پلاسٹک، ماحولیاتی آلودگی بڑھانے کا ذریعہ

November 15, 2020

زمین پر اس وقت جا بجا پلاسٹک بکھرا ہوا نظر آتا ہے، جسےزمین سے حاصل ہونے والے ’فوسل فیول‘ سے تیار کیا جاتا ہے۔ زمین سے نکلنے والی توانائی سے حاصل کیا جانے والا پلاسٹک استعمال کے بعد زمین پرہی پھینک دیا جاتا ہے اور بعد میں کھیتوں کھلیانوں اور زیرِ سمندر اس کے ڈھیر بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ پلاسٹک سمندر میںآلودگی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ زمین سے اُگنے والی خوراک کو بھی زہریلا بناتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال 500ارب پلاسٹک کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں جو آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں میں ہر سال 8.8 ملین ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پھینکا جاتا ہے اوراس میں سے 60 فیصد آلودگی کا ذمہ دار بھارت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ اگر صورتحال کنٹرول نہ کی گئی تو 2025ء تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پر مشتمل کچرا موجود ہوگا۔

اعداد وشمار کے مطابق سالانہ بنیادوں پر تقریباً 300 ملین ٹن پلاسٹک استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ اس میں سے اوسطاً آٹھ ملین ٹن پلاسٹک سمندر میں داخل ہو رہا ہے۔ سمندر میں اس پلاسٹک کی مقدار مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر کے سمندروں میں اس وقت 15 کروڑ ٹن پلاسٹک موجود ہے اور ہر سال 10 لاکھ پرندے اور ایک لاکھ سے زائد سمندری جاندار اس پلاسٹک کو کھانے یا اس میں پھنسنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 90 فیصد کے قریب آبی پرندے پلاسٹک کھا لیتے ہیں، جس کی کافی مقدار اُن کی آنتوں میں جمع ہو جاتی ہے۔

ڈبلیو ای ایف کے تحقیق کار ایرک وان سیبل کے مطابق،’سمندر اب پلاسٹک سے بھر چکے ہیں اوریقینی امکان ہے کہ 2050ءمیں اگر کوئی مُردہ آبی پرندہ ملتا ہے تواس کے معدے میں پلاسٹک کی کچھ مقدار ضرور موجود ہوگی‘۔ سمندر میں جانے والا پلاسٹک وہیں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہم جو سمندری حیات اور سمندری نمک استعمال کرتے ہیں، اس کے ذریعے وہ واپس ہم تک پہنچ جاتا ہے۔ 2017ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق انڈونیشیا اور کیلیفورنیا کی مارکیٹوں میں دستیاب مچھلیوں کے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ 25 فیصد مچھلیوں کے پیٹ میں پلاسٹک اور پلاسٹک کے مصنوعی ذرات موجود تھے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق امریکا، یورپ اور چین کے سمندری نمک میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات حیران کن نہیں کہ سمندر میں پایا جانے والا 60 سے 80 فیصد کباڑ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ہم جو دیگر مصنوعات جیسے ٹوتھ پیسٹ، فیس واش، کاسمیٹکس آئٹمزاور پلاسٹک کی بوتلوں میںپانی اور سوفٹ ڈرنکس استعمال کرتے ہیں، ان میں بھی پلاسٹک کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق حیران کن طور پر شہد بھی اب پلاسٹک سے محفوظ نہیں رہا۔ یورپی یونین کی جانب سے سامنے آنے والی پلاسٹک اسٹریٹجی تحقیق میں شہد بھی ان مصنوعات کی فہرست میں شامل کیا گیا، جس میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا۔ اس کے علاوہ سائنسدانوں نے مختلف ممالک میں نل کے پانی کا معائنہ کیا تو 80فیصد نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ امریکا میں 94 فیصد جبکہ جرمنی اور برطانیہ میں 70 فیصد نمونے پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ پائے گئے۔ ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پلاسٹک کس طرح زمینی اور آبی حیات میں سرائیت کرتا جارہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پلاسٹک کی آلودگی زمین کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے، جسے محفوظ بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرروت ہے۔ تاہم، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پلاسٹک سے چھٹکارا پانا آسان عمل نہیں ہوگا۔

پاکستان میں پلاسٹک کی تھیلیاں

پاکستان میں باریک پلاسٹک کی بنی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی کے باوجود ان کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے۔ پاکستان کی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر سال ملک میں پلاسٹک کی تھیلیوں ، جنھیں عرف عام میں ' ’شاپر‘ کہا جاتا ہے، کی تعداد 15 فی صد بڑھ رہی ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں نا صرف سیوریج لائنوں میں رکاوٹ کی وجہ سے نکاسی آب کے نظام میں خلل کا باعث بنتی ہیں، بلکہ انہیں جلانے کی وجہ سے زہریلی گیسوں کا اخراج بھی ہوتا ہے، جو شہریوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ملک میں پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے کارخانوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد ہے اور ان میں ہر ایک اوسطاً روزانہ 250 سے 500 کلو گرام پلاسٹک کی تھیلیاں بنا رہا ہے۔

استعمال کے خلاف اقدامات

گزشتہ کچھ عرصے سے ری سائیکل نہ ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین نے اس حوالے سے مثبت قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یورپی یونین 2030ءتک ایسا پلاسٹک لانے کا منصوبہ رکھتی ہے، جو بار بار ری سائیکل کیا جاسکے گا۔ اس طرح ایک بار ری سائیکل کے قابل پلاسٹک پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جائےگی۔اس کے علاوہ افریقا سے تعلق رکھنے والے دو ممالک کینیا اور روانڈا بھی پلاسٹک مصنوعات کے استعمال کو جرم قرار دے چکے ہیں، جہاں اس جرم کے مرتکب افراد کو جیل کی سزا ہوسکتی ہے۔