’علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ‘ ان کی شاعری کا خلاصہ اطاعتِ رسولﷺ ہے

November 09, 2020

ڈاکٹر آصف علی چٹھہ

حکیم الامت شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال ایک عہد آفریں اور عالمگیر شخصیت تھے۔ اقبال اور مطالعہ اقبال کی متعدد منور جہات میں سے عشقِ رسول ﷺ سب سے ممتاز اور منفرد ہے۔ حضرت علامہ اقبال کو حضور ﷺ کی ذات گرامی سے ایک والہانہ عشق تھا۔ اقبال کے سوانح نگاروں نے اس ذوق و شوق اور قلبی شیفتگی کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ جناب وحید الدین فقیر لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے ممتاز، محبوب اور قابلِ ذکر وصف جذبہ عشق رسول اللہ ﷺ ہے۔

ذاتِ رسالتمآب ﷺ کے ساتھ انھیں جو عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشمِ نم ناک اور دیدۂ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضور ﷺ کا نام ان کے سامنے لیا۔ ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کا نام آتے ہی اور ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہو جاتے تھے۔ اسی لیے اقبال تمام مسلمانوں کو اسی سوز و ساز سے متصف دیکھنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔

سوز ِ صدیقؓ و علیؓؓ از حق طلب

ذرۂ عشقِ نبیﷺ از حق طلب

غلام بھیک نیرنگ کہتے ہیںکہ اقبال کا قلبی تعلق حضور سرور کائنات ﷺ سے اس قدر نازک تھا کہ حضور ﷺ کا ذکر آتے ہی ان کی حالت دگر گوں ہو جاتی۔ اگرچہ وہ فوراً ضبط کر لیتے تھے۔ چونکہ میں بارہا ان کی یہ کیفیت دیکھ چکا تھا۔ اس لیے میں نے ان کے سامنے نہیں کہا مگر خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور ؐ کے مرقد پاک پر حاضر ہوں گے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ وہیں جاں بحق ہو جائیں گے۔

شہید عشقِ نبی ؐہوںمیری لحد پہ شمع قمر جلے گی

اٹھا کے لائیں گے خود فرشتے چراغ خورشید سے جلا کر

اقبال فرماتے ہیں کہ جناب رسالتمآب ﷺ نظامِ حیات کی روح ہیں۔ عزتیں اور عظمتیں انھی کے درِ اقدس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ چنانچہ جو اس سراپا دین و ہدایت کے حضور رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ منزلِ مراد کو پاگیا اور جو محروم رہا وہ بولہبی میں گرفتار رہا۔

بمصطفٰیؐ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

دراصل قرآن فہمی اور سیرت ِ نبوی ﷺ کے عمیق مطالعہ کا فیضان تھا کہ اقبال اس راز کو پاگئے تھے کہ رسالت مآب ﷺ کائنات کا مرکز و محور ہیں۔ نیکی اور خیر کی تمام رعنائیاں یہیں سے مستیز ہیں۔ جاوید نامہ میں کہتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی رنگ و بو کا ظہور ہے اور جہاں بھی آرزو پروان چڑھتی ہے، سمجھ لو کہ یا تو اسے نورِ مصطفویٰ ﷺ کا فیضان حاصل ہے یا ابھی وہ تلاشِ مصطفوی میں سرگرم ہے۔

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

آں کہ از خاکش بروید آروز

یا زنورِ مصطفی ﷺ آں را بہا است

یا ہنوز اندر تلاش مصطفی ﷺ است

علامہ اقبال ؒ جب ملت اسلامیہ کے زوال و انحطاط کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ آج کے مسلمان کی بڑی کمزوری اسی آتشِ عشق کا بجھ جانا ہے۔ عالمِ کفر بھی مسلسل اسی نسبتِ محمدی کوکمزور کرنے میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ اقبال کے الفاظ میں بولہبی قوتیں اس کوشش میں ہیں کہ

یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو

فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

اقبال انھی منفی طاقتوں کو قوتِ عشق سے شکست دینا چاہتے ہیں اور اپنے فارسی اور اردو کلام کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں اسی آتش شوق کو تیز کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ سوز وگذار ، کیف و سرور اور محبت و عقیدت کی ایک لہر آپ کے تمام کلام میں جاری و ساری ہے۔ اقبال نے اس عشق و محبت کے اظہار میں کئی قرینے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً آپ ؐ کی عظمت و رفعت کے اظہار میں والہانہ محبت کا یوں اظہار کرتے ہیں:

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ

اقبال آنحضرت ﷺ کا مقام عبدیت ایک جگہ نہایت خوبصورتی سے یوں بیان کرتے ہیں۔

عبد دیگر عبدہ چیزے دگر

ما سراپا انتظار او منتظر

عبدہ چند و چگون کائنات

عبدہ راز درون کائنات

اقبال کو جب بھی حادثات زمانہ گھیرتے ہیں تو اقبال حضور ﷺ کی ذات گرامی کو ملجا وماویٰ سمجھتے ہوئے آپ ﷺہی کے حضور عرضِ نیاز کرتے ہیں۔

کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم

وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری

اسی طرح استغاثہ و استمدادکا یہ انداز بھی کتنا خوب ہے

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر

میری دانش ہے افرنگی میرا ایماں ہے زناری

محبت کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ محبوب سے وابستہ ہر ایک چیز محترم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اقبال بھی آپ ﷺ کی محبت میں غبارِ رہِ حجاز ہونے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ وہ اس زمینِ اقدس میں موت کے خواہش مند ہیں۔ مکہ و مدینہ یا روضۂ رسول کا ذکرِ خیر یا تصور اقبال کے لیے قلبی تسکین اور وارفتگی کا باعث ہے۔

خاک یثرب از دو عالم خوش تراست

اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست

پھر اقبال کا دل ان لوگوں کی محبت سے بھی لبریز نظر آتا ہے جن کے دل عشق رسول ﷺ سے منور اور تابندہ ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت بلال ؓ عشق و محبت کے ایسے نمونے ہیں جن کو اقبال نے خوب خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ ؓ اور حضرت امام حسنین کریمین ؓسے اقبال کی محبت دیدنی ہے۔ غازی علم الدین شہید اور عبدالقیوم شہید کی محبت رسول ﷺ سے متاثر ہو کر ’’لاہور اور کراچی‘‘ کے عنوان سے قطع لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدرو قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

اقبال کے عشق رسول ﷺ کے بارے میں مولانا سید مودودی ؒ کہتے ہیں کہ انھوںنے تمام فلسفہ اور عقلیت کو رسول عربی ﷺ کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ جن احادیث کو سن کر صرف نئے تعلیم یافتہ ہی نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا۔

مختصر یہ کہ حضرتِ علامہ اقبال کا حضورِ اقدس ﷺ کی ذات ِ اقدس سے ایک والہانہ قلبی تعلق تھا۔ اس پاکیزہ تعلق نے ان کے دل کو گداز کی دولت سے نواز رکھا تھا۔ اور وہ اسی دولت کو اپنے کلام کے ذریعے امتِ مسلمہ میں تقسیم کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب