’’کرشن چندر‘‘ اُردو افسانے کا مینار

November 22, 2020

اگر آپ اُردوادب سے دل چسپی رکھتے ہیں اور افسانے پڑھنے کا بھی شوق ہے،مگر کسی سبب کرشن چندر کی تحریریںنہیںپڑھ سکے،تو گویا اُردو ادب اور افسانے کا مطالعہ مکمّل نہیں ہوا۔ اسے بالفاظِ دیگر یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کرشن چند ر اُردو ادب کا ایک ایسا افسانہ نگار ہے،جس نے ایسے اُسلوب کی بنیاد ڈالی، جس کا اُس کی تحریروں سے پیش تر کوئی سُراغ ہی نہیںملتا۔اُردو کے ممتاز نقّاداور کئی وقیع کتابوں کے مصنّف،ڈاکٹر عبادت بریلوی نے’’تنقیدی زاویے:اُردو افسانہ نگاری پر ایک نظر‘‘ میںکرشن چندر کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے واضح طور پر بیان کیا ہے’’کرشن کا اُسلوبِ بیان اور طرزِ ادا دل کش ہے اور شاید ایسی پیاری زبان اور شعریت سے اتنا بھرپور اسلوبِ بیان اُردو کے بہت کم افسانہ نگاروںکو نصیب ہوا ہے۔

وہ بذاتِ خود اُردو افسانہ نگاری کاایک اسکول ہے،جس کی بنیاد اُس نے خود ہی ڈالی اور جس کو وہ خود ہی پروان چڑھارہاہے۔ ‘‘پروفیسر گوپی چند نارنگ بھی اسی قسم کے خیالات ظاہر کرتے ہیں۔ ’’کرشن چندر :شخصیت اور فن‘‘مرتّبہ جگدیش چندر ودھاون کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں’’کرشن چندر کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ سعادت حسن منٹو یا راجندر سنگھ بیدی اُردو تنقید کے لیے اس طرح سوالیہ نشان نہیں ہیں، جس طرح کرشن چندر اُردو تنقید کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔ اُردو کی افسانوی روایت کا یہ وہ منطقہ ہے، جس کی تعیین ِ قدر کے بارے میں بحث و تمحیص جاری رہے گی اور برابر لکھا جاتا رہے گا۔ خود کرشن چندر نے سب سے زیادہ لکھا ،بہت لکھا،مختلف اسالیب میں لکھا ، مختلف اصناف میں لکھا،اور مختلف ذہنی سطحوں سے لکھا۔ایک ایسا فن کار،جس کی زبان میں ایسا رَس اور جادو تھا ، ایسی گھلاوٹ،موہنی حلاوت اور ایسی بہا لے جانے والی کیفیت تھی ، جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی۔‘‘

کرشن چندر وزیر آباد،ضلع گوجرانوالہ،پنجاب میںکھتری خاندان میں 23 نومبر1914ءکو پیدا ہوئے۔جائے پیدائش میں یوں اختلاف ہے کہ بھرت پور،راجستھان بھی بیان کی جاتی ہے۔یہی اختلاف تاریخِ ولادت میں بھی دیکھنے میں آتاہے۔ قطع نظر جائے پیدائش کے اختلاف سے،وزیر آباد کی ایک وجہِ شہرت یہ بھی رہی ہے کہ یہاں تیار کیے جانے والے چاقوؤں، چُھریوں کالوہا پورے برّصغیر میںمانا جاتا تھا۔ وزیر آباد میں قبل ازیں مولانا ظفر علی خان،راجا مہدی علی خان،مہاشے کشن(مُدیر ،پرتاپ)،حامد علی خان (مُدیر،ہمایوں) جیسے باکمال لوگ جنم لے چُکے تھے۔ کرشن چندرکے تین بھائی،مہندر ناتھ،اوپندر ناتھ اور راجیندر ناتھ(بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے) اور ایک بہن، سرلا دیوی تھیں۔ باپ کو ’’باؤ جی‘‘ اور ماںکو’’ماں جی‘‘ کہا جاتا۔ماں کا نام پرمیشوری دیوی اور باپ، گوری شنکرچوپڑا ،ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ میدانِ طِب تو دل چسپی کابنیادی محور تھا ہی،تاہم ڈاکٹر گوری شنکر کو ادب اور بالخصوص اُردو ادب سے بھی حد درجہ لگاؤ تھا۔

