تلخیاں، غلط فہمیاں، غصہ، جھنجھلاہٹ

November 02, 2020

محمد فاروق دانش

دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام اپنے معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کی خاطر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خاص اقدامات کرتی ہیں، کیوں کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کسی بھی جب بھی معاشرے میں انقلاب کی نوید سنائی دیتی ہےتواس ملک کے نوجوانوں کا تذکرہِ بھی کیا جاتا ہے جو اس انقلاب کے روح روا ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کسی ملک کی 20 سے 25 فیصد آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہو تو کوئی شک نہیں کہ نوجوان خون کی طاقت وطن کی ترقی کے لیےاپنا کردار ادا نہ کرے۔

وہی قومیں عروج پاتی ہیں جو جدید تعلیم سے آراستہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ٹیکنالوجی کو فروغ دیتی ہیں اور ترقی پذیر ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم کرتی ہیں ۔پاکستان دنیا کا وہ واحد خوش نصیب ملک ہے کہ جس کی کل آبادی کا 68فیصد نوجوان نسل پر مشتمل ہے، لیکناس نسل کی قوت سے فائدہ اٹھانے کے لیے حکومتی سطح پرکوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اگر نوجوان راہ راست سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور ترقی کی رفتار رک جاتی ہے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے کئی دیگر حساس معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل اور ان کےلیے واضح منصوبہ بندی کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہ کر سکے بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلے جو اِن کے اور ملک کی بہتری کےلیے کسی طور مناسب نہ تھی۔

اگر آبادی اور ترقی کے تناظر میں دیکھا جائے تو دونوںمحاذوں پر پاکستانی نوجوان نے ایک عزم اور جہدِمسلسل کا عملی تصور پیش کیا ہے۔ کی تحریک پاکستان میں بھی نوجوان نسل نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ۔اس بات سے انکار نہیں کہ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں ،قوم کے حقیقی معمار اور قیمتی سرمایہ تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کے لیے اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔

ہر معاشرے میں ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جوانتہائی خاموشی سے انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کا مقصدرضا ئے الہی کا حصول ہوتا ہے نا ذاتی نمودنمائش۔ ایسےنوجوانوں کو شہرت کی خواہش نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ ہوتا ہے۔

ایسے درد دل رکھنے والے نوجوان معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو مسائل میں گھرے افراد کی مدد کرتے ہیں۔ان کی بہ نسبت ہمارے ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اپنا فارغ وقت موبائل پر گیم کھیلنے ، فیس بک یا انسٹاگرام پر اسٹیٹس لگانے میں ضائع کرتی ہے۔ نوجوان لڑکے کیا لڑکیاں ، سب ہی ٹک ٹاک تیار کرنے اور اس کی ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ آج کے اس پرفتن دور میں ہمیں بے شمار مسائل درپیش ہیں ۔ملکی آبادی کی اکثریت خط غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں، تعلیم، صحت، لباس، کھانا پینا اور گھر ہے، مگر زیادہ تر لوگ اس سے بھی محروم ہیں۔

معاشرہ کی بہترین تربیت کے ذریعے ہی معاشرتی نظم و نسق، امن، برداشت اور بھائی چارہ کی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اسلام ہمیں روحانی بالیدگی کے ذریعے اچھےکردار کا درس دیتا ہے۔ شخصی تکبر ہماری معاشرتی اقدار کے زوال کا سبب ہے۔ انسان عقل اور نفس کا مجموعہ ہے۔ انسانی سیرت کی تکمیل کے لیے پاکیزگیء فکر اور کردار کی پختگی اہم حیثیت رکھتی ہے۔ ایمان کا مغز خلق خدا کی بھلائی اور مخلوق کی عزت و توقیر ہے۔ احترام انسانیت ہی اصلاً معاشرتی وسماجی خدمت ہے۔

ماں کی گود انسانی طبع و کردار کی تربیت کا سب سے بڑا گہوارہ ہے۔ گھر کے اند اور گھر کے باہر بھی اخلاق ایسا ہو کہ لوگ آپ سے خوش ہوں اور آپ کی صحبت میں رہنا پسند کریں، قوم کی تعمیر اورآپ کے اخلاق، خاص طور پہ گھر کے اندر آپ کے اخلاق، میں کیا نسبت ہے اس کو اس طرح سمجھئے کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد ہی سے تو معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کرہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں، آج گھروں کے اندر رشتوں میں چپقلش اور نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے، جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد باہر کے افراد سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی برہمی ان معاملات پہ بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔جب بیزار اور الجھی کیفیت میں ذاتی اور ملکی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔

ایک بیٹا، بیٹی یا بہن، بھائی کی حیثیت سے اپنے گھر میں، طالب علم اور دوست کی حیثیت سے اپنے تعلیمی ادارے میں اور اپنے محلّے کے افراد کے ساتھ معاملات میں آپ کی ذات لوگوں کے لیے سکون اور خوشی کا باعث ہو، تلخیوں اور غلط فہمیوں کوختم کرنے والے ہوں، نہ کہ ان کو بڑھاوا دینے والے، اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کردیں تو کچھ وقت تو ضرور لگے گا، لیکن یہ بےسکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور تبدیل ہو گی ۔