وائٹ ہاؤس کا 46واں مکین ’’جوبائیڈن‘‘

November 11, 2020

سن دو ہزارمیں معمولی اکثریت کے ساتھ جب جارج ڈبلیو بش یا بش جونیئر امریکا کے صدر منتخب ہو ئےاور اقتدار سنبھالا تو دُنیا کو حیرت تھی کہ بظاہر احمق نظر آنے والا شخص بھی امریکا کا صدر بن سکتا ہے۔پھر اس وقت بش جونیئر کی اکثریت اتنی معمولی تھی کہ لوگوں نے سوچا ایسا امریکی نظام کی غلطی سے ہو اہے، اور بش جونیئر دوسری مرتبہ صدر منتخب نہیں ہو سکیں گے، مگر بش نے دو بڑی جنگیں شروع کیں ۔

ایک افغانستان اور دوسری عراق میں، پھر بھی 2004ء میں دوسری مرتبہ امریکا کے صدر منتخب ہو گئے۔بش جونیئر کے وہ آٹھ سال دُنیا کے لئے تباہ کن تھے اور اُن کے دوسری مرتبہ انتخاب نے یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کی پہلی جیت محض اتفاقی نہیں تھی بلکہ امریکی عوام کی بڑی تعداد ،ری پبلیکن پارٹی کی دائیں بازو کی قدامت پرستی اور قوم پرستی پر یقین رکھتی ہے۔

اسی طرح 2016ء میں امریکی صدارتی انتخاب نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کا صدر بنا دیا تو ایک بار پھر دُنیا اور خود امریکی عوام کی بڑی تعداد سناٹے میں آگئی تھی کہ نہ جانے یہ نیم پاگل شخص کیا گل کھلائے گا لیکن جس طرح بش جونیئر کا انتخاب کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا، اسی طرح ٹرمپ کا انتخاب بھی امریکی عوام کی کوئی انجانے میں غلطی نہیں بلکہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو تین نومبر 2020ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ سات کروڑ سے زیادہ ووٹ نہ لے پاتے۔ یاد رہے کہ یہ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں کسی امیدوار کو پڑنے والے ووٹوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔

حالیہ انتخابات میں ٹرمپ نے مجموعی ڈالے گئے ووٹوں کا سینتالیس فی صد حصہاپنےنام کیا ہے جو کہ نصف سے کچھ تھوڑا ہی کم ہے اور کل پچاس امریکی ریاستوں یا صوبوں میں سے چوبیس میں ٹرمپ کامیاب ہوئے، جن میں فلوریڈا اور ٹیکساس جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں۔پھر ایسا بھی نہیں کہ چار سالہ دورِ اقتدار میں ٹرمپ کی حرکتیں کسی سے ڈھکی چھپی ہوں۔ امریکی عوام کوئی اندھے بہرے تو نہیں انہوں نے سب دیکھا سنا اور پھر بھی اتنی بڑی تعداد میں ٹرمپ کو ووٹ دیئے۔

دراصل امریکی صدارتی انتخابی نظام کی غالباً سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی صدر منتخب ہوتے رہے ہیں جنہوں نے پاپولر یا عوامی ووٹ تو کم حاصل کئے مگر چونکہ ریاستی ووٹ زیادہ ہوتے ہیں اس لئے اس بنیاد پر جیت ممکن ہوتی ہے۔ہوتا یہ ہے کہ جن ریاستوں کی آبادی زیادہ ہے ان کے پاپولر اور الیکٹورل ووٹ دونوں زیادہ ہوتے ہیں لیکن اگر بڑی ریاستوں میں کوئی امیدوار 51 فی صد اکثریت سے جیتے تو اس کے سارے الیکٹورل ووٹ کامیاب امیدوار کو مل جاتے ہیں۔

جس سے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ پورے امریکا میں کم پاپولر ووٹ لینے والے بھی زیادہ الیکٹورل ووٹ کی بدولت صدر بن جاتے ہیں۔ امریکا میں2016ء کے انتخاب میں ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ کے مقابلے میں تیس لاکھ پاپولر ووٹ زیادہ حاصل کئے تھے اور اب یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی صدر لگاتار دوبار ووٹوں کی دوڑ ہار جائے۔ٹرمپ کا دور اس حوالے سے ضرور یاد رہے گا کہ نہ صرف انہوں نے عالمی سطح پر نقصان دہ اقدام کئے بلکہ عجیب و غریب بیانات بھی دیتے رہے۔ مثلاً ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ کسی کو گولی بھی مار دیں تو بھی ان کے ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ذرا سوچئے کیا کوئی معقول آدمی اس طرح کا بیان دے سکتا ہے۔ مگر بہت سے لوگوں کو ان کا یہی جارحانہ مزاج پسند آتا رہا۔