وہ 1918 ءمیں بحیثیت میڈیکل آفیسر کشمیر میں واقع ضلع پونچھ میں تعیّنات کیے گئے اور ملازمت کے اختتام تک وہیں قیام کیا۔ ڈاکٹر گوری شنکر ایک اچھے مقرّر ہونے کے علاوہ شاعری کاذوق بھی رکھتے،مگر مشقِ سُخن محض گیت نگاری ہی تک محدود رکھا۔ گویا باپ کی وساطت سے کرشن چندر کو ادب سے لگاؤ ابتدائی عُمر ہی میں ہو گیا تھا۔عُمر پانچ برس ہوئی تو ہنڈر،کشمیر کے پرائمری اسکول میں داخل کروایا گیا۔ پڑھائی شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اُردو کے مضمون میں انتہائی کم زورہیں۔ نتیجہ یہ کہ استاد سے روزانہ مار کھاتے،جب بہتری کی کوئی صُورت نہ نکلی، تو چَھٹی جماعت سے اُردو ترک کر کے سنسکرت کا مضمون اختیار کرلیا۔ یہ اُس سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوا۔

خیر ،کسی نہ کسی طرح آٹھویں جماعت تک سنسکرت ہی پڑھی۔تعلیم کی منزل مِڈل تک پہنچی، تو وکٹوریا جوبلی ہائی اسکول،پونچھ کو اگلی تعلیمی درس گاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔اب سنسکرت کی جگہ فارسی کا مضمون اختیار کیا۔یہاں استاد بُلاقی رام نندہ تھے، کئی مضامین میں طاق۔ کرشن چندر اب بُلاقی رام سے آئے دن مار کھاتے، کیوں کہ فارسی سب سے زیادہ مشکل معلوم ہوئی اور اُردو پر بہت پیار آنے لگا۔کچھ ہی وقت پیش تر کرشن چندر کو کہانیوں سے بھی دل چسپی ہوگئی اور الف لیلیٰ کی کہانیوں پر اس طرح دل آیا کہ جب جب موقع ملتا،پڑھنی شروع کر دیتے۔ ماں نے ایک دن دیکھاتو اچھی خاصی خفگی کا اظہار بھی کیا کہ فضول کہانیاں پڑھائی سے بھٹکا دیں گی، مگر کتابیں پڑھنے کا شوق تو دھیرے دھیرے پُختہ سے پُختہ ہی ہوتا چلا گیا۔اپنے ایک دوست کی کتابوں کی دُکان کچھ ایسی بھائی کہ وہاں سے کتابیں لے کر پڑھنی شروع کر دیں۔

