہ صرف اس وجہ سے بنا رہا ہے کیونکہ حکمران اپنی غیرجمہوری روش اور اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف حربوں کے استعمال سے تنگ آچکے ہیں۔کچھ ریاستی مبصرین اور عمران خان کے حواری اِس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ بڑی پارٹیاں اِس ایجی ٹیشن کے نتیجے میں کوئی این آر او حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اس کے ثبوت کے طور پر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو پیش کرتی ہیں لیکن وہ یہ بات بھول جاتی ہیں کہ سویلین سپرمیسی کا یہ بیانیہ اب عوامی شعور کا حصہ بن چکا ہے اور جو بھی پارٹی اِس سے انحراف کرے گی وہ نہ صرف عوام کی نظروں میں گر جائے گی بلکہ اُس کو ناقابلِ تلافی سیاسی بیگانگی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ آج پاکستانی سیاست میں تمام تر تنزلیوں کے باوجود ایک کیفیتی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور معروضی حالات نے ایک حدِ فاصل کھینچ لی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات نے سب سے پہلے حکمرانوں کے تقدس کا نقاب اتار دیا ہے اور وہ نعرے جو بلوچستان،خیبر پختون خوا اور سندھ میں گونجا کرتے تھے، اس کا علم آج پنجاب کے گلی کوچوں میں پورے سیاسی شعور کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے اور عوام اسے اپنے ہی لشکر کا علم سمجھتے ہیں۔