جتنا نند بھاوج کا پیارا رشتہ، اتنا ہی فسادی

November 06, 2020

……(ایک نند کی ہلکی پھلکی باتیں)……

یہ قصہ ّ ہے ایک نند کا جو بھائی کی شادی کے وقت کنواری تھی اور کا لج میں زیرتعلیم تھی ۔گھر کے کام کاج کرنا بھابھی کی ذمے داری سمجھتی تھی لیکن جب خود کی شادی ہوئی تو احساس ہوا کہ ’’بھاوج ‘‘کا رشتہ کیسا ہوتا ہے لیکن اُسے کیسے نظر انداز کیا جاتا ہے ۔اس کا احساس ’’نند ‘‘ کے خیالات پڑھ کر آپ کو بھی ہو جائے گا ۔آج میں شادی شدہ ہوں، کل جو کسی کی چھوٹی نند تھی آج تین نندوں اور ایک دیور کی بڑی بھابی ہوں ۔ اب جو خود پر گزری ہے تو سمجھ آئی کہ پریکٹیکل لائف پھولوں کی سیج نہیں۔ ذمہ داریاں پڑ جائیں تو لاڈ پیار بھول جاتے ہیں، میچیورٹی آجاتی ہے۔ اب مجھےاپنی بھابی کے ساتھ گزارے ہوئے سال بہت یاد آتے ہیں۔جب وہ ہمارے گھر شادی ہو کر آئیں تو میں کالج میں پڑھ رہی تھی۔

ان کی ایک ایک بات ،رویے اور چہرے کے تاثرات کے معنی اب خود بھابھی بن کر سمجھ آتے ہیں ۔میں گھر میں سب کی لاڈلی تھی ،کالج میں اگر کوئی بات ہو جائے تو اس کا غصہ ،بہنوںکا غصہ گھر میں منہ پھلا کر ،موڈ بنا کر دکھاتی تھی ،بھابھی مجھے سے ڈرتے ڈرتے بات کرتیں کہ یوں نہ ہو غصے میں ان کے ساتھ بد تمیزی کر جائوں ۔آج جب میری نندیں میرے ساتھ ایسا کرتی ہیں تو مجھے سمجھ آتی ہے کہ بھابھی کو کتنا دکھ ہو تا ہو گا ۔جب اپنے سے چھوٹے سے ڈر کے احتیاط سے بات کرنی پڑے۔ جب پارٹی اور پکنک ہوتی تو بھائی سے خوب پیسے مانگتی تھی، لگتا تھا بھابی پریشان ہو رہی ہیں۔ ان کو جلانے کے لیے مزید ڈیمانڈ اور ضد کرتی۔

آج سمجھ آتی ہے جب میرے اپنے شوہر کو اپنے بہن بھائیوں کی پاکٹ منی، میرے اور گھر کے خرچے manage کرنا ہوتے ہیں۔ بھابی جلتی نہیں تھیں وہ اپنے شوہر کے لیے اداس ہو جاتی تھیں۔ جب غصہ آتا تھا تو میں بھائی سے اونچی آواز میں بات کرتی تھی۔ لاڈلی ہونے کی وجہ سے وہ مجھے پر غصہ نہیں کرتے تھے، سب سن لیتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ بھابی کو برا لگ رہا ہے۔ آج جب میرے شوہر کے بہن بھائی ان سے ذرا سی بدتمیزی کریں تو بھابی کا درد محسوس ہوتا ہے۔ میرے وہ بھائی سہی، بھابی کے لیے ان کے شوہر، سب سے معزز ہستی تھے۔

بھابی پر کچن کے کام کا لوڈ ہوتا تو میں مدد نہیں کرواتی تھی۔ میں سوچتی تھی یہ ان کی ہی تو ذمہ داری ہے۔ نہ امی ہم بہنوں کو کہتیں۔ اب جب میں تھک جاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میری ساس اپنی بیٹیوں کو ذرا سا مدد کرنے کا کیوں نہیں کہتیں، مجھے تھوڑا آرام ہی کرنے دیں۔ کاش میں بھابی کو تھوڑا آرام کرنے دیتی۔

میں جس بھی لہجےمیں بھابھی سے بات کرتیں تو وہ کبھی بھی کچھ نہیں کہتی تھیں ،میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ نند کے نخرے اُٹھا نا بھابھیوں کی ذمہ داری ہے ۔آج یاد آتاہے کہ اصل بات نند بھابی کی نہیں،بلکہ بڑے چھوٹے کی ہے۔ اگر بڑے کو چھوٹے سے پیار کرنا چاہیے تو چھوٹوں کو بھی بڑے کی عزت کرنی چاہیے۔ بڑی باجی جب رہنے آتی تھیں۔بھابی جب کچھ پکاتی، باجی کو کبھی نمک صحیح نہ لگتا، کبھی روٹیاں کچی، کبھی تیل کم۔ مجھے بھی بھابی پر غصہ آتا۔

اب محسوس ہوتا ہے کہ جب کوئی محنت سے کام کرے اور اس کو حوصلہ افزائی اور تعریف کے دو بول کی بجائے تنقید سہنی پڑے تو کیا بیتتی ہے۔بچے ہونے کے بعد جب بھابھی کا کمرہ بکھرا ہوا ہوتا تو میں سوچتی تھیں کہ یہ کتنی بد سلیقہ ہیں ۔ اب سمجھ آیا کہ جب پورے گھر کی ذمہ داری کندھوں پر ہو تو اپنے کمرے میں آکر صفائی کرنے کا نہیں ریسٹ کرنے کا دل چاہتا ہے۔ ایسی ہی کتنی ہی باتیں یاد آتی رہتی ہیں۔

اب کیا کر سکتی ہوں۔ آسانیاں نہ دے سکی، مشکلات خوب بڑھائیں۔ اور اب بھابی سے معافی مانگنے کی ہمت و حوصلہ نہیں ہے۔ جب اپنی زیادتیاں یاد آتی ہیں، الله تعالی سے معافی مانگتی ہوں۔جب امی کی طرف جاؤں بھابی کے لیے کوئی تحفہ لے جاتی ہوں۔ زیادہ دن کے لیے نہیں جاتی کہ ان پر بوجھ نہ ہو۔ جب بھی جاؤں ساتھ کچن میں مدد کروا دیتی ہوں۔

میری امی تو کہتی ہیں کہ اپنے گھر سے تھکی آئی ہو آرام کرلو۔ لیکن مجھے ایسے آرام میں کوئی راحت نہیں ملتی۔ رہنے جاؤں تو بھابی کو سبزیاں کاٹ کر فریز کر کے دے آتی ہوں۔ وہ کچن میں مصروف ہوں تو بچوں کا خیا ل کرلیتی ہوں ،ان کو پڑھا دیتی ہوں۔ کوئی نہ کوئی آسانی کر دیتی ہوں۔ بھابی میرے آنے سے بہت خوش ہوتی ہیں، بلکہ خود بار بار دعوت دیتی ہیں۔ امی ان سے میرے اور میرے شوہر کیے لیےخاص اہتمام کرنے کو کہتی ہیں لیکن میں ان سے سادہ کھانا ہی بنواتی ہوں۔ پھر خوب تعریف اور شکریہ ادا کرتی ہوں۔ چھوٹی بہن کو سمجھاتی ہوں کہ پڑھائی کرو لیکن اس کے ساتھ ساتھ گھر کے کاموں میں بھابھی کی مدد بھی کرو۔