بچوں کیلئے لکھنا، بچوں کا کھیل نہیں

November 22, 2020

بات چیت: منور راجپوت

(عکّاسی:اسرائیل انصاری)

ڈاکٹر محمّد اسماعیل بدایونی نے کراچی یونی ورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا اور پھر یہیں سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ گھر سے بھی علم وتحقیق کا ذوق وراثت میں ملا۔ لکھنے کی طرف مائل ہوئے، تو بچّوں کی تعلیم وتربیت جیسے اہم، نازک اور مشکل میدان کا انتخاب کیا۔ بچّوں کے لیے18 کتب لکھ چُکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ گزشتہ دنوں اُن سے بچّوں کے ادب، اُن کی تعلیم و تربیت سے متعلقہ مسائل، کتب بینی کے رجحان سمیت مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، جو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س: کچھ اپنےخاندان، تعلیم وتربیت وغیرہ کے بارے میں بتائیے؟

ج: میرے دادا اور پردادا قیامِ پاکستان سے پہلے سندھ سے بدایوں( بھارت) چلے گئے تھے۔ والد، علّامہ حافظ پروفیسر ریاض احمد بدایونی وہیں پیدا ہوئے اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ اُنھیں دینی اور عصری علوم حاصل کرنے کا بے پناہ شوق تھا، یہی سبب ہے کہ مختلف مضامین میں چار ماسٹرز کیے، جب کہ 8 برس بریلوی اور 16 برس دیوبند مکتبِ فکر کے مدارس سے دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ وہ شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے، سپیریئر کالج، شاہ فیصل کالونی، کراچی کے پرنسپل رہے، جب کہ مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے۔ اُن کی خطابت کا بہت چرچا تھا۔ وہ شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ مَیں نے 2007ء میں جامعہ کراچی سے قرآن وسنّہ میں فرسٹ کلاس، فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا اور پھر وہیں سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اِسی دَوران سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کام یابی حاصل کرکے گورنمنٹ سپیریئر کالج سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگیا، ملازمت کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

س: لکھنے لکھانے کی طرف کیسے راغب ہوئے؟

ج: ابتدا میں چند مضامین لکھے، جو پاکستان اور بھارت کے کچھ جرائد میں شایع ہوئے۔ اُنہی دنوں بیرونِ مُلک سے ایک کتاب منظرِ عام پر آئی، جس میں اسلامی تعلیمات کو تضحیک و تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، مَیں نے’’ اسشتراقی فریب‘‘ اور’’ عالمِ اسلام پر مستشرقین کی فکری یلغار‘‘ کے نام سے اس کا جواب لکھا۔ پھر’’ عورت، تقدیسِ ملّت‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کتاب لکھی، جس میں عورت سے متعلق اسلامی تعلیمات پر اُٹھائے گئے اعتراضات پر بحث کی گئی۔ بعدازاں’’ صدائے درویش‘‘ اور’’ صدائے قلم ‘‘کے نام سے کتابیں لکھیں ،مگر پھر خود کو صرف بچّوں کے لیے لکھنے تک محدود کرلیا ۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: بچّوں کے لیے لکھنا تو خاصا مشکل کام ہے؟

ج: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں اُسی شخص کو عالم فاضل مانا جاتا ہے، جو دقیق علمی کتب لکھے۔ پھر یہ کہ بچّوں کے لیے اُن کی سطح پر آکر لکھنا پڑتا ہے، جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اِسی لیے کہتے ہیں کہ’’ بچّوں کے لیے لکھنا، بچّوں کا کام نہیں۔‘‘ مَیں نے بچّوں کے لیے بہت سی کُتب لکھی ہیں، جن میں قصص الانبیاء، قصص القرآن، سنہری کہانیاں، سنہری قصّے، سنہری معجزات وغیرہ شامل ہیں، جب کہ حالیہ دنوں میں ’’سنہری صحاح ستّہ‘‘ کے عنوان سے چھے کتابیں لکھیں، جن پر غیرمعمولی فیڈ بیک ملا، حالاں کہ مَیں تو یہ سوچ کر مایوس ہوگیا تھا کہ شاید’’یہ آخری صدی ہے، کتابوں سے عشق کی۔‘‘لیکن شائقین نے ان کتب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ چھے، چھے ہزار کی تعداد میں چھاپے گئے دو ایڈیشنز دیکھتے ہی دیکھتے فروخت ہوگئے۔

ان کتب میں پہلے ایک حدیثِ مبارکہؐ بیان کی گئی ہے اور پھر اُس کی بنیاد پر ایک کہانی تخلیق کی گئی تاکہ بچّے حدیثِ مبارکہؐ میں دی گئی تعلیم کو دِل نشین انداز اور جدید حالات کی روشنی میں سمجھ سکیں۔اب تک 22 کتابیں لکھ چُکا ہوں، جن میں 18 بچّوں کے لیے ہیں۔ جیو ٹی وی کے لیے قرآنِ کریم کی پیش گوئیوں کے حوالے سے اسکرپٹ لکھے، جب کہ دیگر ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر بھی کام کیا۔ میرے لکھے ہوئے کارٹونز مدنی چینل سے بھی نشر ہوتے رہتے ہیں۔ میرا مقصد یہی ہے کہ عام فہم لٹریچر کے ذریعے بچّوں کا مذہب سے تعلق مضبوط کیا جائے۔اُنھیں پتا چلے کہ مذہب پر عمل پیرا ہو کے معاشرے میں کیا تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں اور مذہبی تعلیمات سے رُوگردانی کا کیا نقصان ہے۔

س: بچّوں کی جانب سے کیسا ریسپانس آیا؟

ج: اِس ضمن میں ایک واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ایک دوست نے معروف عالمِ دین، علّامہ رضوان نقش بندی کو میری کتاب تبصرے کے لیے دی، تو اُنھوں نے کہا ’’کل بتاؤں گا۔‘‘ دوسرے روز دوست نے اُن سے پوچھا، تو اُنھوں نے کہا’’ بھئی، کتاب تو پاس ہوگئی۔‘‘ دوست نے حیرت سے پوچھا’’ مولانا صاحب یہ’’ پاس‘‘ ہونے کا کیا مطلب ہوا؟‘‘ تو اُنھوں نے جواب دیا’’ دراصل مَیںنے گھر جا کر کتاب میز پر رکھ دی اور کچھ دیر بعد دیکھا، تو بچّے اُسے پورے انہماک سے پڑھ رہے تھے اور اُس وقت تک پڑھتے رہے، جب تک کہ ختم نہیں ہوگئی۔‘‘ ہمارے ایک اور دوست پروفیسر طہٰ احمد مینائی نے بتایا کہ’’ بچّے کہانی مکمل کیے بغیر کھانا تک نہیں کھاتے۔‘‘ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچّے ان کتب کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ مَیں نے کوشش کی ہے کہ بچّوں کو کہانی کے انداز اور سادہ الفاظ میں اپنی بات پہنچا سکوں۔

س: سُنا ہے، پبلشرز لکھاریوں کو بہت تنگ کرتے ہیں؟

ج: ہاں، بات کچھ ایسی ہی ہے۔ ابتدا میں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کتاب کی اشاعت کے لیے ایک پبلشر سے بات کی، تو اُس نے کہا’’ دیکھیں جی! حالات آپ کے سامنے ہیں، اِس لیے آدھے پیسے آپ لگائیں، آدھے مَیں۔‘‘ حالاں کہ وہ بنیادی طور پر آدھے پیسے نہیں ہوتے، بلکہ کتاب کی پوری قیمت لکھاری سے وصول کر لی جاتی ہے۔مَیں نے ایک دوست کی مدد سے، جو طباعت کا کام جانتا تھا، یہ معرکہ سَر کیا۔ تاہم، اللہ کے فضل سے اب صُورتِ حال بدل گئی ہے۔ ایک زمانے میں کوئی کتاب چھاپنے پر تیار نہیں ہوتا تھا اور آج کئی پبلشر خود رابطے کر رہے ہیں۔

س: ملازمت، پھر اس قدر لکھنا پڑھنا، گھر والے تو تنگ آجاتے ہوں گے؟

ج: یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی وقت کا کھانا نہ کھاؤں، مگر لکھنے پڑھنے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔تاہم، اللہ کا شُکر ہے کہ گھر والے میرے کام کی اہمیت و افادیت سے واقف ہیں اور وہ قدم قدم پر مجھ سے تعاون کرتے ہیں۔ جہاں تک بچّوں کی بات ہے، تو مَیں نے گھر پر اُن کے لیے الگ سے لائبریری بنوا دی ہے اور اُن کے لیے بچّوں کے کئی رسائل وجرائد لگوا رکھے ہیں۔

چوں کہ گھر میں سارا دن پڑھنے، لکھنے ہی کی بات ہوتی ہے، تو اس کے بھی بچّوں پر مثبت اثرات مرتّب ہوئے ہیں۔ ایک روز میری پانچ سالہ بیٹی ہاتھ میں ایک کتاب اُٹھائے آئی اور کہا’’ بابا! مَیں نے یہ کتاب پڑھ لی ہے‘‘۔ ہم نے پوچھا’’ اچھا بتاؤ، اِس میں کیا ہے؟‘‘ تو اُس نے گھر میں ہونے والی باتیں دُہرا دیں، جیسے مَیں بیٹے کو کہتا ہوں کہ ’’دانیال گھر سے باہر مت جانا، ورنہ کوئی تھیلے میں ڈال کر لے جائے گا‘‘ تو اُس نے یہ باتیں کہانی کی صُورت بیان کردیں۔

س: والدین بچّوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اکثر پریشان ہی رہتے ہیں۔ آپ کیا مشورہ دیں گے؟

ج: دیکھیں جی! بچّے والدین ہی سے سیکھتے ہیں۔اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ تو گھر میں سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہیں اور بچّوں سے کتابیں پڑھنے کی اُمید رکھیں۔جب بچّہ پیدا ہوتا ہے، تو ہم اُسے مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگواتے ہیں کہ کہیں کوئی وائرس اُس پر حملہ آور ہو کر نقصان نہ پہنچا دے۔اِسی طرح بچّوں کے اخلاق و کردار پر بھی بچپن ہی سے کام کی ضرورت ہے۔اگر اُنھیں ابتدا ہی میں اخلاقیات کی خوراکیں دی جائیں، تو پھر وہ تاعُمر نہیں بھٹکتے۔

مَیں سمجھتا ہوں کہ اسکولز میں مطالعے کا بھی ایک پیریڈ ہونا چاہیے، جس میں طلبہ اساتذہ کی زیرِ نگرانی کتب کا مطالعہ کریں اور سال کے آخر میں سب سے زیادہ مطالعہ کرنے والے طالبِ علم کو انعام بھی دیا جائے، اس سے بچّوں میں مطالعے کی عادت پختہ ہوگی۔نیز، ہمیں بچّوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جدید ذرایع بھی بروئے کار لانے ہوں گے۔بچّوں میں کارٹونز دیکھنے کا بہت رجحان پایا جاتا ہے، تو اسے مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے معیاری کارٹون فلمز متعارف کروانی ہوں گی۔علاوہ ازیں، بچّوں کے لیے ایسے ڈرامے بنائے جائیں، جن میں اخلاقیات پر فوکس ہو۔ اِسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ ٹی وی چینلز پر بچّوں کے حوالے سے بہت کم مواد نشر ہوتا ہے اور جو ہو بھی رہا ہے، اُس کا کانٹینٹ انتہائی ناقص ہے۔

س: تو کیا ڈیجیٹل کتابوں کو بھی فروغ دیا جائے؟

ج: ہاں اِس کی بھی ضرورت ہے اور انٹرنیٹ پر کتب بینی کا رجحان فروغ بھی پا رہا ہے، تاہم میرا مشاہدہ تو کچھ اور ہی ہے۔ ایک روز بچّے کو انٹرنیٹ پر کوئی کتاب کھول کر دی اور جب کچھ دیر بعد واپس آیا، تو وہ گیم کھیل رہا تھا۔ خود ہمارا بھی یہی حال ہے۔

اگر ہم انٹرنیٹ پر کتاب پڑھ رہے ہوں اور اس دَوران فیس بُک کا کوئی نوٹی فِکیشن آجائے، تو پھر اُسی میں کھو جاتے ہیں۔کتاب پڑھنے کا مزا تو ہارڈ کاپی ہی میں ہے۔ یورپ میں آج بھی ہارڈ کاپی ہی کا رواج ہے۔ وہاں عام کُتب کا ایڈیشن بھی ایک، ایک لاکھ چَھپتا ہے، جب کہ پاپولر کتب کی تعدادِ اشاعت تو کروڑوں میں ہوتی ہے۔

س: مگر کتابیں منہگی بھی تو بہت ہوگئی ہیں؟

ج: میرا خیال ہے کہ شائقین کے لیے تو کتاب کبھی بھی منہگی نہیں ہوئی۔ وہ پیسے نہیں، کتاب کی اہمیت دیکھتے ہیں۔ہم پندرہ سو کا پیزا کھا لیتے ہیں، مگر 100 روپے کی کتاب منہگی لگتی ہے۔

س: اِن دنوں کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟

ج: ’’ ایک آیت، ایک کہانی‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں مختلف آیات میں دی گئی ہدایات کو اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو بچّے کی دِل چسپی برقرار رہے اور دوسری طرف، اُس کی کردار سازی بھی ہو سکے۔

ابتدائی دَور کے مسلم معاشرے کی تعلیم و تربیت کا مرکز قرآن وحدیث ہی تھا اور اُسی سے اُن کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔آج بھی اُنہی کی طرف پَلٹنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اپنے بچّوں کا کردار سنوار دیں، تو ہمارا معاشرہ ایک مہذّب معاشرے میں تبدل ہو جائے گا۔ہم جتنا قرآن و حدیث سے دُور ہوں گے، معاشرے میں اُتنی ہی انارکی بڑھتی جائے گی۔

نیز، میری خواہش ہے کہ کوئی ایسا ادارہ بنایا جائے، جہاں بچّوں اور نوجوانوں کے ساتھ نشستیں رکھی جائیں اور اُن کے کچّے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالات کے تسلّی بخش جوابات دئیے جائیں۔ اِسی طرح بچّوں کے لیے دستاویزی ویڈیوز، کارٹون فلمز اور دیگر مواد تیار کیا جائے، مگر وسائل کی کمی آڑے آ رہی ہے۔

س: بچّوں کے رسائل کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

ج: ایک تو یہ کہ بچّوں کے رسائل کی تعداد ضرورت سے کم ہے، پھر یہ کہ اُن میں سے بیش تر وسائل کی کمی کا شکار ہیں، جس کے سبب اُنھیں زندہ رکھنا بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ ایسے میں وہ جتنا کام کر رہے ہیں، وہ بھی غنیمت ہے۔

س: کیا بچّوں کے دیگر رائٹرز سے ملنا، ملانا ہوتا ہے؟

ج: بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے اداروں اور فورمز کا شدید فقدان ہے، جہاں بچّوں کے لیے لکھنے والے جمع ہو کر مختلف منصوبوں پر مشاورت کرسکیں اور اُنھیں تربیت بھی فراہم کی جاسکے۔ نیز، بچّوں کے لکھاریوں کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔

اِس ضمن میں وفاقی اور صوبائی سطح پر انعامات کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے اور اِس وقت جو انعامات دئیے جا رہے ہیں، اُن کی تعداد بڑھائی جائے۔اِس وقت بچّوں کے ادب پر عملاً نزع کی کیفیت طاری ہے، لہٰذا اِس کی سرپرستی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

س: لوگ تنقید بھی کرتے ہوں گے، ہمارے ہاں تو یہ عام چلن ہے؟

ج: میری پوری کوشش ہے کہ بچّوں کو مسلکی یا گروہی تنازعات میں اُلجھانے کی بجائے اُن کی سامنے وہ باتیں رکھی جائیں، جس سے اُن کی سیرت وکردار میں نکھار آئے۔ہمارے ہاں بعض چیزیں ایسی ہیں، جو اپنی اصل میں درست ہیں، مگر لوگوں نے اُس میں اِتنی ملاوٹ کردی کہ اُن کی اصل شکل ہی بدل گئی۔ اب اگر عوام کے اس رویّے پر انگلی اُٹھائی جائے، تو وہ جواب میں بُرا بھلا کہنا اور الزام تراشیاں شروع کر دیتے ہیں۔

س: آپ کی کتب کا کسی اور زبان میں بھی ترجمہ ہوا؟

ج: جی ہاں! بعض کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچُکا ہے اور بعض اشاعت کے مراحل میں ہیں، جب کہ میری کتب بھارت میں بھی تین مقامات سے شایع ہو رہی ہیں۔

س: تحقیق و تصنیف کے اِس کام میں کس کس کی معاونت اور رہنمائی حاصل ہے؟

ج: میری مذہبی تعلیم و تربیت میرے والد ہی نے کی۔ چوں کہ وہ خود دینی و عصری علوم کے عالم تھے، اِس لیے گھر میں تشدّد اور انتہا پسندی کی بجائے علم و تحقیق ہی کی فضا رہی۔نیز، علاّمہ اسماعیل ابراہیم کی، جو ایک باکمال عالمِ دین اور درویش صفت انسان ہیں، رہنمائی حاصل ہے۔پروفیسر طہٰ احمد مینائی بھی مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔پھر ڈین کلیہ معارفِ اسلامیہ جامعہ کراچی، ڈاکٹر شہناز غازی صاحبہ روزِ اوّل سے میری رہنمائی اور سرپرستی فرما رہی ہیں۔

س: معاشرے میں گروہی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے، حل کیا ہے؟

ج: اللہ کے رسولﷺ نے عصبیت کو مِٹایا تھا۔ عصبیت کیا ہے؟یہی کہ ناجائز اور ناحق طور پر اپنے عزیز رشتے داروں یا گروہ کا ساتھ دیا جائے۔ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں میں کوئی اختلاف ہوجائے، تو صلح کروا دو اور پھر کوئی زیادتی کرے، تو اُن میں سے جو حق پر ہو، اُس کا ساتھ دو۔قرآنِ پاک کی اس ہدایت پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل کیے بغیر معاشرے میں منفی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم کو نہیں روکا جا سکتا۔

س: مسلم معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

ج: مسلم معاشرے میں جذبے کی کمی اور جذباتیت زیادہ نظر آتی ہے۔جذبے پر جذباتیت غالب ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ شدّت پسندی، چیخنے چلّانے سے لوگوں کے رویّے درست نہیں ہوتے۔ ہمیں سیرتِ طیّبہ کی پیروی کرتے ہوئے تحمّل اور اعلیٰ اخلاق سے مکالمہ کرنا ہوگا، اسی سے دوریاں ختم اور نفرتیں کم ہوں گی۔