امریکا کا انتخابی معرکہ

November 04, 2020

گو کہ امریکی صدارتی انتخاب میں بائیڈن کا پلڑا بھاری رہا ہے اور ممکنہ طور پر جیت بھی ان ہی کی نظر آرہی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخاب سے قبل چلنے والی مہم میں کیا کچھ ہوا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی ہو یا ری پبلکن دونوں کے رویئے پاکستان کی جانب تقریباً یکساں رہے ہیں۔ جب 1947 میں پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر ہیری ٹرومین برسر اقتدار تھے۔ انہوں نے فوراً پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے دانہ ڈالا اور لیاقت علی خان صاحب جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے سوویت یونین کی بجائے امریکا کے دورے پر پہنچ گئے، گو کہ سوویت یونین نے پاکستان کو اس دورے کی دعوت پہلے بھیجی تھی۔

پھر جب 1952 کے امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار آئزن ہاور برسر اقتدار آئے تو اگلے آٹھ سال یعنی 1960 تک پاکستان مکمل طور پر امریکا کے کیمپ میں جا چکا تھا۔ ہم نے’’سیٹو اور سینٹو‘‘میں شمولیت اختیار کی اور امریکا کے ایماء پر خود پاکستان میں بائیں بازو کی جمہوری قوتوں کا گلا گھونٹا۔ 1958 میں ہونے والی فوجی بغاوت اور جنرل ایوب خان کی سربراہی میں اقتدار پر قبضہ دراصل پاکستان میں امریکی اثر و رسوخ میں مزید اضافے کا شاخسانہ تھے۔ 1960 میں جب پاکستان سے اڑنے والے جاسوس طیارے کو سوویت یونین نے مار گرایا تو دنیا کو پتا چلا کہ پاکستان میں ایک فوجی آمر نے کس طرح چوری چھپے امریکا کو اپنی سرزمین استعمال کرنے دے دی تھی اور امریکا کا پاکستان پر تسلط بڑھ گیا تھا۔

1960 میں امریکا میں پھر ڈیمو کریٹک پارٹی کے اقتدار کا آغاز ہوا جو آٹھ سال چلا، جس میں امریکی صدور جان ایف کینیڈی اور لنڈن بی جانسن نے حکومت کی۔ اس آٹھ سال میں جنرل ایوب خان امریکا کی طرف جھکے رہے مگر جب 19654 میں پاک جنگ کے دوران امریکا نے کوئی خاص مدد نہیں کی بلکہ پرزوں کی فراہمی بند کی اور جنگی سازو سامان کی دستیابی میں رکاوٹ ڈالی جس کے بعد اچانک جنرل ایوب خان کو خیال آیا کہ انہیں آقائوں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہے اسی لئے انہوں نے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ نامی کتاب لکھی اور جس کا اردو ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کیا گیا۔

1968 میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار رچرڈ نکسن امریکا کے صدر بنے تو پاکستان میں ایک اور فوجی آمر جنرل یحیٰی خان نے 1969 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے جنرل ایوب خان کو بے دخل کر دیا۔ امریکا نے انہیں بھی استعمال کیا اور جنرل یحیٰی کی حکومت امریکا کے چیف سے تعلقات بہتر کرانے میں مصروف ہو گئی گو کہ 1971 میں پھر ہم امریکی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے اور ہمیں بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔

پاکستان کے فوجی آمروں جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰی خان کے برعکس، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک متوازن پالیسی اختیار کی اور چین کے ساتھ سوویت یونین سے بھی تعلقات بہتر کئے۔ بھٹو کے ساڑھے پانچ سالہ دور حکومت میں شروع کے پانچ سال یعنی دسمبر 1971 سے لے کر جنوری 1977 تک امریکا میں ری پبلکن صدور نکسن اور فورڈ اقتدار میں رہے مگر ان کے دور میں بھٹو صاحب کی قیادت میں پاکستان نے خاصی آزادانہ پالیسی اپنائی تھی جس کا ان کو خمیازہ بھگتنا پڑا اور جولائی 1977 میں ایک اور فوجی آمر، جنرل ضیاء الحق کی شکل میں پاکستان پر مسلط ہوگیا جس کو امریکا کی آشیرواد حاصل رہی۔

1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضےکے بعد تو جنرل ضیاء الحق امریکا کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ 1980 میں ری پبلکن پارٹی کے صدر رونلڈ ریگن منتخب ہوئے تو اگلے آٹھ برس یعنی 1988 تک جنرل ضیاء الحق اور ریگن ایک دوسرے کا دم بھرتے رہے۔ ان آٹھ برسوں میں افغانستان شدید خانہ جنگی کا شکار رہا اور جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو اس جنگ میں پوری طرح الجھائے رکھا۔ امریکا پاکستان کو استعمال کر رہا تھا اور جنرل ضیاء خود اپنی آمریت کو تقویت دینے میں مصروف تھے تاکہ طویل سے طویل تر عرصے تک حکومت پر قابض رہ سکیں۔

1988 میں جنرل ضیاء الحق ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے ، اسی برس امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے ہی امیدوار اور صدر ریگن کے نائب صدر جارج بش اقتدار میں آئے۔ ان کے ہی دور میں سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی افواج 1989 میں واپس بلالیں اور پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو افسر شاہی کے نمائندہ صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا۔

1992 سے 2000 تک امریکا میں پھر ڈیمو کریٹک پارٹی برسراقتدار رہی اور صدر بل کلنٹن نسبتاً بہتر صدر ثابت ہوئے مگر ان آٹھ سال میں پاکستان میں اقتدار پر کسی سویلین حکمران کو جم کر بیٹھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ امریکا افغانستان سے ایسے منہ موڑ کر غائب ہوا کہ پاکستان کیلئے صرف افغانستان کے نام نہاد مجاہدین ہی حصے میں آئے جو مسلسل آپس میں لڑتے رہے۔

1996 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اگلے پانچ برس تک امریکا بظاہر افغانستان اور پاکستان کے معاملے سے الگ تھلگ رہا ،مگر 2001 میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی۔ اس دوران 1999 میں پاکستان میں ایک جنرل پرویز مشرف قابض ہو چکے تھے۔

سن دو ہزار کے امریکی صدارتی انتخاب میں کسی کو امید نہیں تھی کہ جارج ڈبلیو بش یا بش جونیئر جیسا شخص بھی امریکی صدر بن سکتا ہے مگر وہ ایک متنازع انتخاب کے بعد امریکی صدر بن گئے اور 2001 کے حملوں کے بعد انہوں نے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا جس کیلئے جنرل مشرف نے صرف ایک دھمکی کے بعد حامی بھرلی دو ہزار آٹھ تک امریکا میں صدر بش جونیئر اور پاکستان میں جنرل مشرف کی گاڑھی چھنتی رہی۔

2008 میں پاکستان میں صدر زرداری منتخب ہوئے اور امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر بارک اوباما جن کی کوشش رہی کہ افغانستان سے امریکی افواج واپس بلالی جائیں مگر ایسا مکمل طور پر ممکن نہ ہو سکا۔ پھر 2016 سے امریکا میں صدر ٹرمپ کا دور شروع ہوا۔ صدر ٹرمپ نے انتخابات میں غیر متوقع کامیابی کے بعد بڑے واضح طور پر اسرائیل اور بھارت کا ساتھ دیا ، گو کہ گزشتہ دو ڈھائی سال میں پاکستانی وزیراعظم کے حامی مسلسل یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ خصوصی روابط قائم کر لئے ہیں مگر ان کا کوئی ٹھوس ثبوت نظر نہیں آتا۔

پاکستان نے اس دوران امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کیلئے غالباً جوبائیڈن کا صدر منتخب ہونا نسبتاً بہتر ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی تاریخی طور پر اسرائیل اور بھارت کے اتنے قریب نہیں رہی جتنا کہ ری پبلکن پارٹی۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے سابق صدر جمی کارٹر نے 1976 سے 1980 کے دوران اپنی حکومت کے ذریعے اسرائیل اور مصر کا معاہدہ کرایا اسی طرح بعد میں ایک اور ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن نے بھی یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ،گو کہ بعد میں اسرائیل نے ان معاہدوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا اور ان کے خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔پھر سابقہ یوگوسلاویہ میں مسلمانوں پر سربوں کے ظلم و ستم پر بھی صدر کلنٹن اسلامی ملکوں سے بھی زیادہ مضطرب دکھائی دیئے بلکہ کوسوو میں تو انہوںنے باقاعدہ فوجی کارروائی کر کے مسلمانوں کا سربوںکے ہاتھوں قتل عام رکوایا تھاؒ۔اسی طرح ڈیمو کریٹک پارٹی ماضی میں افغانستان اور کشمیر کے مسئلے پر نسبتاً بہتر موقف کی حامل نظر آتی ہے، جبکہ ری پبلکن پارٹی ، خاص طور پر صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور بھارت دونوں کو مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں غاصب طاقتوںکومدد فراہم کی ہے۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے تو انتخابات سے قبل باقاعدہ بین الاقوامی مہم چلائی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان ملکوں کو اسرائیل تسلیم کرنے پر راضی کرلیا جائے جس میں انہیں کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے۔پھر چین کی طرف ٹرمپ کے جارحانہ رویئے سے بھی پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔ ٹرمپ کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان چین کا ساتھ چھوڑ کر مکمل طور پر امریکا اور بھارت کی ہم نوائی شروع کردے ،جو ظاہر ہے پاکستان کیلئے مشکل ہی نہیں بڑی حد تک ناممکن بھی ہے۔اگر امریکا میں جوبائیڈن منتخب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لئے سنہرا موقع ہوگا کہ وہ ایران اور چین کے ساتھ امریکی تعلقات بہتر کرانے میں کچھ کردار ادا کر سکے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار کے آغاز پر پاکستان کے خلاف خاصا جارحانہ رویہ رکھا تھا جس کا ذکر وہ اپنی ٹوئٹس میں بھی کرتے رہے۔ گو کہ صدر بننے سے قبل بھی ٹرمپ کا رویہ پاکستان کی طرف دوستانہ نہیں تھا اور وہ کئی بار کہہ چکے تھے کہ پاکستان امریکا کا دوست نہیں ہے۔ مثلاً ایک بار صدر ٹرمپ نے برملا کہا کہ امریکا نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیئے اور بدلے میں پاکستان نے امریکا کیلئے کچھ نہیں کیا۔ غالباً وہ یہ بھول گئے تھے کہ پاکستان کی تاریخ کے تمام فوجی آمر مکمل طور پر امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ کرتے رہے تھے، چاہے وہ امریکا کو فوجی اڈوں کی فراہمی ہو یا چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش یا پھر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ ہو یا جنرل پرویز مشرف کے دور میں ’’وار آن ٹیرر‘‘ ہر دور میں پاکستان نے امریکا کیلئے بہت کچھ کیا ہے۔

صدر ٹرمپ پاکستا ن پر اسامہ بن لادن کو پناہ دینے پر بھی غصہ نکالتے رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن چھ برس تک پاکستان میں محفوظ زندگی گزارتا رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ لگنے دی۔ اسی طرح وہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

جب 2016 میں امریکی شہر سان برنادسانو میں ایک پاکستانی نژاد جوڑے نے پندرہ مقامی شہریوں کو حملہ کر کے ہلاک کر دیا تھا اس وقت بھی ٹرمپ نے پاکستان پر غصہ اتارا تھا۔ اس کے علاوہ صدر بننے سے قبل بھی ٹرمپ پاکستان میں اقلیتوں سے ناروا سلوک اور عزت کے نام پر عورتوں کے قتل پر پاکستان کو برا بھلا کہتے رہے تھے، پھرصدر بننے کے بعد صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے پندرہ برسوں میں پاکستان کو 33ارب امریکی ڈالر کی امداد دی، مگر پاکستان نے امریکا کو بے وقوف بنایا اور دھوکا دیا۔اسی طرح کی ہرزہ سرائی وہ فلسطینیوں کے خلاف بھی کرتے رہے۔

