غزل

November 22, 2020

آمنہ رُمیصاء زاہدی

یہ جو اشعار ہیں، کہانی ہے

دشمنِ جاں کی مہربانی ہے

ہم کو شکوہ تھا وقت کم ہے بہت

زُلف جاناں میں پیچ و خم ہے بہت

اُس پہ اغیار کا ستم ہے بہت

زندگی سخت اور غم ہے بہت

یہ بھی گزری کہانی ہے

دشمنِ جاں کی مہربانی ہے

جو ترستے تھے اُن کی صُورت کو

تکتے بیٹھے ہیں اُن کی مُورت کو

اب کہ نکلیں گے بس ضرورت کو

صاف کر لیں ہر اِک کدورت کو

ساتھ رہنے کی اب جو ٹھانی ہے

دشمنِ جاں کی مہربانی ہے

شہر پہ راج ہے بلاؤں کا

رقص ہے موت کی گھٹاؤں کا

سلسلہ قدر کا قضاؤں کا

کہہ رہا ہے یہ رُخ ہواؤں کا

تیری چاہت بھی آزمانی ہے

دشمنِ جاں کی مہربانی ہے

عاشقانہ مزاج پایا ہے

اُس پہ کچھ شاعروں کا سایا ہے

انتہائی جنوں خُدایا ہے

شوق تنہائی نے بڑھایا ہے

یہ جو غزلوں پہ پھر جوانی ہے

دشمنِ جاں کی مہربانی ہے

ٹھہری ٹھہری ہے زندگانی بھی

تھم گئ موج کی روانی بھی

اُبلا اندر کا صاف پانی بھی

یوں کہو کہ یہ ناگہانی بھی

اِک نئے سلسلے کی بانی ہے

دشمنِ جاں کی مہربانی ہے