اس دُکان پر جانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کچھ ادیب اور شاعر بھی آیا کرتے اور ایک محفل کا سا سماں ہوجاتا۔ کرشن چندر کو یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا۔ اُردو کے مشہور ادیب، چراغ حسن حسرت سے کرشن چندر کی اوّلین ملاقات یہیں ہوئی تھی ۔یہ تو بات ہوئی کتابوں سے دل چسپی کی ۔اُدھرکرشن کو ڈرامے دیکھنے کا بھی شوق تھااور وہ بھی اس حد تک کہ گھر والوں سے غلط بیانی کر کے بھی یہ شوق پورا کرتے۔یہ ڈراموں سے انتہا درجے کا شوق ہی تھا کہ کرشن چندر نے ساتویں یا آٹھویں جماعت میں مشہور رزمیہ ڈرامے ’’مہابھارت‘‘ میں ارجن کا کردار بھی ادا کیا۔ والد کے ساتھ بھی ڈراما دیکھا اور جو کھیل دیکھا ،وہ آغا حشر کاشمیری کا’’خونِ ناحق ‘‘ تھا،جو شیکسپیئر کے ڈرامے ’’ہیملٹ‘‘ سے ماخوذ تھا۔ دیگر شوق میں مصوّری، شاعری اور پہلوانی شامل تھے،جو اوائلِ عُمری ہی میں کسی نہ کسی ناموافق صُورت کی وجہ سے پروان نہ چڑھ سکے۔اب شعور کی منزل آ چلی تھی، سو پڑھنے کے لیے جو کتاب منتخب کی وہ پریم چند کی ’’پریم بتیسی‘‘ تھی۔ اس کے بعد سُدرشن کی تحریریں پڑھیں۔1920 ء تا1930 ءکے عرصے میں پنڈت سُدرشن کی کتابیں بہت ذوق و شوق سے پڑھی جاتیں اور کتابوں کے سرِ ورق پر عنوان کے ساتھ ’’فطرت نگار سُدرشن ‘‘ بھی تحریر ہوتا۔

اب ذوق اس حد تک بیدار ہو چُکا تھا کہ کچھ لکھنے کی تحریک شدّت پکڑتی جا رہی تھی۔استاد بُلاقی رام سے مستقل بنیادوںپرپِٹنے کا سلسلہ جب کسی طرح نہ تھما، تواُن کے خلاف’’پروفیسر بلیکی‘‘ کے عنوان سے اپنے تئیں ایک طنزیہ مضمون بھی تحریر کیا۔استاد کے خلاف غصّہ اس حد تک تھا کہ محض مضمون لکھنے ہی پر اکتفا نہیں کیا،بلکہ اُس زمانے کے مشہور ہفتہ وا ر پرچے ’’ریاست‘‘ میں شائع ہونے کے لیے دہلی بھی بھیج دیا۔ اخبار کے ایڈیٹر ،دیوان سنگھ مفتون تھے۔حافظ آباد،گوجرانوالہ کے دیوان سنگھ مفتون بے باک اور راست باز صحافی ہونے کے باعث بہت سے حلقوں میں ہر ل عزیز تھے۔ اُن کو دل سے چاہنے والوں میں ایک نام ایم ڈی تاثیر کا بھی تھا،وہی تاثیرؔ کہ جو ’’نیازمندانِ لاہور‘‘ کے نام سے کام کرنے والی بیس تا پچیس کے عشرے کی متحرّک و غیر منظّم تحریک کے مدار المہام تھے اور ڈاکٹر انور سدیدنے ’’اُردو ادب کی مختصر تاریخ ‘‘ میں جن کے بارے میں تحریر کیا ہے’’ردّ ِ عمل کی لہر اٹھانے اور ہنگاموں کو ہوا دینے میں اُنہیں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔‘‘

لُطف یہ ہوا کہ چندہی دنوں میں ’’ریاست‘‘ میں وہ مضمون بغیر کسی قطع و بُرید کے شائع بھی ہو گیا۔نہ صرف اسکول بلکہ پورے محلّے میں مضمون کی شہرت ہو گئی۔ استاد بُلاقی رام سے طالب علم نہیں ،اسکول کے غیر تدریسی عملے کے لوگ بھی یوں ڈرے سہمے رہتے کہ استاد بات، بے بات اُن سب کی گوشمالی کرتے ۔یوں اس مضمون کی وساطت سے اُنہیں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا۔خود استاد کی کیفیت کا تو پوچھنا ہی کیا۔ شاگرد پر تو گرجے برسے ہی،شاگرد کے باپ سے بھی شکایت کر دی۔ باپ نے سخت سرزنش کے ساتھ بیٹے کو تنبیہ کی کہ آئندہ قلم کو ہاتھ بھی مت لگانا،یوں کرشن چندر اگلے دو ایک برس تک لکھنے سے محروم کر دئیے گئے۔تاہم،مذکورہ مضمون کسی حد تک ادبی دنیا میں قدم رکھنے کی ابتدائی شکل ہی تھا۔

یہیں سے اُن کی طبیعت میں یہ عُنصر بھی پروان چڑھا کہ غلط کو بہر حال غلط کہنا ہی ہو گا اور یہ بات بھی ذہن میں راسخ ہوگئی کہ سچ اور حق کی راہ میں ہمیشہ دُشواریاں پیش آتی ہیں۔تاہم، اگر پامردی اور استقلال کا ثبوت دیا جائے، تو راہیں روشن تر ہو جایا کرتی ہیں۔انہیںغیر نصابی سرگرمیوں سے بھی حد درجہ دل چسپی تھی۔ کرکٹ، فٹ بال، کبڈّی، پہلوانی، تیراکی، جس کھیل میں دیکھو آگے آگے۔ یہی نہیں اُن کی تحریک اور شوق پر دوسرے طلبہ بھی ان سرگرمیوں میں شریک ہو جاتے۔وقت گزرتا گیا اور وکٹوریہ جوبلی ہائی اسکول ہی سے کرشن چندر نے 1929ءمیںسیکنڈ کلاس میںمیٹرک کرلیا، پھر باپ نے مزید تعلیم کے حُصول کے لیے اپنے بڑے بھائی کے پاس لاہور بھیج دیا۔ فارمین کرسچن کالج،لاہور اگلی درس گاہ قرار پائی۔یہاں آ کر کرشن چندر کی ادبی صلاحیتوں کو بے حد جِلا ملی۔

اب ذہن آفاق کی وسعتوں تک پہنچنے کی سعی کرنے لگا۔ بڑی ادبی،سیاسی اور سماجی شخصیات متاثر کرنے لگیں ۔ خاص طور پر وہ لوگ نظروں کو زیادہ بھانے لگے، جو سماجی نابرابری اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے۔ کرشن چندر کی تخلیقی سطح دیکھتے ہوئے اُنہیں 1930ء کے زمانے میں’’کرسچن کالج،میگزین‘‘کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔لاہورویسے بھی ادبی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی میدانوں میں اپنی مثال آپ تھا۔بڑے ادارے،بڑی شخصیات، بڑی تحریکیں غرض دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کو بہت کچھ تھا۔یہی نہیں، پڑھنے کو بھی ڈھیروں ڈھیر کتابیں۔ جانے کیسے اُسی زمانے میں انقلابی لٹریچر کی ایسی لَت لگی کہ دل ہر پَل ہندوستان میں انقلاب کے سپنے دیکھنے لگا۔ اچانک ایک دن شور مچا کہ کرشن چندر کالج سے غائب ہیں۔

یاروں، دوستوں نے پہلے تو اِدھر اُدھر ڈھونڈا، آگے پیچھے تلاش کیا،مگر کچھ اتا پتا نہ ملا۔ جب ایک دن گزرا اور واپسی نہ ہوئی تو دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ ضرور کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہے۔ جب دوسرا دن بھی پہلے دن کی طرح بغیر اطلاع گزرا تو دوستوں نے ضروری جانا کہ کرشن چندر کے گھر والوں کو آگاہ کیا جائے۔ اطلاع ملتے ہی ماں بے قرار ، دیوانہ وار بیٹے کی تلاش میں پونچھ سے لاہور پہنچ گئی اور لاہور کا کونا کونا چھان مارا۔ حال یہ تھا کہ بیٹے کے بغیر کسی پَل چین نہ ملتا۔ ایک دن اچانک کسی ذریعے سے اطلاع ملی کہ بیٹا مشہور باغی رہنما،بھگت سنگھ کے گروہ سے رشتہ جوڑ چُکا ہے اور اُس کی پاداش میں لاہور کے شاہی قلعے میں قید و بند کے دن گزار رہا ہے۔ ماں یہ جان کر دھک سے رہ گئی ،بہ ہزار دقّت بیٹے تک رسائی ہوئی ۔ ممتا نے اپنے جگر پارے کا دیدار کیا اور قسمیں دے کر اپنے ساتھ واپس لے آئی اور یہ بھی شرط عائد کی کہ اگر آئندہ وہ ایسی کسی سرگرمی کا حصّہ بنے،تو ماں جان دے دے گی۔

اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تحریک میں شامل کرشن چندر کے دو دوست انتہائی فعال اور متحرّک تھے،جب کہ کرشن چندر عملی طور پر سرگرمیوں سے دُور رہا کرتے۔بہرحال، جب مذکورہ دوستوں میں سے ایک کو عُمر قید اور دوسرے کو پانچ سال قید کی سزا ہوئی ،تو کرشن چندر نے تحریک سے کُلّی طور پر دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور چند یوم رُوپوشی کی زندگی گزار کر کلکتے (موجودہ کولکتہ)چلے آئے۔ چند ماہ یہاں گزار کر دیہی زندگی کی پس ماندگی کا براہ ِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور یہ سوچ پختہ تر ہو گئی کہ طبقاتی نظام کے خلاف جدّوجہد ہی سماج کے ہر فرد کو اُس کا جائز حق دلا سکتی ہے۔ سو،یوں مارکس،اینگلز اور لینن کی سوچ اور تحریروں کا مطالعہ و مشاہدہ شروع کیا۔

مذکورہ واقعے سے قطع نظر کرشن چندر کو سیر و سیاحت کا بھی شوق تھا۔سو، گھومنا پھرنا بھی زندگی کا کسی حد تک لازمی عُنصر رہا۔1931ء میںفارمین کالج سے ایف ایس سی پاس کیا۔گرچہ والد کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا طِب کی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بنے۔تاہم، کرشن چندر کو طبّی مضامین سے رتّی بھر لگاؤ نہ تھا۔جن مضامین میںدھیان تھا،وہ ادب،تاریخ اور معاشیات تھے۔

سو، انہی مضامین میں 1933ء میں بی اےکیااور سند وصول ہوتے ہی ایم اے،انگریزی میں داخلہ لےلیا۔انگریزی زبان و ادب پر اس حد تک گرفت ہوگئی کہ کالج کی انتظامیہ نے اُنہیں شعبے سے نکلنے والے انگریزی پرچے کا چیف ایڈیٹر مقرّر کر دیا۔1935 ءمیں ایم اے انگریزی ادب کے امتحان میں کام یابی کی سند پائی۔ طبیعت میںآگے بڑھنے کی جستجو تھی،سو تعلیم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور لا ء کالج،لاہور میں داخلہ لےلیا۔ایسا کرنے میں ماں کی خواہش کا احترام ایک بنیادی وجہ تھی کہ ماں کی نظروں میں وکالت ایک قابلِ عزّت پیشہ تھا۔ایل ایل بی کی تعلیم کے دوران جس ہاسٹل میں قیام کیا،وہاں کنہیا لال کپور اور اوپندر ناتھ اشک بھی موجود تھے۔سو ،دونوں سے کرشن چندر کی خُوب دوستی رہی،خاص طور پرکنہیا لال کپور سے، جو وہاں ایک کالج میں پروفیسر تھے اور ابھی بحیثیت مزاح نگاراُن کا ادبی سفر شروع نہیں ہوا تھا۔

1936 ءکا زمانہ تھا کہ کرشن چندر سخت بیمار ہوگئے ،اُنہیں یرقان کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ بیماری نے طول پکڑا،جس کے نتیجے میں وہ بہت کم زور ہو گئے۔صحت یابی کے بعد ’’یرقان‘‘ ہی کے عنوان سے ادبی زندگی کا اوّلین افسانہ تحریر کیا۔ لاہور کی ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہونے والا یہ افسانہ، ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔ پرچے کے مُدیر ،مولانا صلاح الدّین احمد نے تو یہاں تک کہا کہ’’ افسانے کو دنیا کے چند بہترین افسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے‘‘۔ کنہیّالال کپور نے کرشن چندر پر لکھے گئے اپنے مضمون میں ’’یرقان‘‘ کے بارے میںتحریر کیا ہے ’’یرقان کرشن چندر کا پہلا افسانہ ہے، جس نے ’’ادبی دنیا‘‘ میں چَھپ کر ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ کہتے ہیں یرقان زدہ کو ہر ایک چیز پیلی نظر آتی ہے ۔

یرقان کو پڑھنے کے بعد ہر قاری کو کرشن چندر نظر آنے لگا۔‘‘اگلے افسانے ’’لاہور سے بہرام گلہ تک ‘‘(1936 ء) اور ’’جہلم میں ناؤ پر‘‘(1937 ء) مشہور پرچے ’’ہمایوں‘‘ میں شائع ہوئے ،جس کے مُدیر میاں بشیر احمد تھے۔ اُنہوں نے اُسی زمانے میں کرشن چندر کے بارے میں یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ’’یہ شخص ہماری زبان کا ایک زبردست ادیب ثابت ہو گا۔‘‘کرشن چندر کو وکالت سے بھی کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ درسی کتب پر کم اور ادبی کتابوں پر زیادہ توجّہ دیتے اور اب تو دو ایسے دوستوں کی رفاقت بھی میسّر آ چکی تھی، جو خود بھی ادب کا گہرا ذوق رکھتے۔بہرحال، کرشن چندر نے 1937 ءمیں ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کر لیا۔قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی پروفیسر سنت سنگھ کے ساتھ مل کر ’’The Northern Review ‘‘ شائع کرنا شروع کر دیا تھا، جس کےمندرجات ادبی، سیاسی اور سماجی نوعیت پر مبنی ہوتے۔

ایل ایل بی کرتے ہی لاہور کے اُس زمانے کے مشہور انگریزی اخبار ’’ٹریبیون‘‘ میں سیاسی،سماجی اور معاشی موضوعات پر مضامین لکھنے شروع کردئیے۔اسی سال اُن کے کئی ڈرامے بھی شائع ہوئے۔1938 ء کا آغاز ہوا تو سیاسی محاذ پر ہندوستان میں گویا گھمسان کا رَن تھا۔کانگریس،مسلم لیگ،کمیونسٹ پارٹی،علاقائی جماعتیں،قوم پرست جماعتیں،مذہبی جماعتیں،غرض ہر ایک اپنے منشور کے تحت ہندوستان کی بساطِ سیاست پر اپنے مُہرے چل رہا تھا۔اسی اثناء 21 اپریل 1938 ءکو ہندوستان کے ادبی اُفق کا روشن ترین ستارہ ،اقبالؔاپنی تاب ناکیاں دِکھا کر ہمیشہ کے لیے چُھپ گیا۔

کرشن چندر نے اقبالؔ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ’’ٹریبیون‘‘ ہی میں تعزیتی مضمون تحریر کیا۔مضمون میں اقبالؔ کی چند نظموں کے تراجم بھی شامل تھے۔ مذکورہ مضمون لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ اقبالؔ سے اُن کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ ان پر پی ایچ ڈی سطح کا کام کرنا چاہتے تھے، اسی مقصد سے ایک روز کنہیّا لال کپور کے ساتھ اقبالؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ تاہم، اقبالؔ نے اُس خیال کی حوصلہ افزائی نہ کی،یوں یہ خیال محض خیال ہی رہا، حقیقت نہ بن سکا۔

