حاکم نہیں، نگراں بنیں

November 22, 2020

کائنات غزل

’’یہ کیا …جب دیکھو تم اپنے بچّوں کا سایا بنی ہوتی ہو، تمہیں اورکوئی کام نہیں ہے کیا؟‘‘ ہم نے پلٹ کر بہت غور سے اُن خاتون کو دیکھا،جو خود بھی ماں کے درجے پر فائز تھیں۔ سوال عجیب تھا، مگر یہ سوال کرتے ہوئے وہ ہمیں بالکل عجیب نہیں لگیں، کیوں کہ وہ بھی اِسی معاشرے کا حصّہ ہیں، جس میں ماؤں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ اولاد کو اچھا کھلانے پلانے، عُمدہ لباس پہنانے،معیاری اسکول میں اُن کا داخلہ کروانے، بہترین ٹیوشنز مہیا کرنے اور سال میں ایک بار اسکول جا کر پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں شریک ہوجانے سے ایک بہترین ماں ہونے کا فرض ادا ہوجاتا ہے۔

عام طور پر ہمارے معاشرے کا یہی چلن ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بچّوں کو اس سے تھوڑا زیادہ وقت دے دے، مثلاًہفتہ دس دِن میں بچّے سے اُس کی پراگریس رپورٹ لے لے، تو اس کا شمار’’ذمّے دار والدین‘‘ کی کیٹیگری میں ہونے لگتا ہے۔ عام سوچ یہی ہے کہ شاید اس سے زیادہ کی کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔ایسے ماحول میں اگر کوئی ہماری طرح اپنا سارا وقت بچّوں کو دینے لگے، بلکہ پوری ہستی ان کے لیے وقف کردے تو پھر اس طرح کے سوال اُٹھنا قطعاً عجیب نہیں لگتا۔

اللہ تعالیٰ نے اولاد کی صُورت والدین کو دُنیا کا سُکون، آخرت کا توشہ عطا فرمایا ہے۔ اور اس نعمت کی قدر اُن سے پوچھیں، جو بے اولاد ہیں یا جنہیں برسوں کی دُعاؤں، منتّوں، مُرادوں کے بعد یہ نعمت عطا ہوئی ہے۔ لیکن اولاد صرف نعمت نہیں، والدین کے سپرد کی گئی ایک کڑی ذمّے داری بھی ہے۔ بےشک، روزِ قیامت والدین سے اولاد کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ مگر مقامِ حیرت ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کی کچھ پروا نہیں۔

چھوٹی عُمر میں تو اولاد کو ’’ابھی بچّہ ہے‘‘ کہہ کہ کُھلی چُھوٹ دی جاتی ہے ۔بے تحاشا لاڈو پیار ہوتا ہے، اُن کی جائز، ناجائزخواہشات پوری کی جاتی ہیں۔اور جب بچّے بڑے ہوجاتے ہیں، تو پھر والدین اُن پرحاکم بن کر حُکم چلانے اور اپنی مرضی مسلّط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجتاً وہ باغی ہو جاتے ہیں۔ ضدیں اور مَن مانیاں کرنے لگتے ہیں، تو ماں باپ شکوہ کُناں ہوتے ہیں، بچّوں کی بدتمیزیوں، نافرمانیوں کا رونا روتے ہیں، جب کہ اس رویّے کے پسِ پشت کہیں نہ کہیں خود والدین کی بھی کچھ کوتاہیاں کارفرما ہوتی ہیں۔

دورِ حاضر کے والدین نے تو بچّوں کی شرارتوں، ضدوں سے بچنے کا بہترین حل کمپیوٹر، ٹیبلٹ، موبائل فون ہی کو سمجھ لیا ہے۔ بچّوں کو ان آلات میں مصروف کر کے والدین شاید سُکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بنا کہ یہ سُکھ مصنوعی اورعارضی ہے۔بعد ازاں ،یہی بچّے خود سَر، ہٹ دھرم ہورہے ہیں۔ والدین جب اپنے آرام، تفریح یا مصروفیات کے سبب بچّوں کو اُس وقت اکیلا چھوڑ دیں گے، جب انہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اُن کی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہے، اُنہیں اچھے بُرے کی تمیز سکھائی جانی ہے۔

اُنہیں پیارومحبّت، ایثار و قربانی، درگزر ، امانت و دیانت،انسانیت و اخلاقیات کے اسباق پڑھانے ہیں، اپنے بچّے کا دوست اور غم گسار بننا ہے، تو لازماً اس کا ردِّعمل تب سامنے آئے گا، جب بچّوں کو والدین کی نہیں، والدین کو بچّوں کی زیادہ ضرورت ہوگی۔

یادرکھیے، جس طرح خود رو پودے کبھی ترتیب میں نہیں اُگتے۔بالکل اِسی طرح خود پروان چڑھے ہوئے بچّے بھی کبھی متوازن شخصیت کے مالک نہیں ہو سکتے۔ جب والدین، بچّوں سے قریبی تعلق قائم کرنے کی بجائے صرف ان کی ضروریات، خواہشات پوری کرکے خود کو ہر ذمّے داری سے مستثنیٰ سمجھ لیں گے، تو بچّے کوئی نہ کوئی ایسی صحبت تلاش کریں گے، جو اُنہیں زیادہ توجّہ اور اہمیت دے۔

اب چاہے یہ صحبت کسی عزیز رشتے دار، استاد، دوست کی ہو یا کسی اجنبی کی۔ اگر یہ صحبت اچھی ہوئی، تو کچھ بچت کا پہلو نکل سکتا ہے، بصورتِ دیگر بچّے کی پوری شخصیت بھی مسخ ہوسکتی ہے۔ تو کیا سب سے بہتر یہی نہیں کہ بچّوں کا قریبی دوست،ہم درد وغم گسار والدین ہی میں سے کوئی ہو، جو اُسے بھلائی، بُرائی سے آگاہ کرتا رہے۔ لیکن اس کے لیے اولاد کو وقت دینا اَزحد ضروری ہے، جب کہ ہم میں سے اکثر اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی اس ذمّے داری کوسمجھ لے، تو شاید معاشرے میں کہیں قتل و غارت ہو، نہ لوٹ مار، دہشت گردی ہو ، نہ لاقانونیت کا راج کہ ان سب سرگرمیوں میں ملوث افراد بھی کسی دَور میں بچّے تھے اور شاید اپنے ماں باپ کی توجّہ کے منتظر بھی۔ اولاد کی پرورش میں کوتاہی درحقیقت ایک ایسا جُرم ہے، جس کی سزا اللہ نے آخرت پر موقوف نہیں کی، بلکہ اس کا خمیازہ یہیں اِسی دُنیا میں بھگتنا پڑتاہے۔