بہو کا انتخاب

November 06, 2020

فاطمہ احمد

میں ڈاکٹر ہوں ۔ایک اسپتال میں کام کرتی ہوں ۔چند ماہ قبل میری ڈیوٹی ایمرجنسی وارڈ میں تھی کہ ایک نوجوان لڑکی کو اُس کے والدین لے کرآئے۔اُس نے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ میں نے اپنے آٹھ سالہ کیرئیر اور زندگی میں پہلی بار اتنی خوب صورت لڑکی دیکھی تھی ۔ وہ حالت ِبیہوشی میں تھی ، اس کے والدین بھی اچھی شخصیت کے مالک تھے لیکن اس وقت بیٹی کی وجہ سے بہت بے حال تھے ۔پتا نہیں کیوں مجھے لڑکی پرپیار اور اس کے والدین کی بے بسی دیکھ کر بہت زیادہ ترس آرہا تھا ۔لڑکی کو آپریشن تھیٹر لے کر گئی۔

کام یاب آپریشن کے بعد اس کو وارڈ میں شفٹ کردیا ۔والدین کو یہ اطلا ع دی کہ آپ کی بیٹی خطرے سے باہر ہے ۔یہ سنتے ہی لڑکی کے والد غرباء میں کھانا تقسیم کرنے چلے گئے ۔میں نے لڑکی کی والدہ کو اپنے آفس میں بلوایا۔اور اُن سے پوچھا ،کیا معاملہ ہے ،آپ کی بیٹی نے یہ انتہائی اقدام کیو ں اُٹھا یا ۔وہ چند ثانیے خاموش دیوار کو تکتی رہیں ،پھر گو یا ہوئیں ،میری بیٹی منتہٰی ٹیکسٹائل انجنئیر ہے ۔

اُس کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد تمام والدین کی طر ح میری بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے ،جب اس سے شادی کی پسند کے بارے میںپو چھا تو اس نے یہ اختیار ماں باپ کو دے دیا ۔ایک عزیزہ نے اس کے رشتے کی بات چلائی توایک دن اس کو دیکھنے ایک فیملی آئی۔

لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونےکے بعد عورتیں میری بیٹی کے کمرے میں گئے کسی نے اس سے چل کر دکھانے کی فرمائش کی ،کسی نے بولنے کی اور کسی نے مختلف سوالات کیے ۔چند دن بعد رشتے سے انکار کردیا ۔اس کو پہلی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا تھا ،مگر ہماری تسلی نے اس کو حوصلہ دیا ،چند دنوں بعد ایک اور فیملی دیکھنے آئی ۔

دوسرے دن انہوں نے یہ کہہ کر رشتے سے انکار کردیا کہ لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی، کیوں کہ اس نے لڑکے کی ماں کو چائے پیش نہیں کی۔ اس انکار پر ہمیں دکھ ہوا لیکن اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کرلیا ۔چند ماہ بعد ایک اور فیملی آئی ۔ہماری بیٹی نے ان کی اچھے سے مہمان نوازی کی ۔لیکن انہوں نے بھی یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہمیں آپ کی بیٹی کچھ خاص پسند نہیں آئی۔

گزشتہ آٹھ سال میںکئی خاندان دیکھنے آئے ،مگر کوئی نہ کوئی عیب نکال کر سب نے صاف انکار کر دیا ۔اب کل ایک فیملی آئی انہوں نے عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے پسند کرنے سے انکار کردیا ۔اور احسان جتانے والے انداز سے کہا ہمارے ایک جاننے والے کا اڑ تالیس سالہ بیٹا ہے ،جس کی اپنی ایک دوکان ہے۔

آپ کہیں تو اُنہیں دکھا دیں اتنا کہہ کر وہ سسکیاں لے کر رونے لگیں اور کہنے لگیں ماں جتنی بھی مجبور ہو ایسا کیسے کہہ سکتی ہے ؟میری بیٹی کل سار ادن میرے سینے سے لگ کرروتی رہی اور کہنے لگی ۔ لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہوگئی ۔اور پھر نہ جانے کب اس نے دنیا کوالوداع کہنے کا فیصلہ کرلیا ،کیوں کہ وہ کہتی ہے کہ میری وجہ سے میری بہن کو بھی والدین کی دہلیز پر بوڑھا ہونا پڑے گا۔

اسی لمحے وارڈ بوائے نے آکر بتا یا کہ لڑکی کو ہوش آگیا ہے ۔ مجھے سے پہلے اس کی ماں تیزی سے وارڈ میں چلی گئی اور بیٹی کو سینے سے لگا کر رونے لگیں۔ اتنے دیر میں اس کے والد بھی آگئے وہ ان سے مل کر پھوٹ پھوٹ کر روئی اور کہنے لگی ابو بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں ،آپ نے مجھے کیوں بچایا؟مجھے مرجانے دیا ہوتا۔اس کے والد خاموشی سے آنسو بہاتے رہے ۔اگلے روز وہ گھر چلی گئی ۔میں نے اپنی امی سے اس کا ذکر کیا اور اُس کی ماں کی بے بسی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ،امی کیوں نہ ہم اپنے دونوں بھائیوں کے لیے ان دونوں بہنوں کو بیا ہ لائیں۔

کچھ سوچتے ہوئے امی راضی ہوگئیں ،بھائیوں سے ذکر کیا تو اُنہیں بھی کوئی اعتراض نہ تھا ۔ میں نے اس کی والدہ سے رابطہ کیا اور اُن کی دونوں بیٹیوں کا ہاتھ مانگ لیا۔یہ خبر سنتے ہی اس کے والدین زاروقطار رونے لگے ،مگر اس بار ے یہ آنسو خوشی کے تھے ۔میںنے ان کو بتا یا کہ میرے دونوں بھائی ڈاکٹر ہیں اور وہ اس رشتے کے لیے تیار ہیں۔

آج وہ میری بھابیاں ہیں اور بہت خوش ہیں ۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لڑکیوں کے بھی احساسات اور جذبات ہوتے ہیں جب کوئی فیملی ان کو اس طرح ریجیکٹ کرتی ہے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہے ۔آپ کا انکار کسی کو اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس بارے میں لازمی غور کریں اور اس چیز کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