ترقّی پسند مصنّفین کی کانفرنس پہلی بار کلکتہ میں منعقد ہوئی اورپنجاب کی صوبائی انجمن کی نمائندگی کرشن چندر نے کی۔ یہی وہ موقع بھی تھا ،جب اُنہیں ہندوستان کے مشاہیر، شعرااور ادیبوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ اسی کانفرنس میں اُنہیں انجمن ترقّی پسند مصنّفین ،پنجاب کا سیکریٹری بھی چُنا گیا۔

ادب سے لگاؤ اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ یونہی جاری رہا اور 1939ءمیں پہلا افسانوی مجموعہ’’طلسمِ خیال‘‘ کے عنوان سے سامنے آیاتو پڑھنے والوں سے داد و تحسین سمیٹنے کا خوب موقع ملا۔ اب قلم اور قدم تیز تر تھے۔دوسری عالم گیر جنگ کے اثرات جہاں پوری دنیا پر مرتّب ہوئے،وہاں ہندوستان بھی اُس سے محفوظ نہ رہا۔ انگریزوںنے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے ریڈیو کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔احمد شاہ بخاری پطرس اور زیڈ اے بخاری نے بڑے شعرااور ادیبوں کو ریڈیو میں ملازمت دی ، جن کا کام انگریزحکومت کی تعریف و توصیف کرناتھا۔ جس طرح اُس زمانے میں بڑے بڑے شعرا اور ادیب انگریز فوج میں بھرتی ہوئے،بالکل اُسی طرح ریڈیو میں بھی یہی صُورت دیکھنے میں آئی۔

استثنائی صورتیں معدوے چند تھیں اور اُن میں بھی جو آواز سب سے اعلیٰ اور بلند و بالا تھی ،وہ جوشؔ ملیح آبادی کی آواز تھی کہ جو برطانوی راج اور سامراج کو مردانہ وار للکارنے میں مصروف تھی۔بہرحال ،کرشن چندر کو بھی ملازمت کی پیش کش ہوئی،گرچہ وہ انگریز سرکار کے بےحدخلاف تھے،مگراُن دنوںبے روزگاری کے سبب ملازمت قبول کر لی۔تاہم ،چبھن برقرار رہی اور اندر ہی اندر اپنے آپ کو ملامت بھی کرتے رہے۔شاید یہی سال رہا ہو گا کہ کرشن چندرلاہور کی رہنے والی ودیاوتی نامی خاتون سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔یاد رہے، کرشن چندر نے دو شادیاں کی تھیں۔ دوسری شادی 1961 ءمیں رشید احمد صدّیقی کی صاحب زادی،سلمیٰ صدّیقی سے ہوئی ۔

کرشن چندر کی تخلیقانہ صلاحیتیں اُن سے مسلسل افسانے، کہانیاں، ڈرامے تحریر کروا رہی تھیں۔ 1940ءمیں ’’نظارے‘‘ کے عنوان سے دوسرا افسانوی مجموعہ پڑھنے والوں کی نذر کیا۔کتاب کا انتساب حددرجہ ل چسپ تھا،گرچہ اُسے مروّجہ معنوں میں انتساب کہا نہیں گیا ۔ اس میں تحریر ہے’’اُس کرشن چندر کی یاد میں، جسے گزشتہ نومبر کی ایک کثیف اور اُداس شام کو خود ان ہاتھوں نے گلا گھونٹ کر ہمیشہ کے لیے موت کے گھاٹ اتار دیا۔‘‘واقفانِ حال کے مطابق یہ انتساب دراصل ریڈیو کی ملازمت اور ملامت کا اظہار تھا۔اس کا مقدّمہ مولانا صلاح الدّین احمد نے تحریر کیا،جس میں ایک مقام پر یہ جملہ بھی شامل تھا’’کرشن چندر، میری ناقص رائے میں ایک مجموعۂ اضداد ہے‘‘۔ مذکورہ برس ہی ’’ہوائی قلعے ‘‘ کے عنوان سے افسانوں کا تیسرا مجموعہ پیش کیا۔

