والدین کی موت نے باہمت اور بہادر بنادیا

November 06, 2020

والدین کا ہونا بچوں کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے اس کی قدر ان سے پوچھیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ نہیں ہوتا۔ یتیمی اور یسیری اُس کے اپنوں کو بھی بے گانہ کر دیتی ہے اس صورتحال میں بیک وقت پانچ بہن ،بھائیوں کو سنبھالنا ،ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنا ایک بہت ہی مشکل امتحان ہوتا ہے اور اس امتحان کو بڑے بڑے کامیابی سے پار نہیں کر پاتے، مگر جب ان حالات کا سامنا ایک سترہ سالہ لڑکی کوکرنا پڑا تو اس نے صورت حال کو کیسے سنبھالا ،یہ جان کر آپ کو یقیناً حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوگی، کیوں کہ اتنی کم عمر میں ا تنی بڑی ذمہ داری نبھانا آسان نہیں ہوتا۔

حقیقت پر مبنی یہ داستان سترہ سالہ امریکی لڑکی ’’سمانتھا ‘‘کی ہے،جس نے ماں باپ کے انتقال کے بعد اپنے پانچ بہن بھائیوں کی تعلیم و تر بیت پر خصوصی توجہ دی ۔ امریکا کی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے سے شہر اورلانڈو میں مقیم سمانتھا، جو ایک نیوز چینل کے ذریعے منظر عام پر آئی ۔ سمانتھا جب صرف سترہ سال کی تھی جب اُسے معلوم ہوا کہ اس کی ماں کو کینسر ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ حالات کو سمجھ سکتی اس کی ماں پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئی ۔مشکل کے اس وقت میں ان کا آخری سہارا والد الیگزنڈر تھے جو بیوی کے دنیا سے جانے کے بعد بہت اپ سیٹ تھے، مگر انہوں نے اپنی بیوی کی آخری خواہش کے مطابق گھر کو ٹوٹنے نہیں دیا اور باپ کے ساتھ ماںکا کردار بھی انتہائی محبت سے ادا کیا،مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیےکہ ایک دن الیگزنڈر معمولی نزلہ زکام میں مبتلا ہو گئے، جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو ان کی طبیعت بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑ گئی اور پھر چند دنوں بعدبچوں پر ایک بار پھر روح فرسا انکشاف ہوا کہ الیگزنڈر بھی کینسر میں مبتلا ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی کینسر سے لڑتے لڑتے زندگی کی جنگ ہار گئے۔

اس وقت سمانتھا کے کاندھوں پر ساری ذمہ داری آن پڑی۔ اس مشکل وقت میں ہمت نہ ہاری ۔ سمانتھا کو ماں اور باپ کے بعددونوں کی ذمہ داریاں سنبھالنی تھیں ۔ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ اپنی تعلیم کو خیر باد کہہ کر نوکری کر لیتی ،مگر اس نے اپنے بہن بھائیوں کے لیے ایک مثال قائم کی ۔ اپنے تعلیمی سفر کو بھی نہ رکنے دیا اور ساتھ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیےپارٹ ٹائم ویٹرس کی جاب بھی کر لی-21 سال کی عمر میں سمانتھا نے نہ صرف اپنی گریجوئشن مکمل کی بلکہ اپنے بہن بھائيوں کے تعلیمی سفر کو بھی جاری رکھا۔

اس کا کہنا تھا کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں اس کے پاس ایک پل بھی اپنے لیے نہیں ہوتا۔ صبح کا آغاز صبح چھ بجے اپنے بہن بھائیوں کے ناشتے کی تیاری سے ہوتا ہے، جس میں اس کی دادی اس کی مدد کرتی ہیں ۔سب کو اسکول بھیجنے کے بعد وہ خود کالج جاتی ۔کالج سے سیدھی اپنی جاب پر جاتی ۔سمانتھا کی انتھک محنت کو دیکھتے ہوئے امریکا کی ایک موٹر کمپنی نے اس کے اور اس کے بہن ،بھائیوں کے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے پندرہ ہزار ڈالر کی اسکالر شپ بھی دی اور ایک نئی گاڑی بھی تحفے میں دی ۔سمانتھا کی یہ جدوجہد ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں خاندانی نظام اور باہمی اقدار اور ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے باہمی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے ۔