جوبائیڈن نے حالیہ انتخاب میں پنسلوانیا، وسکانسن اور مشی گن میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی اور وہی اُن کی جیت کا باعث بنی۔ ان ریاستوں میں غالباً لوگ ٹرمپ کے رویوں اور حرکتوں سے اُکتا چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے جوبائیڈن کو منتخب کیا۔پھر ٹرمپ بڑے کھل کر نسل پرستانہ بیانات دیتے رہے ۔مثلاً انہوں نے سفید فام اکثریت کو برتری پر یقین رکھنے والوں کی مذمت نہیں کی بلکہ انہیں تیار رہنے کیلئے کہا۔ اس طرح ٹرمپ بڑی بڑی شیخیاں بگھارتے رہے اور مسلسل خود اپنی تعریفیں کرتے رہے اوربار بار کہتے رہے کہ وہ سب سے ذہین ہیں، پھر مختلف سازشوں کا بھی ذکر کرتے رہے جن کا غالباً کوئی وجود نہیں تھا۔

ہارنے کے دوران بھی صدر ٹرمپ نے کسی شائستگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دھاندلی کے بارے میں بغیر شواہد کے دعوے کرتےرہے اور انصاف کا مطالبہ کیا پھر وہ طرح طرح کی ٹویٹ کرتے رہے جن میں قانونی اور غیر قانونی ووٹوں کے بارے میں نکات اٹھانے کی کوشش کرتے رہے اور پھر اعلان تک کر دیا کہ وہ انتخاب جیت چکے ہیں۔

پھر دعویٰ کیا کہ انہیں سات کروڑ دس لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ جو کہ انتخابی دھاندلی کے ذریعے کم کر دیئے گئے جو ان کے انتخابی عملے کو دیکھنے نہیں دیئے گئے۔ٹرمپ نے ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ لاکھوں افراد کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والے بیلٹ پیپر بھیجے گئے۔ جنہوں نے یہ مانگے بھی نہیں تھے۔لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو شکست میں کورونا وائرس سے امریکا میں ہونے والی ہلاکتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور لوگ ان کے انتظام سے خوش نہیں تھے۔ امریکا میں اب تک دو لاکھ تیس ہزار افراد کورونا کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں جو دُنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔

صدر بائیڈن کی جیت میں ایک اہم عنصر اس بات کا تھا کہ بائیڈن اپنے آپ کو ایک ایسے امیدوار کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہے جو تنازعوں سے مبرا تھا اور جسے لوگ پسند کرنے لگے تھے۔ بائیڈن پچھلے پچاس سال سے سیاست میں ہیں۔ اس دوران اُن کی شہرت مجموعی طور پر بہت اچھی رہی ہے۔ پھر لوگ ٹرمپ کے اس ’’تبدیلی‘‘ کے جھانسے سے بھی نکل گئے کہ وہ امریکا کو دوبارہ عظیم ملک بنا دیں گے۔

ٹرمپ نے امریکا کی ایک ایسی تصویر پیش کی تھی جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ پورا ملک تباہ ہو چکا ہے جسے صرف ٹرمپ ٹھیک کر سکتے ہیں،مگر ان کی صدارت میں متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ زیادہ متاثر ہوئے ۔ٹرمپ جیسے لوگ خود نہیں تبدیل ہوتے نہ ہی حالات سے کچھ سیکھتے ہیں بلکہ ایک ہی جیسے منتر پڑھتے رہتے ہیں کہ میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا،مگر کر کچھ نہیں پاتے صرف چند نمائشی نمونوں کے سوا ،پھر یہ خود سے اختلاف رکھنے والوں کو برداشت بھی نہیں کر پاتے، خود پے در پے تنازعوں کا شکار رہتے ہیں مگر یہ ماننے پر تیار نہیں ہوتے کہ ان میں صلاحیت ہے اور نہ ان لوگوں میں جنہیں انہوں نے اپنے اردگرد جمع کر رکھا ہوتا ہے۔