اب ہم آتےہیں حالیہ انتخابات کی طرف جس کے نتائج کے بارے میں صدر ٹرمپ نے پہلے ہی شکوک وشبہات کا اظہار کر دیا ہے، حالانکہ عام طور پر امریکی سیاست میں اقتدار پرامن اور غیر متنازع طور پر منتقل ہوتا رہا ہے، نہ وہاں فوجی بغاوتیں ہوتی ہیں اور نہ حزب مخالف نتائج ماننے سے انکار کرتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تنازع ہو تو عدالتیں حتمی فیصلے کا اختیار رکھتی ہیں جیساکہ 2000 کے انتخاب میں ہوا تھا۔ ابتدائی نتائج کے مطابق ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار اور صدر کلنٹن کے نائب صدر الگور نے انتخاب جیت لیا تھا مگر پھر فلوریڈا سے متضاد نتائج آنے لگے اور کئی دن بعد عدالت نے جارج بش جونیئر کے حق میں فیصلہ دے کر انہیں امریکا کا صدر بنا دیا تھا۔لیکن اس پر ڈیمو کریٹک پارٹی نے کوئی احتجاج نہیں کیا، مگر اب صدر ٹرمپ نے پہلی مرتبہ ایک صدر کے انتخاب سے قبل ہی اقتدار کی پرامن منتقلی پر سوال اٹھا دیئے اور یہ ضمانت دینے سے انکار کردیا کہ اگر وہ انتخاب ہارے تو نتائج کو تسلیم کرلیں گے۔ صدر ٹرمپ اپنے اقتدار کے دوران مسلسل غیر ذمہ دارانہ بیانات اور رویوں کا اظہار کرتے رہے۔ وہ تو اچھی بات یہ ہے کہ وہاں جمہوری اقدار اتنی مضبوط ہیں کہ بغاوت کا امکان کم یا نہ ہونے کے برابر ہے ،ورنہ کوئی اور ملک ہوتا تو وہاں کےعوام نے بغاوت کردی ہوتی۔ پھر ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں سفید فام اکثریت کو بھی اکسایا کہ وہ کھل کر کام کریں۔یاد رہے کہ امریکا غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عوام کے پاس موجود آتشیں اسلحہ کی تعداد امریکا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہاں ہر شخص کو ہتھیار خریدنے اور رکھنے کی مکمل آزادی ہے، جس کے باعث وہاں ہر گھر میں کئی کئی آتشیںہتھیار رکھے جاتے ہیں۔ہتھیار رکھنے کا حق امریکا کےآئین میں دیا گیا ہے اور اس حق کو ختم کرنے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کی سب سے بڑی مخالف خود ری پبلکن پارٹی ہے۔ حالانکہ آئے روز امریکا میں مختلف مقامات پر گولیاں چلا کر لوگوں کے مارنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں، خاص طور پر اسکولوں میں ایسے واقعات لاتعداد مرتبہ ہوچکے ہیں۔

عام طورپر امریکی صدارتی انتخاب کے غیر سرکاری نتائج الیکشن کی رات ہی سامنے آجاتے ہیں کیونکہ میڈیا گنے جانے والے ووٹوں کی تعداد کے مطابق غیر حتمی نتائج کا اعلان کرتے رہتے ہیں اور عوام کو پتا چل جاتا ہے کہ کس امیدوار کو کس ریاست سے اکثریت مل رہی ہے ،جب زیادہ تر ریاستوں کے نتائج کسی ایک امیدوار کے حق میں واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کون امیدوار امریکا کا اگلا صدر ہوگا۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ امریکی ریاستوں میں رائے شماری کا وقت مختلف ہوتا ہے، کیونکہ ووٹ ڈالنے کے وقت میں بھی فرق ہوتا ہے۔مثلاً مشرق کی ریاستوں میں یہ عمل پہلے مکمل کرلیا جاتا ہے کیونکہ وہاں ووٹنگ بھی پہلے شروع ہوتی ہے یہ مغربی ریاستوں تک پہنچتے پہنچتے مشرق اور وسط کی ریاستوں کے نتائج بڑی حد تک واضح ہو چکے ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کن ریاستوں میں کس کو برتری ہے۔ یعنی ہر ریاست کا ایک الیکٹورل کالج انتخابی حلقہ ہوتا ہے جہاں ووٹوں کی ایک خاص تعداد کے ذریعے فیصلہ ہوتا ہے کہ اس ریاست سے کون سا امیدوار جیتا ہے یعنی فاتح وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ عوامی ووٹ نہیں بلکہ ریاستی الیکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کرتا ہے۔چونکہ ہر ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے الیکٹورل ووٹ ملتے ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ جو امیدوار زیادہ ریاستوں میں جیتے وہی صدر بھی بن جائے۔ الیکٹورل کالج کے پورے امریکا میں 538 ووٹ ہوتے ہیں، جس میں 270 ووٹ حاصل کرکے صدر بنا جا سکتا ہے اور جیسے ہی کوئی امیدوار اتنے ووٹ حاصل کرلیتا ہے اسے صدر سمجھ لیا جاتا ہے ،باوجود اس کے کہ ابھی دیگر ریاستوں سے نتائج آنا باقی ہیں۔

