اپوزیشن متحد: حکومت کو پھر بھی کوئی خطرہ نہیں

November 12, 2020

2018 ء کے قومی انتخابات میں’’تبدیلی‘‘ کا عزم لے کر منتخب ہونے والی حکومت 26 ماہ گزرنے کے باوجود عوام کو مطمئن نہ کر سکی، معاشی صورتحال اور مہنگائی میں شدید اضافے کی وجہ سے عوام سخت بیزار ہیں، ملک کی دس سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف جلسوں کا پہلا مرحلہ مکمل کر چکی ہے جبکہ دوسرے مرحلے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، غیر متنازعے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے متحد ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت کو اس وقت تک کوئی خطرہ نہیں جب تک اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھڑی ہے، پاکستان کے عوام اپنی فوج کے خلاف بات کرنا ’’گناہ‘‘ سمجھتے ہیں، اپوزیشن، وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کر کے نئے انتخابات کی راہ دیکھا رہی ہے۔

گوجرانوالہ میں منعقدہ پہلے جلسہ عام میں (ن) لیگ کے قائد تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے نواز شریف نے اپنے خطاب میں براہ راست الزام تراشی کر کے پی ڈی ایم کے جماعتوں میں دراڑ پیدا کر دی ہے ،جس نے پی ڈی ایم کی پہلے مرحلے میں جمع ہونی والی سیاسی طاقت کو کسی حد تک منتشر کر دیا ہے، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس دراڑ کو پر کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی ،اے این پی، قومی وطن پارٹی اور جمعیت اہل حدیث نے نواز شریف کی طرف سے فوجی حکام کے نام لینے پر اعتراض کر دیا، ان کا موقف تھا کہ فیصلہ ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے کمیشن بنانے پر زور دیا جائے گا ،انفرادی طور پر کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا، پاکستان مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ جب ہم سب موجودہ حکومت کو ’’سلیکٹیڈ‘‘ کہتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ’’سلیکٹرز‘‘ کون ہیں؟

مولانا فضل الرحمان نےکہا کہ کسی ادارے یا شخص کا نام لینے کا کوئی مسئلہ نہیں وہ 13 نومبر اور 14 نومبر کو پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی اور سربراہی اجلاس طلب کر کے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، زیادہ دور کی بات نہیں، آئندہ دو تین دنوں میں اپوزیشن یکجہتی کا راز کھل جائے گا ،پیپلز پارٹی مخالف سیاسی حلقے بلاول بھٹو زرداری کے تحفظات کو اسٹیبلشمنٹ سے دوری ختم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو دونوں بڑی جما عتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہیں تو دوسری طرف دونوں جماعتیں گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی مخالفت کی بجائے اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں مہم چلا رہی ہیں بلاول بھٹو زرداری تو کئی دنوں پہلے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کیلئے چلے گئے تھے جبکہ مریم نواز 6 نومبر سے 11 نومبر تک جی بی میں موجود رہیں۔

دونوں نے وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے وفاقی وزراء کے گلگت بلتستان میں نہ صرف انتخابی مہم پر اعتراضات اٹھائے بلکہ وفاقی حکومت پر انتخابات سے قبل دھاندلی کے الزامات سے بھی گریز نہیں کیا ،سیاسی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ جی بی میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کی صورت میں دونوں جماعتیں نہ صرف تحفظات کا اظہار کریں گی بلکہ ممکن ہے کہ نتائج ماننے سے ہی انکار کر دیں، وزیراعظم عمران خان کا الزام ہےکہ نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر فوج کو آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا، ان سے بڑا ملک دشمن کون ہو گا، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم اپنی پارٹی کو کسی طرح کے بھی رابطوں سے منع کر چکے ہیں، مگر رابطے ابھی تک موجود ہیں، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنا انہی رابطوں کا حصہ ہے، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز روزانہ اپوزیشن کے خلاف بیٹھک لگانا ضروری سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہےکہ نواز شریف کے خطاب پر بلاول بھٹو کا اعتراض درحقیقت عدم اعتماد ہے۔

پی ڈی ایم پٹ چکی ہے ،کس تحریک کو آئے روز نئے میثاق کی ضرورت ہو تو اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، مولانا فضل الرحمان کو احساس ہونا چاہیے کہ معاشی بحران پیدا کرنے والے ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، موجودہ حکومت انشاء اللہ نہ صرف اپنا اقتدار مکمل کرے گی بلکہ آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت میں کامیاب ہو گی ،معاشی اعشاریے مثبت ہو رہے ہیں، جلد بحران سے نکل جائیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے، اپوزیشن لوٹ مار کر کے قومی خزانے سے دولت بیرون ملک منتقل کرنے والے نواز اور زرداری کو بچانے کے لیے نکلی ہوئی ہے، این آر او نہیں دیں گے، عوام ہمارے ساتھ ہیں، ان کی جلسیوں میں شریک نہ ہو کر عوام نے ہماری غیر اعلانیہ حمایت کر دی ہے ، وزیر اعظم اس عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ لوٹ مار کرنے والے کسی لیڈر کو بھاگنے نہیں دینا۔

نواز شریف کو بھی لندن سے واپس لا رہے ہیں، سیاسی ڈاکے مارنے والے باقی لوگ بھی تیار رہیں ، باری باری سب جیلوں میں جائیں گے۔ اپوزیشن میں موجود دراڑوں تو سامنے آگئی ہیں، حکومتی حلیفوں کے تحفظات بھی چھپے نہیں رہے ،وزیر اعظم کے ظہرانہ میں (ق) لیگ نے شریک نہ ہو کر گلے شکوے کا سخت پیغام پہنچا دیا ،تاہم ساتھ رہنے کا بھی عندیہ دے کر اسٹیبلشمنٹ سے تعلق بھی برقرار رکھا، وزیر اعظم کے ظہرانے میں پیر پگاڑا ،جام صادق اور ایم کیو ایم نے بھی کھل کر گلے شکوے کیے ،وزیر اعظم نے حلیفوں کو یقین دہانی کرائی کہ مہنگائی پر قابو پانے اور مسائل کے حل کے لیے طریقہ کار وضع کر لیا گیا ہے، اپوزیشن سے مذاکرات تو چاہتا ہوں مگر لوٹ مار معاف نہیں کر سکتا ، سیاسی مخالفین نے ملک بھر میں سرکس لگا رکھی ہے پیسہ واپس لیے بغیر کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔

وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے سوال اٹھایا ہے کہ نئے چارٹر آف ڈیمو کریسی کی بات کرنے والے بتائیں کہ میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کا کیا بنا؟ علماء بھی اس بات کے حامی ہیں کہ سلیکشن کا الیکشن میں خاتمہ ہونا چاہیے ،امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کی کامیابی کے خلاف ٹرمپ مصروف احتجاج ہے، مشیر اطلاعات پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے فتویٰ جاری کر دیا ہے کہ جب ٹرمپ نتائج سے مطمن نہیں تو ہمارے مخالفین کیسے مطمن ہو سکتے ہیں ؟ کورونا کیسز جاتے جاتے ایک بار پھر روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، جس نے وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں کئی مقامات کو لاک ڈائون پر مجبور کر دیا ہے۔