گوکہ ملکی معیشت کے حوالے سے ٹرمپ نے نسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی مگر مجموعی طور پر صرف معیشت کو پیمانہ بنانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مثلاً زیادہ تر فوجی آمروں کے دور میں معیشت کی مجموعی صورت حال بہتر نظر آتی ہے۔ جس میں آمروں کی صلاحیت سے زیادہ دیگر عوامل کا دخل ہوتا ہےجیسا کہ چلی کے آمر یپنوشے اور پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اور مشرف کے ادوار میں معاشی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا مصنوعی طور پر کیا گیا اور ان کے ادوار میں ملک کے سماجی تاروپود کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ری پبلیکن صدور نے دنیا کو زیادہ جنگوں میں جھونکا ہے۔ مثلاً صدر ریگن نے جنرل ضیاء الحق کی مدد سے پاکستان کو افغان جنگ میں جھونکا جس کے نقصانات ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔پھر ری پبلیکن صدر بش جونیئر نے جنرل مشرف کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایک اور افغان جنگ میں دھکیلا جس کے تباہ کن اثرات اب تک سامنے آرہے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی نے دُنیا بھر میں بشمول پاکستان کے قدامت پرستی کو فروغ دیا اور غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔ اگر کوئی فوجی آمر ان کے اشاروں پر چلتا رہے تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں کہ وہاں جمہوری حقوق کی کس طرح سے پامالی ہو رہی ہے۔ جس طرح صدر ریگن اور بش سینئر اور جونیئر دونوں کرتے رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی نظام میں کسی صدر کو دو مرتبہ سے زیادہ منتخب ہونے کی اجازت نہیں اس کا مطلب ہے کہ اگر ٹرمپ چاہیں تو 2024ء میں ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے انہیں دوبارہ ری پبلیکن پارٹی کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔صدر بائیڈن کی جیت میں ایک اور فیصلہ کن کردار ان کو نائب صدارت کی امیدوار کملا ہیرس نے بھی ادا کیا۔

وہ نہ صرف خواتین کے ووٹ بلکہ بڑی تعداد میں بھارتی ووٹ دلانے میں بھی کامیاب ہوئیں ۔ نائب صدارت کا عہدہ اس لئےزیادہ اہم ہے کہ بائیڈن اس وقت 78 برس کے ہیں اور ان کی صدارت کے بعد کملا ہیرس ایک موزوں صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آسکتی ہیں۔ جس کے لئے ان کا بھارتی نژاد ہونا بھارتی امریکیوں کے لئے بڑا معنی خیز ہو گا۔گو کہ جو بائیڈن تین مرتبہ صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر چکے تھے۔ تیسری کوشش میں وہ نہ صرف امیدوار بنے بلکہ میدان بھی مار لیا۔ پھر ٹرمپ کے غیر سائنسی رویے نے بھی بائیڈن کی خاصی مدد کی۔ ٹرمپ تو کھلے عام سائنسی طور پر ثابت شدہ حقائق پر سوال اٹھاتے رہے۔ مثلاً خود کورونا وائرس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلاتے رہے۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد سیاہ فام لوگوں کے غم و غصے نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بڑی تعداد میں مظاہرے ہوئے جس کے جواب میں ٹرمپ نے مزید جارحانہ رویہ اپنایا، جبکہ بائیڈن نے خاصا محتاط رویہ اختیار کیا۔ انتخابی مہم کے دوران بھی بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ تازہ دم نظر آئے۔ ٹرمپ نہ صرف تھکاوٹ کا شکار دکھائی دیئے بلکہ انہوں نے بڑی لاپروائی سے کام لیا اور مسلسل بدزبانی بھی کرتے رہے، جس کا بائیڈن کو فائدہ ہوا۔

اپنے چار سالہ دورِ صدارت میں ٹرمپ ایک ایسے صدر کے طور پر سامنے آئے جس نے انتشار کو ہوا دی اور معاشرے میں نسلی و معاشی تفریق کو مزید پھیلائو دیا جبکہ بائیڈن ایک پرسکون شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ بائیڈن نے کسی ایسے امیدوار کو نائب صدارت کے لئے نہیں چنا جو نسبتاً زیادہ بائیں بازو کی طرف جھکا ہوا ہو ،جن میں برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن شامل تھے۔ ان کے مقابلے میں کملا ہیرس نسبتاً معتدل سمجھی جاتی ہیں۔ بائیڈن ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی ٹرمپ کے غیر سائنسی رویے سے بہت دور تھے بلکہ انہوں نے برنی سینڈرز کے مؤقف کو اپنایا جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ بائیڈن صدر بننے سے پہلے ہی اپنی ٹیم تشکیل دے لیں گے اور اپنی کابینہ کا اعلان بھی کردیں گے، گو کہ امریکی صدر کو اعلیٰ عہدوں پر اپنے امیدوار نامزد کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

