کیا عبدالقادر بلوچ پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں گے؟

November 12, 2020

پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں کوئٹہ کے 25 اکتوبر کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسہ کے بعد سے شروع ہونے والا بحران پارٹی کے صوبائی صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے مختلف صوبائی و ضلعی عہدیداروں سمیت پارٹی سے دس سالہ رفاقت کے عین توقعات کے مطابق خاتمے کے ساتھ پارٹی سے علیحدگی کی صورت میں ختم ہوگیا ، 7 نومبر کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی جانب سے کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار پر بلائے جانے والے ورکرز کنونشن میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ خان زہری بھی پارٹی کی سنٹرل کمیٹی سے مستعفی ہوگئے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور نواب ثنا اللہ خان زہری کا یہ فیصلہ کسی صورت غیر متوقع نہیں تھا بلکہ ان کے فیصلے کی بہت دن پہلے سے توقع کی جارہی تھی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے ان دونوں سابق رہنماوں کا پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد مختلف حوالوں سے سخت موقف سامنے آنے کے بعد پارٹی کی مرکزی قیادت کا بھی اسی انداز میں سخت موقف سامنے آنے کے بعد واضح ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے دونوں سابق رہنماوں کی پارٹی میں مزید رہنے کے امکانات ختم ہوگئے ، تاہم بعض سیاسی حلقوں میں اس توقع کا اظہار کیا جارہا تھا کہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے دونوں ناراض رہنماوں سے رابطہ کرکے شائد مسلے کو سیاسی انداز میں حل کرلیا جائے گا ، مگر اس دوران پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے دونوں رہنماوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا جس کا اظہار دونوں رہنماوں نے کوئٹہ میں ورکرز کنونشن میں بھی کیا۔

جب دونوں جانب سے سخت موقف اختیار کیا گیا تو یہ بات قریب طے ہوگئی تھی کہ بلوچستان کے دونوں رہنما جلد مسلم لیگ (ن) سے الگ ہوجائیں گے اور ایسے ہی ہوا ۔ 7 نومبر کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی جانب سے کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار پر بلائے جانے والے ورکرز کنونشن میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ خان زہری اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے اپنے بیانیہ کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ کنونشن میں نہائت سخت موقف اختیار کیا دونوں رہنماوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2010 میں دونوں رہنماوں نے اپنی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت سے 25 اکتوبر 2020 کے کوئٹہ جلسہ تک پارٹی کے لئے خدمات کا جہاں اظہار کیا وہیں میاں نواز شریف پر بے وفائی اور ان کی جانب سے ڈسے جانے جیسے سنگین الزامات بھی عائد کیے۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری نے کنونشن سے اپنے خطاب میں میاں نواز شریف کو بار بار کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب میں نے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) میں ضم کی تھی تو میرے حلقہ احباب سمیت سب نے کہا تھا کہ نواز شریف بے وفا ہیں وہ استعمال کرکے چھوڑدیں گے ، اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں بھی دوستوں نے مجھے کہا تھا کہ نواز شریف بلوچستان میں اپنی حکومت نہیں بنائیں گے لیکن میں نے ان کی بات نہیں سنی اور اپنے بیٹے ، بھائی ، بھتیجے سمیت ساتھیوں کی قربانی دی ، 2013ء کے الیکشن کے بعد جب چوہدری نثار کوئٹہ آئے تو انہوں نے خود تسلیم کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو صوبے میں توقع سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔

اسی دوران کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کی جانب سے مجھے پارلیمانی لیڈر نامزد کیا گیا جب ہم اسمبلی کی رکنیت کا حلف لے رہے تھے تو فون آیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ اور محمود خان اچکزئی جسے کہیں گے اسے گورنر بنایا جارہا ہے چوہدری نثار علی نے مجھے فون کرکے یہ بتایاتو میں نے چوہدری نثار علی سے کہا کہ جی ٹی روڈ کی سیاست ہوگی تو ہم اس سیاست کو نہیں ما نیں گے پھر جب 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا بلوچستان میں ٹکٹ لینے کو کوئی تیار نہیں تھا اس وقت بھی ہم ہی تھے جنہوں نے پارٹی کیلئے جدوجہد کی ، ہم نے آخری دم تک نوازشریف کا ساتھ دیا لیکن نواز شریف نے بے وفائی کی ، ہم نے کبھی پارٹی سے شکوہ نہیں کیا لیکن جو سلوک ہمارے ساتھ روا رکھا گیا وہ بیچ چوراہے پر لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے ۔

اب مسلم لیگ (ن) میں واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،میرا نواز شریف سے کوئی واسطہ نہیں اگر مسلم لیگ (ن) ڈی سیٹ کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی خواہش پوری کرلے دوبارہ الیکشن لڑوں گا اور حلقے کے عوام یہ ثابت کریں گے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں یا میرے ساتھ ہیں ،اپنے خطاب میں انہوںنے سردار اختر مینگل کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور نواب ثنااللہ زہری نےاگرچہ اب تک اپنے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے کسی قسم کے فیصلے کا اعلان تو نہیں کیا ہےلیکن آئندہ چند دنوں میں ساتھیوں کی مشاورت سےکوئی فیصلہ کرنے کا عندیہ ضرور دیا ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ سے ان کے مسلم لیگ (ن) سے باقاعدہ مستعفی ہونے سے چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر حاجی علی مدد جتک نے ملاقات کرکے انہیں پارٹی کی قیادت کی جانب سے پی پی پی میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی اور پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر حاجی علی مدد جتک اس حوالے سے بڑے پرامید نظر آتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے مستعفی رہنما جلد ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں گے۔

بلوچستان میں سابق دور میں نواب ثنااللہ زہری کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک اور کامیاب ہوئی تو تب مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی اکثریت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور 2018 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے ان رہنماوں کی اکثریت نے صوبے میں بننے والی نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور 2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی میں 22 نشستیں رکھنے والی جماعت 2018 کے انتخابات میں صرف نواب ثنا اللہ خان زہری کی نشست حاصل کرسکی تھی۔ ایسے میں مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت کو اب یقینی طور پر بلوچستان میں پارٹی کو ایک بار پھر منظم اور فعال کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