معزز والدین! بچوں کے بدلتے مزاج کو سمجھیں

November 06, 2020

ثناء جاوید

بچے جب عمر کی دوسری دہائی میں پہنچتے ہیں تو اُن کے رویوں میں تھوڑی بہت تبدیلی ضرور آتی ہے ۔بچے والدین سے دور رہنے لگتےاور دوستوں میں ان کازیادہ دل لگنے لگتا ہے ۔گیارہ ،بارہ برس تک بچےہر بات والدین سے کرتے ہیں۔اس وقت والدین ہی ان کی پہلی ترجیح ہوتے ہیں ۔جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ۔دوسری دہائی میں پہلی تر جیح دوست ہوتے ہیں ۔اس عمر میں بچے اپنی ہر بات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔

اگر گھر کا ماحول کہنے کے لئے ساز گار ہو۔اسے کسی خوف کے بغیر اپنی باتیں کہنے کی فضا میسر ہو تو بچہ گھر یا والدین سے دور نہیں ہو گا۔عمر کے اس حصے میں نت نئی تبدیلیوں سے دو چار ہونے والے بچے اپنے مسائل کے حل کے لئے رہنمائی چاہتے ہیں۔ تبادلہ خیال کے طلب گار ہوتے ہیں۔

اگر انہیں والدین کا مثبت رویہ ملے تو وہ انہی کو دوست بنالیں گے۔اس عمر میں بچے والدین سے دور بھاگتے ہیں ،کیوں کہ والدین اس عمر میں روک ٹوک اور نصیحت زیادہ کرتے ہیں جو عموماً بچے پسند نہیں کرتے ۔ایسے میں بچوں کو ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب بچہ کوئی حماقت کر بیٹھے تو اس پر نصیحتوں کی بو چھار کرنا مناسب نہیں ۔بچے کو اپنی غلطی کا اندازہ کرنے کا موقع دیں ،تا کہ وہ خود سےکسی نتیجے پر پہنچ سکے ۔نو عمری میں بچوں کی نگرانی ضروری ہے،مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں اس نگرانی کا احساس نہ ہو ۔

گھر کا ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ پرائیویسی کا احساس بھی رہے ۔گھر کا ایک حصہ بچوں کے لیے الگ کردیں جہاں وہ کھیل سکیں ،دوستوں کے ساتھ وقت گزار سکیں ۔ اپنے اور بچے کے درمیان رابطہ قائم کرنے کے لیے ایسا انداز اپنائیں جو بچوں کو ان کی باتیں سننے پر آمادہ کرے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو پر اعتماد اور مضبوط بنانے کے لیے انہیں بنیادی اور اہم معلومات فراہم کریں۔

بہت سارے معاملا ت میں بچوں کو ہمدردانہ رویوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔عمر کے اس حصے میں بچے کو ایک سمجھدار اور ذہین فرد کی رہنمائی درکارہوتی ہے۔ان کے قریب ایسا فرد ضروری ہے جو وقت پڑنے پر ان کی مدد کر سکے۔ماں یا باپ یہ کردار زیادہ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔اس دور میں بچے بہت سی تبدیلیوں سے گزر کر بہت کچھ سیکھ کر ایک نئی شخصیت میں ڈھلتے ہیں۔