امریکی انتخاب میں ایک اہم کردار ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کا بھی ہے۔ مثلاً بڑی عمر کے لوگ یعنی جو 65 برس سے بڑے ہوں یا ریاست سے باہر ہوں یا بیمار بھی ہوں تو وہ اپنا ووٹ ڈاک کے ذریعے بھیج سکتےہیں،ان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے،صرف 2016 میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں پچیس فیصد ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئےتھے ،اب 2020 میں کورونا کے باعث اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی ریاستوں میں ڈاک سے ووٹ ڈالنے کے اصول جدا جدا ہیں ،مثلاً مغربی ریاستوں جیسے واشنگٹن، اورساگن اور کیلی فورنیا وغیرہ میں تمام ووٹ ڈاک کے ذریعے ہی ڈالے جاتے ہیں۔ وسط اور مشرق کی زیادہ ترریاستوں میں ڈاک سے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے اور اس کیلئے کسی وجہ کی ضرورت نہیں یعنی آپ پولنگ بوتھ میں بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں یا پھر اپنی مرضی سے کوئی وجہ بتائے بغیر بھی ڈاک سے ووٹ بھیج سکتے ہیں۔

جنوب کی کچھ ریاستوں میں ڈاک سےووٹ ڈالنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ وجہ بتائیں ،جیسے ضعیف العمری یا بیماری وغیرہ۔ یہ ڈاک کے ووٹ ہی ہیں جن کے باعث انتخابی نتائج کے اعلان میں تاریخ ہو سکتی ہے، چونکہ ووٹوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے، اس لئے ان کا اکٹھا کرنا اور گننا ایک بڑا کام ہوتا ہے پھرہر ووٹ پر موجود دستخط کی تصدیق میں بھی وقت لگتا ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے انتخاب سے کئی ہفتے پہلے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ انتخاب میں دھاندلی کو تسلیم نہیں کریں گے ایسی صورت میں ایک بار پھر معاملہ عدالت تک جائے گا۔ 2002 میں عدالت نے ایک مہینے سے زیادہ وقت لیا تھا یہ فیصلہ کرنے میں اصل منتخب صدر کون ہے۔ 2020 کے صدارتی انتخاب سے قبل ہی امریکا کی 44 ریاستوں میں تین سو سے زیادہ مقدمات کئے جا چکے تھے جن میں ووٹوں کی گنتی پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ کےلیے بیلٹ پیپر کو پہلے پرنٹ کرنا ہوتا ہے اور چونکہ سفید فام لوگوں کے پاس زیادہ تر گھرمیں پرنٹر ہوتے ہیں وہ یہ کام آسانی سے کر لیتے ہیں جب کہ سیاہ فام اور ہسپانوی وغیرہ اپنی غربت کی وجہ سے پرنٹر نہیں رکھتے اور نہ ہی ڈاک سے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔پھر کچھ ریاستوں میں ڈاک کے ووٹ کی تصدیق کیلئے کسی گواہ کے دستخط بھی ضروری ہوتے ہیں جس کے باعث بھی سفید فام اکثریت فائدے میں رہتی ہے۔ پھر بعض علاقوں میں پولنگ اسٹیشن اور ڈاک خانے بھی بڑے فاصلے پر ہوتے ہیں جہاں پہنچنا حاصا مشکل اہوتا ہے جس سے غریبوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

