روشن ضمیر شاعر اور مفکر

November 09, 2020

فاخرہ بانو ورک

حکیم الامت ،دانائے راز علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک روشن ضمیر شاعر اور مفکر تھے۔ ان کی شاعری ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حیاتِ نو کا پیغام لے کر آئی اور ان کے حکیمانہ افکار نے اقوامِ عالم میں اعتبار اور وقار کی سند حاصل کی۔ شاعری بحیثیت فن کبھی ان کا مطمح نظر نہیں رہی اور وہ یہی کہتے رہے کہ نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست۔ ان کی ترجیح وہ پیغام تھا جس سے وہ اپنی قوم کو بیدار کرنا چاہتے تھے اور اس پیغام کی ایک نمایاں جہت سعی و عمل کی تلقین تھی۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اقبال نے اپنے پیغام کی بنیاد دین مبین کی تعلیمات پر رکھی۔ بلاشبہ اس نے بے تعصبی اور کشادہ قلبی سے مشرقی و مغربی علوم کا دِقت نظر سے مطالعہ کیا لیکن ایک دعوے کی شکل میں واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ فکرِ اقبال قرآن حکیم سے مستنیر ہے۔

گرد لم آئینۂ بے جوہر است

ور بحرفم غیر قرآں مضمر است

روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا

بے نصیب از بوسۂ پاکن مرا

اسی کتابِ زندہ کا ایک تابندہ پیغام سعی پیہم اور جہدوعمل ہے۔ لیس للانسان الا ماسعی کے الفاظ انسان کو جستجو، کوشش اور تگ و دو کا روشن رستہ دکھاتے ہیں۔ وکل فی فلک یسبحون سے انسان کو تحرک کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا ہے اور کل یوم ہو فی شان اور کن فیکون سے تغیر و تبدل اور ارتقائے حیات کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اقبال نے اسی قرآنی پیغام کو اپنی فکر میں سمویا کہ تحرّک و تبدّل منشائے فطرت ہے۔

فریبِ نظر ہے سکون و ثبات

تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات

ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود

کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود

اقبال کہتے ہیں کہ زندگی حرکت اور عمل سے عبارت ہے۔ مقصدِ حیات محض علم نہیں بلکہ عمل ہے اور اس عمل کا کامل نمونہ سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اس اسوئہ حسنہ کی کامل پیروی ہی میں بقائے قوم ہے اور اس سے روگردانی بے توقیری کا باعث۔

تاشعارِ مصطفی ؐ از دست رفت

قوم را رمزِ بقا از دست رفت

علامہ اقبال کا کمرہ اور زیر استعمال اشیاء

اقبال نے اپنی حکیمانہ نظر سے ہندوستان کے مسلمانوں کے ملی و قومی امراض کی نشاندہی کی کہ مسلمانوں کے درخشاں ماضی کا سبب ان کی آبائواجداد کی محنت، کوشش، قوت عمل تھی اور اب ان کے زوال کا سبب ان کی سہل پسندی اور تن آسانی ہے۔ جوابِ شکوہ میں لکھتے ہیں:

تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

تقریباً یہی بات ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ میں فرماتے ہیں:

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیّارا

اقبال کی تاریخ عالم پر گہری نظر تھی اور وہ اقوام و ملل کے عروج و زوال کے اسباب سے بخوبی آگاہ تھے۔ چنانچہ ایک عالم گیر اصول بیان فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی قوم محنت و مشقت کو اپنا شعار بنائے رکھتی ہے ، ترقی کے زینے طے کرتی رہتی ہے اور جب عیش و عشرت کے رستے پر چل نکلتی ہے تو زوال اس کا مقدر بن جاتاہے۔

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر

علامہ اقبال کا نقطہ نظر تھا کہ تقدیر پرستی کے روایتی تصور نے بھی ہندوستان کے مسلمانوں میں بے عملی کو راہ دی ہے۔ انسان ایک زندہ اور متحرک قوت ہے اور اپنے افعال و اعمال کا ذمہ دار ہے۔ وہ اپنے ارادے اور عمل سے چار سو بدل سکتا ہے۔ چنانچہ ایک خطبے میں فرماتے ہیں:

’’انسان کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کی کائنات کی گہری آرزوئوں میں شریک ہو اور اس طرح خود اپنے مقدر اور کائنات کی تقدیر کی تشکیل کرے۔ کبھی وہ کائنات کی قوتوں سے اپنے تئیں مطابق بناتا ہے اور کبھی ان کو پوری قوت کے ساتھ اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالتا ہے۔ اس تدریجی تغیر کے عمل میں خدا خود اس کا شریک کار ہوتا ہے بشرطیکہ انسان کی طرف سے اقدام کیا گیا ہو۔ ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیر و امابانفسھم۔ اگر انسان کی طرف سے اقدام نہیں ہوتا اور وہ اپنے وجود کے قویٰ کو ترقی نہیں دیتا ،اگر وہ زندگی کے بڑھتے ہوئے دھارے کا زور محسوس نہیں کرتا، تو اس کی روح پتھر بن جاتی ہے۔‘‘

جہاں اگرچہ دگرگوں ہے قم باذن اللہ

وہی زمیں، وہی گردوں ہے قم باذن اللہ

کیا نوائے اناالحق کو آتشیں جس نے

تری رگوں میں وہی خوں ہے قوم باذن اللہ

اقبال نے اپنے چھٹے خطبے The Principal of Movement in the Structure of Islam میں اجتہاد کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کے زندگی کے بارے میں حرکی مطمح نظر کی طرف متوجہ کیا ہے۔ دراصل اقبال کا کہنا ہے کہ اسلام نے انسان کو خلیفتہ اللہ فی الارض کے ارفع منصب پر فائز کرکے اس کے لیے جہد وعمل کے در وا کر دیے ہیں۔ اسی بنا پر وہ مسجودِ ملائک ہے اور اپنی اسی قدرت، اختیار اور کوشش کی بنا پر یہ کہ سکتا ہے:

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

گویا اقبال انسان کو تسخیر فطرت کی تعلیم دیتے ہیں جو عمل صالح کے لیے بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں ’’روحِ اقبال‘‘ میں اس نکتے کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’اقبال کے عمل صالح کے تصور میں تسخیر فطرت شامل ہے۔ انسان اپنے عمل صالح کے ذریعے حرکت، حرارت، نور اور مادے کے ممکنات پر قابو پاتا اور اپنی قوت بڑھاتا ہے۔ تسخیر فطرت کی بدولت انسان حقیقی آزادی کا مزا چکھ سکتا اور جدت کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے علم کی قوت سے آسمانوں کے سینے شگاف کرتا اور جہانِ چارسُو پر اپنے بے پناہ عمل کا سکہ بٹھاتا ہے۔ انسانی آزادی اس کے علم اور اس کی لذتِ ایجاد ہی کا کرشمہ ہے۔‘‘

اقبال کے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی بے عملی کی ایک وجہ تصوف میں غیر اسلامی عناصر کی آمیزش بھی تھی۔ وہ حقیقی اسلامی تصوف کے مخالف نہیں تھے بلکہ سلسلہ قادریہ سے خود بھی تعلق رکھتے تھے لیکن وہ سمجھتے تھے کہ وہ تصوف جو ترکِ دنیا کی تعلیم دے اور مسلمانوں کو کشمکشِ حیات سے گریز اور فرار کی راہ دکھائے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی لیے وہ خود تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھنا چاہتے تھے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جابجا اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو حقیقی اسلامی تصوف کی روشنی میں بے عملی اور روایتی تقدیر پرستی کو ترک کرکے زندگی کی جدوجہد میں عملاً شریک ہونا چاہیے:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بُوئے رہبانی

یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

مختصر یہ کہ اقبال کے فلسفہ حیات میں حرکت و عمل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی کا خمیر ہی تغیر و تبدل سے اٹھایا گیا ہے، فطرت خود ہر لحظہ نئی آن اور نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہتی ہے لہٰذا یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ وہ صبح و شام تحرک اور تبدل کے عمل سے گزرتی ہیں اور جو قومیں سعی و عمل سے بیگانہ ہو جاتی ہیں وہ قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں:

وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا

جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے

وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا

جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے