قومی ڈائیلاگ: سیاسی مسائل سے نکلنے کا واحد حل

November 05, 2020

ملک میں سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور ایک طوفان برپا ہے۔ مہنگائی میں ڈوبے ہوئے عوام کو توقع تھی کہ گیارہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم انکے دکھوں کا مداوہ کرے گا اور ان کی تحریک سے غریبوں کی مشکلات میں کمی ہوگی مگر پی ڈی ایم میں شامل بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اور بعض دوسری پارٹیوںنے مبینہ فوج اور ریاست کے خلاف بیانات دیکر اس تحریک کا رخ ہی موڑ دیا۔ تاہم دوسری طرف پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی نے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اچھے رویےکا مظاہرہ کیا۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر آصف زرداری نے اچھا کارڈ کھیلا اور نواز شریف کے بیانیے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا اور کراچی کے جلسے میںتمام تر پریشر کے باوجود میاںنواز شریف کو کراچی میں تقریر نہ کرنے دی۔

پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی‘سینٹ اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے سے بھی گریز کیا۔ بلاول بھٹو نے بھی فوج کے بارے میں ایک لفظ نہیںکہا بلکہ حکومت کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور کسی سیاسی جماعت کا حکومت پر تنقید کرنا جمہوری حق ہے۔ آصف علی زرداری نے اپنے‘ اپنی بہن اور پارٹی کے دیگر لیڈروںکے خلاف کرپشن کیسز کے باوجود اپنا غصہ فوج اور ریاست کے خلاف نہیںنکالا۔ یہ پیپلزپارٹی کی حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لیڈروںنے مختلف ذرائع سے بہت کوشش کی کہ ان کے خلاف کیسز ختم ہوجائیں۔ انہیں اور ان کی بیٹی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دلائی جائے۔ جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی۔

اگر پی ڈی ایم والوںکو کوئی بیرونی اشارہ ہے تو پاکستان کے موجودہ حالات میں چاہئے کوئی اسلامی ملک ہو امریکہ ہو یا برطانیہ‘ اس وقت پاکستان پر کوئی پریشر نہیںڈال سکتے نہ پاکستان میں گڑ بڑ کرانے کی کوئی کوشش کامیاب ہوگی۔ ہماری اطلاع کے مطابق کچھ قوتیں پاکستان کے چین‘ روس‘ ترکی‘ ایران کے ساتھ قربت اور سی پیک کی وجہ سے انتقام لینے کی کوشش کررہی ہیں مگر کامیابی ممکن نہیںہوگی۔ پاکستان اور چین بہت قریب آچکے ہیں۔ پاکستان‘چین‘ روس ‘ ترکی‘ایران اور کچھ دیگر ممالک ایک بلاک بننے جارہے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے بڑے صبروتحمل سے سب کچھ برداشت کیا ۔ اب ٹھوس اطلاعات ان تک پہنچ گئی ہیںکہ کونسی قوتیں یہ کچھ کروارہی ہیں اور بہت جلد شکنجہ کساجارہا ہے اور بہت سے لوگ اس شکنجے میںہونگے۔

سردار ایاز صادق کے پارلیمنٹ میں بیان کے بعد لاہور میں انکے خلاف بینرز لگ گئے جس سے مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈر پریشر میں آگئے۔ سردار ایاز صادق نے اپنے بیان کی ایک طرف وضاحت کی اور کہا کہ پوری پاکستانی قوم بھارت کے خلاف متحد ہے مگر اس وضاحت کیساتھ انہوں نےاپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے دوبارہ یہ کہہ دیا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔سردار ایاز صادق نے اپنے خلاف بینرز ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ دھمکی بھی دیدی کہ میرے پاس اور بھی راز ہیںکیونکہ میں بحیثیت اسپیکر اجلاسوں میں شریک رہاہوں۔اس کا مطلب ہے مسلم لیگ ن والوںکو صرف سیاست کی فکر ہے ریاست کی نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی مفادات اور ملکی سالمیت کی خاطر تمام سیاسی جماعتوںکو قومی ڈائیلاگ کے زریعے سیاسی افراتفری کو ختم کرناہوگا، ملک کی سالمیت اور دفاع کو ہی سب سے بڑھ کر اہمیت دینا ہوگی۔ گزشتہ کافی عرصے سے اسلام دشمن قوتیں اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میںناموسِ رسالتؐ کی شان میںگستاخی کرتے ہوئے خاکے شائع کر رہی ہیں۔

یہ اسلام دشمن قوتیں چاہتی ہیںکہ مسلمانوںکے جذبات کو مشتعل کیاجائے اور وہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کریں اور پھر ہم انہیں دہشت گرد قراردیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فرانس کے صدر اور حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد میں مظاہرین فرانس کے سفارتخانے کے باہر جانا چاہتے تھے مگر پولیس نے روکے رکھا۔

وزیراعظم عمران خان نے حضورؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف شدید ردعمل کااظہار کیا اور مسلمان ملکوںکے سربراہوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے نبیؐ کی عزت و وقار کے لئے مؤثر آواز اٹھائیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد بھی منظور کی اور ان واقعات کی شدید مذمت کی۔ دفترخارجہ میںفرانس کے سفیر کو طلب کیا گیا اور اپنااحتجاج ریکارڈ کرایا۔ پاکستان میںیہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ فرانس سے پاکستانی سفیر کو واپس بلایاجائے۔

وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میںبہت سے وزراء بیوروکریسی کے عدم تعاون پر پھٹ پڑے اور وزیراعظم سے کہا کہ بیوروکریسی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور جو بیوروکریٹ بالخصوص وہ انتظامی افسران جو اندرون خانہ مسلم لیگ ن سے تعاون جاری رکھے ہوئیے ہیں‘انہیںغیر اہم عہدوں پر لگایاجائے یا فارغ کیاجائے۔ عمران حکومت کا یہ المیہ ہے کہ جو بیوروکریٹ نواز شریف دور کے پردردہ تھے‘انہوں نے اس حکومت میںبھی لابیوںکے زریعے راستے نکال لئے ہیں اور اہم عہدوںپر فائز ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو اسکانوٹس لینا چاہئے۔

ہم کئی مرتبہ اپنی تحریروںمیںآگاہ کرچکے ہیںکہ لوگ مہنگائی سے عاجز آچکے ہیں۔ تاجر جان بوجھ کر اشیاء کی قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر بازار میںاپنی قیمتوںسے اشیائے خورونوش فروخت کرتے ہیں۔ چینی‘ آٹے‘گھی‘ دالوںکی قیمتیںکم نہیںہوئیں۔ عوام کو فی الحال کسی سیاسی تحریک سے کوئی غرض نہیںمگر عوام میں لاوہ پک رہا ہے جو کسی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اب عوام قطعاً اس بات پر توجہ نہیں دے رہے کہ یہ مہنگائی ماضی کی حکومتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے ہے۔

اب موجودہ حکومت کو سوا دو سال ہوگئے ہیں۔ چینی وافر مقدار میں امپورٹ بھی کی گئی۔پھر قیمتیںکم نہیںہوئیں۔ شوگر ملیں زیادہ تر مسلم لیگیوں کی ہیں اور کچھ آپکے اپنے لوگوںکی ہیں۔ پھر کارروائی کیوںنہیں ۔ دوسرے بہت اداروں سے ہزاروںلوگوں کو نکال دیا گیا ہے۔ وہ بھی لوگ اپوزیشن جماعتوںکے جلسوں میں اکٹھے ہورہے ہیں۔ ایسے موقع پر اداروںسے وسیع پیمانے پر چھانٹیاں حکومت کو ناکام بنانے کی سازش ہوسکتی ہے۔ پنجاب حکومت کی طرحوفاقی سطحپر بھی بیروزگار نوجوانوںکے لئے قرضہ سکیم فوری طور پر شروع کی جائے۔ اس طرح نوجوانوںکی کثیر تعداد آپکی سپورٹر ہوسکتی ہے۔