ڈسلیکسیا... بچوں کے سیکھنے کے عمل میں دشواری

November 05, 2020

بچوں کی اکثریت صحیح عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کردیتی ہے لیکن کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو پڑھنے لکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں والدین سیکھنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتے ہیںاور انھیں دوسرے بچوںکی مثالیں دیتے ہیں۔ بچے کے سیکھنے سمجھنے میںدشواری کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ڈسلیکسیا (Dyslexia) بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کے بچے کو سیکھنے کے عمل میںمشکل پیش آتی ہے یا وہ پڑھنے لکھنے میں کم صلاحیت کا حامل ہے یا اس کی اسکول میں کارکردگی بہتر نہیں ہے تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں آپ کے بچے کو ڈسلیکسیا تو نہیں۔

یہ کوئی ذہنی بیماری یا معذوری نہیںہے بلکہ اس کے شکار افراد کو الفاظ پڑھنے، پہچا ننے، سمجھنے، یاد رکھنے اور لکھنے کے عمل میں دشواری محسوس ہوتی ہے، تاہم انہیں کند ذہن یا نکما نہیںکہا جاسکتا۔ دراصل ہم بچے کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کے سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ نہیں لگا پاتے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اسے پڑھانے لکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اکثر اوقات ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے مگر سارا الزام ہم بچے پر ڈال دیتے ہیں کہ اسے پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔

ذرا تصور کریں کہ اگر بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے حروف گھومتے نظر آتے ہیں یا وہ حرف ’ب‘ اور ’پ‘ کے درمیان فرق نہیں کرپاتا تو وہ کیسے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے یا آپ کی بات کو سمجھ سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کی 5٪ سے 10٪فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے ، جس کی وجہ سے ہر روز ان کی زندگی مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ والدین اور اساتذہ کا دباؤ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ ایسے میںضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شعوری طور پراس بیماری میں مبتلا لوگوں کی زندگی اور ان کو درپیش صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ایک ہی عمر اور جماعت کے بچوںکو ایک جیسا ہی لکھنا پڑھنا سکھایا جائے تو سب بچے ایک جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیںکرتے لیکن دیر یا بدیر ہر بچہ بالآخر لکھنا پڑھنا سیکھ ہی جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ سیکھنے کے اس عمل میں ایک بچے کو دوسرے سے زیادہ وقت لگے، ایسی صورت میںوالدین اور اساتذہ کو صبر واستقامت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو ڈانٹنے یا سزا دینے کے بجائے اس کے نہ سیکھنے یا اسے درپیش مشکل کی وجہ تلاش کرنی چاہئے ۔

ڈسلیکسیا کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ بچے ہجے کرنے میںمشکل محسوس کرتے ہیں تو کچھ لکھنے میںجدوجہد کررہے ہوتے ہیں، کچھ بچے اس کشمکش میں بھی جلدی لکھنا سیکھ نہیںپاتے کہ انھیں دائیںہاتھ سے لکھنا ہے یا بائیں ہاتھ سے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض لوگوںسےعمر بھر املا اور گرامر کی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔

بچوں کواس مشکل سے نکالنے کیلئے والدین کا کردار بہت اہم ہو جاتاہے۔ والدین کو اپنے بچے پر ابتدا ہی سے نظر رکھنی چاہئے کہ اس کے لکھنے پڑھنے کی کیفیت، منہ سے نکلنے والے عام بول چال کے الفاظ، ڈرائنگ کرنے کا انداز، لفظ جوڑنے اور توڑنے اور حروف کو پہچاننے کے عمل میںاس کی کارکردگی کیسی ہے تاکہ جلد از جلد یہ پتہ لگایا جاسکے کہ بچے کو کس جگہ ناکامی یا کمزوری کا سامناہے۔ اس کے لیے والدین کو بچے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے کے سیکھنے میںآنے والی کسی بھی قسم کی رکاوٹ کووالدین بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اور نتیجتاً وہ ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ سمجھنے لگتاہے کہ اسے کچھ نہیںآتا اور نہ ہی وہ اچھی طرح سیکھ سکتاہے۔ اس طرح بچہ نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے، اسے لگتاہے کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے، اسے اہمیت نہیں دی جاتی، لہٰذا وہ اپنی بات کرنے یا دوسروں سے مدد مانگنے میں ہچکچانے لگتا ہے۔ بار بار پوچھنے پر جب ایسے بچوں کو سرزنش کی جاتی ہے توان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ یاد کرنے یا سیکھنے کے عمل میںمزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کا نتیجہ ذہنی دبائو کی صورت نکلتاہے۔

ڈسلیکسیا کے ماہرین ایسے بچوں کو اسپیچ تھراپی یا گفتگو کے مراحل سے شناخت کرتے ہیںاور ان کی کمزوریاں جان کر انہیں درست کرنے کے مشورے دیتےہیں۔ ان کا مشورہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کی مناسبت سے ایسے کھلونے لا کردیے جائیں، جن کے ذریعے وہ کھیل کھیل میںرنگوںیا اشکال کی مدد سے حروف پہچاننے لگیں۔ اس کے علاوہ انہیں دلچسپ ، رنگ برنگی ،تصویروں سے مزین کہانیاں، کتابیںاور رسائل لا کر دیں۔ اگر کسی بچے میںڈسلیکسیا کی شناخت ہوجائے تو ٹیچرز کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور سب مل کر بچے کو اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کریں۔

ڈسلیکسیا میںمبتلا افراد بہت کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے کامیاب شخصیات کی ایسی بےشمار مثالیںموجود ہیں، جو اپنے بچپن میں ڈسلیکسیا کا شکار تھیں۔ امریکا کی بہترین اداکارہ جینیفر آنسٹن، ہالی ووڈ کے چوٹی کےفلم میکر اسٹیون اسپیل برگ اور لیجنڈری ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی مرحوم بھی ڈسلیکسیا کا شکار تھے مگر انھوں نے اپنی انتھک محنت، عزم اور کوششوں سے معاشرے میں ایک نام بنایا۔