حالیہ انتخاب میں ایک دلچسپ پہلو نائب صدر کے حوالے سے کملا ہیرس کا بھی رہا جس سے انتخابات میں خواتین کے کردار پر بھی بحث ہونے لگی۔ کملا ہیرس اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ امریکی معاشرے میں بھی اب تک مردوں کو زیادہ پراعتماد سمجھا جاتا ہے لیکن کملا ہیرس نائب صدارت کے مباحثوں میں بہت اچھے انداز سے گفتگو کرنے اور اپنا موقف بیان کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔امریکی صدارتی انتخاب میں نائب صدر کے امیدوار کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ امریکی صدر کی موت یا مواخذے کے ذریعے برطرفی کی صورت میں نائب صدر کو ہی صدر کا عہدہ خود بخود مل جاتا ہے اور اگر 78سالہ صدر جوبائیڈن اپنے عہدہ صدارت کے دوران فوت ہوگئے تو کملا ہیرس ہی آئینی طور پر امریکی صدر بن سکتی ہیں۔

کملا ہیرس کی ذاتی زندگی بڑی کٹھن رہی ہے ۔ ان کی والدہ نے تنہا ان کی پرورش کی اور اب خود کملا ہیرس اپنے دو سوتیلے بچوں کو بھی پال رہی ہیں۔ اس سے قبل 2008 کے انتخاب میں بھی ایک خاتون سارہ پیلن نے نائب صدر کے امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تھا جن کے پانچ بچے تھے جن میں ایک پیدائشی طور پر ذہنی پسماندہ تھا۔ ری پبلکن امیدوار عام طور پرقدامت پسند ہوتے ہیں اور اسقاط حمل پر بھی زیادہ یقین نہیں رکھتے اس لئے ان کے بچوں کی تعداد بھی عام طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال سپریم کورٹ کی خاتون جج ایمی بیریٹ کی ہے جوقدامت پسند ہیں اور سات بچوں کی ماں ہیں۔

کملا ہیرس کے صرف دوبچے ہیں اور وہ بھی سوتیلے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کملا ہیرس سے بدزبانی کی اور برے الفاظ استعمال کئے ۔مثلاً صدر ٹرمپ نے کملا ہیرس کو شیطان اور بدتمیز تک کہہ ڈالا جو کسی بھی ملک کے صدر کو زیب نہیں دیتا مگر ٹرمپ دنیا کے ان اعلیٰ عہدیداروں میں رہے ہیں جن کو بات کرنے کی کوئی زیادہ تمیز نہیں ہے۔ان کے مقابلے میں ٹرمپ کے نائب صدر پینس نے نسبتاً بہتر الفاظ کا انتخاب کیا۔

بہرحال نتائج سے قطع نظر امریکی صدر ٹرمپ نے مجموعی طور پر امریکی تشخص کو متاثر کیا ، جس سے امریکا کی بین الاقوامی عزت اور پذیرائی میں کمی ہوئی، خاص طورپر امریکا کے روایتی اتحادی یورپ کے ممالک میں تو امریکا کی حمایت اور عزت خاصی کم ہوتی گئی جس کو بحال کرنے میں خاص وقت لگ سکتا ہے خاص طور پر جرمنی اور فرانس میں۔

پھر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی صدر ٹرمپ نے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دی اور اسے ایک دھوکا قرار دیا ساتھ ہی وہ پیرس کے ماحولیاتی معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے جس میں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے تقریباً دوسو ممالک شامل ہیں تاکہ عالمی درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ کی حد برقراررکھی جائے۔ مگر امریکا جو خود چین کے بعد سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والا ملک ہے اس معاہدے سے نکل گیا اور ساتھ ہی ان پابندیوں کی مخالفت کی جن کے ذریعے تیل، کوئلے اور گیس وغیرہ کے استعمال کو قابو میں رکھنا تھا تاکہ عالمی آلودگی کم ہو سکے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے انتخاب کے بعد امریکی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے۔