لیکن بہت سے سینئر عہدے ایسے ہی جن کے لئے سینیٹ کی توثیق کی ضرورت ہوتی ہے، صدر کے منتخب کردہ لوگوں کو سینیٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہو کر انٹرویو دنیا ہوتا ہے، بعد رائے شماری کے ذریعے انہیں مقرر یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔ویسے جو بائیڈن کے انتخاب جیتنے کے بعد پہلی تقریر نے بڑا اچھا تاثر قائم کیا ہے، انہوں نے قوم کو متحد کرنے کی بات کی ہے، ویسے بھی وہ تقریباً ساڑھے سات کروڑ ووٹ لے کر امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے صدر ہوں گے، سب سے اچھی بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی اپنے حریفوں کو دشمن تصور کرنا غلط ہوتا ہے۔ اسی طرح کملاہیرس نے بھی اپنی تقریر میں لوگوں کے زخم مندمل کرنے کی بات کی اور کہا کہ اخلاقیات اور سائنس کو اولیت دینا ہوگی۔ یہ دونوں اہم باتیں ہیں، جن سے دیگر ممالک بھی کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔کملا ہیرس نہ صرف پہلی خاتون نائب صدر ہیں بلکہ پہلی افروایشیائی بھی ہیں۔ ان کے والد افریقی نژاد اور والدہ بھارتی نژاد ہیں۔

بائیڈن کی کامیابی سے دُنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں کیا توقعات کی جا سکتی ہیں

پاکستان

توقع ہے جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کریں گے

سابقہ ڈیموکریٹک صدر اوباما نے اس خطے میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی تھی بلکہ افغان جنگ کے خاتمے کیلئے پہلے اپنی فوجیوں کی تعداد بڑھائی اور پھر کم کی۔اس لئے توقع کی جانی چاہئے کہ صدر بائیڈن پاکستان میں جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کہ صدر اوباما نے جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد پاکستان میں کیری لوگر بل کے ذریعے بڑی امداد دی تھی جو سویلین شعبوں جیسے تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے تھی اور اس میں فوجی امداد کا پہلو تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ جوبائیڈن سے توقع کی جانی چاہئے کہ ایک بار پھر پاکستان کے لئے بڑے امدادی منصوبے کا اعلان کریں ،ساتھ ہی تجارت میں پاکستان کی مدد کریں اور پاکستان پر سی پیک سے الگ ہونے کے لئے ٹرمپ کا دبائو ختم کریں۔

افغانستان

امن کی بحالی بلکہ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی کام ہونے کی توقع ہے

افغانستان کے حوالے سے بائیڈن سے توقع کی جا سکتی ہےکہ وہ نہ صرف امن کی بحالی بلکہ اس کی تعمیر و ترقی کے لئے بھی کام کریں گے۔ اس سے قبل 1992ء میں منتخب ہونے والے امریکی صدر نے سب سے بڑی غلطی یہ کہ تھی کہ افغانستان کے معاملات سے امریکا کو بالکل الگ کر لیا تھا اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیاتھا، گوکہ اس میں افغان مجاہدین کا بڑا دخل تھا، جو آپس میں دست و گریباں رہے اور کوئی مستحکم قومی حکومت تشکیل نہ دے سکے۔اب بائیڈن کو وہ غلطی نہیں دہرانی چاہئے اور اب تک جو اربوں ڈالر امریکا افغان جنگ پر خرچ کر چکا ہے اس کے بجائے اتنے ڈالر اگر افغانستان کی تعمیر و ترقی پرخرچ کئے جائیںتو طالبان کا خطرہ ختم ہو سکتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ افغان طالبان کابل پر حملے کر رہے ہیں،جس کا امریکا کو نقصان کم اور افغان عوام کو زیادہ ہو رہا ہے۔

چین

کیا چین امریکی تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے اور کشیدگی کم ہوگی

صدر ٹرمپ نے چین کی طرف بڑا ہی معاندانہ رویہ رکھا تھا اور اس کے خلاف آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کو ملا کر ایک چار فریقی اتحاد بنانے کی کوشش کی۔ نہ صرف یہ بلکہ چین نے پاکستان کو سی پیک میں شامل کر کے یہاں جو منصوبے شروع کئے ان کی بھی مخالفت کی۔اب بائیڈن سے توقع کی جانی چاہئے کہ وہ چین کی جانب اپنا رویہ تبدیل کریں گے اور مل جل کر چلنے کی پالیسی اپنائیں گے۔ اس خطے کو ایسی پالیسی کی ضرورت نہیں جس میں آپ یاچین کے ساتھ ہوں یا امریکا کے ساتھ بلکہ ایسی حکمت عملی بنانے چاہئے جس میں سب مل کر اس خطے کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ٹرمپ کو چین کو گھیرنے کی پالیسی یا اس پر پابندیاں لگانے کی پالیسی اب ختم ہونی چاہئے۔ چین نہ صرف ایک بڑی طاقت ہے بلکہ امریکا کے ساتھ تجارت میں اس کا بہت بڑا حصہ بھی ہے۔ دونوں معیشتیں ایک دوسرے پر بڑی حد تک انحصار بھی کرتی ہے۔ اس لئے ممکنہ طور پر بائیڈن کی جیت سے چین امریکی تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے اور کشیدگی کم ہوگی۔اس کے ساتھ بائیڈن کو چین میں انسانی حقوق کے بارے میں امریکی مؤقف میں تبدیلی لانی ہو گی، گو چین کا ماضی اس سلسلے میں کچھ اچھا نہیں رہا مگر امریکا ایسے دوستوں کو رعایت دیتا رہتا ہے۔ جو بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ماضی رکھتے ہیں۔ مگر چین پر امریکا بہت شور مچاتا رہتا ہے ، اس رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

بھارت

کیا بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں میں کمی ہوسکتی ہے

بائیڈن کے آنے کے بعد امریکا کو بھارت کی جانب پالیسی میں بڑی تبدیلی کا امکان تو نہیں ہے، مگر جس طرح ٹرمپ نے مودی کو بڑھاوا دیا اور اس کی ہمت افزائی کی اس سے اجتناب کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔گزشتہ اگست میں بھارت نے مودی کی قیادت میں کشمیر کو یکطرفہ اور خود بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کا اعلان کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس معاملے میں گو کہ بائیڈن سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بھارت کو کشمیر سے نکال باہر کریں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ٹرمپ نے بھارت کی مذمت میں ایک لفظ نہیں کہا، اس رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

امریکا کی طرف سے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں میں کمی آنی چاہئے۔ اس خطے کا مستقبل اچھے باہمی اور ہمسائیگی کے تعلقات میں ہے۔ بھارت پاکستان اور چین اس خطے کے اصل باسی اور وارث ہیں، نہ کہ امریکا جیسے اس خطے کو مزید جنگ میں جھونکنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔اگر امریکا بھارت پر سے فوجی امداد کا ہاتھ اٹھا لے تو اس خطے میں نسبتاً بہتری کی توقع ہے لیکن چونکہ امریکا دنیا بھر میں اسلحہ کی تیاری اور فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے اس لئے خطے میں بھی کشیدگی کا فائدہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔ اس معاملے میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن دونوں جماعتیں یکساں رویوں کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں، اس لئے تبدیلی کا امکان کم ہے۔

ایران

اُمید ہے، سابق صدر اوباما کے معاہدے بحال کریں گے، ایران کو دوبارہ عالمی مرکزی دھارے میں لانے کا موقع فراہم کیا جائے گا

ٹرمپ نے ایران سے بھی معاہدہ ختم کر کے اس خطے میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچایا۔ گوکہ پچھلے ڈیموکریٹک صدر اوباما نے ایران سے معاہدہ کر کے عربوں کی ناراضی مول لی تھی لیکن وہ ایک اچھا قدم تھا۔ عرب ممالک نہیں چاہتے کہ ایران پر سے پابندیاں ختم ہوں اور اس کے عوام معاشی مشکلوں سے باہر نکلیں۔عرب ممالک ایران کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ایران عربوں کو ،جس کا فائدہ امریکا کو ہوتا ہے ،کیوں کہ وہ اربوں ڈالر کے ہتھیار عربوں کو سالانہ فروخت کرتا ہے۔

اب توقع کی جانی چاہئے کہ بائیڈن صدر بننے کے بعدسابق صدر اوباما کے معاہدے بحال کریں گے اور ایران کو دوبارہ عالمی مرکزی دھارے میں لانے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔بہرحال بائیڈن کی جیت نے دنیا میں ایک بہتر ماحول کی توقع پیدا کی ہے۔ ٹرمپ کی بے قوفیوں سے دُنیا کو خاصا نقصان ہو چکا ہے اور اب جیساکہ خود بائیڈن اور کملا ہیرس نے کہا زخموں کو مندمل کرنے کی ضرورت پر پاکستان کو چین اور امریکا سے تعلقات میں توازن رکھنا ہو گا اور طالبان کو غیر مشروط حمایت کی پالیسی ترک کرنی ہو گی۔ اس خطے کے مستقبل میں ہمیں جدید جمہوری قوتوں کی ضرورت ہے نہ کہ قرونِ وسطیٰ کی سوچ اور رویوں کی جو طالبان کا خاصہ ہے۔