یہی وہ سال بھی تھا کہ جب اُن کے انشائیوںکا اوّلین مجموعہ ’’ہوائی قلعے‘‘ شائع ہوا اور لوگوں نے اُسے بہت ذوق و شوق سے پڑھا۔ اُسی زمانے میں کرشن چندر کو ڈبلیو زیڈ احمد نے شالیمار پکچرز کے لیے مکالمے تحریر کرنے کی پیش کش بھی کی ، جسے انہوں نے ہر گز ضائع نہ کیا۔فلم نگری کی رنگینیاں،ایک سے ایک کہانیاں،لوگوں سے ملنے کے مواقع،ایک شہر سے دوسرے شہر آنا جانا۔سو ،ایسی رومانی فضا کا حصّہ ہوتے ہوئے کرشن چندر کے کئی خواتین سے معاشقوں کی داستانیں بھی سننے کو ملیں۔1943 ءمیں کرشن چندر کے اوّلین ناول ’’شکست‘‘ نے اِشاعت کا لبادہ اوڑھا۔کشمیر کی دیہی زندگی کو رومانوی رنگ میں پیش کرنے کے ساتھ وقت کے طاقت وَر حکمرانوں اور مظلوم و مفلوک الحال عوام کی دُکھ بھری زندگی کی اس ناول میں خوب عکّاسی کی گئی ہے۔

ڈاکٹر عبدالسّلام صدیقی نے جواہر لعل یونی ورسٹی سے ’’کرشن چندر کے ناولوں کا تنقیدی مطالعہ (سماجی ثقافت اور سیاسی پس منظر میں)‘‘کے عنوان سے تحقیقی مقالہ تحریر کیا،جس پر اُنہیں پی ایچ ڈی کی سند تفویض ہوئی۔ اُنہوں نے ’’شکست‘‘ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ،’’اس ناول میں سرمایہ دارانہ نظام اور مذہبی ٹھیکے داروں پر سخت طنز کیا گیا ہے، جو قبلِ آزادی پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ اس ناول میں دو کہانیاں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ ناول میں سرمایہ دارانہ نظام سے بغاوت اور اشتراکی نظام کی طرف رجحان ملتا ہے،جو ترقّی پسند تحریک اور تحریکِ آزادی کے اثرات معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ناول پہلا اور کام یاب ترین ناول ہے، جس پر سیاسی و سماجی تحریکات کے اثر ات دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

تاہم، دین محمّد تاثیرؔ نے اس ناول سے متعلق رائے کا اظہار کیا کہ’’ وہ(کرشن چندر) طفلِ مکتب ہیں اور ناول نویسی اُن کے بس کا روگ نہیں۔‘‘کرشن چندر اس بات سے بے حد کبیدہ خاطربھی ہوئےتھے۔بہر حال، 1946ءمیں ہندوستان کی سب سے بڑی اور چمک دمک سے بھرپورفلم نگری ،بمبئی(اب ممبئی) کی ’’بمبئی ٹاکیز‘‘ سے ’’اِن چارج اسٹوری ڈیپارٹمنٹ‘‘ کی حیثیت سے وابستگی اختیار کی، جہاںرہنے کو عُمدہ سا بنگلہ ملااورتن خواہ ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ مقرّر ہوئی۔ کرشن چندر نے یہ وقت بھرپور مالی آسودگی میں بسر کیا۔تاہم، یہ سلسلہ محض ایک ہی برس جاری رہ سکا۔ کسی بنیاد پر ملازمت چھوڑی اور ’’ماڈرن تھیٹرز‘‘ کے نام سے اپنی فلم کمپنی قائم کر لی۔

جتنا پیسا کمایا تھا، اپنی تیار کردہ فلموں ’’سرائے کے باہر‘‘اور ’’راکھ‘‘ پر لگایا نہیں،بلکہ لٹایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فلمیں بری طرح فلاپ رہیں۔ کرشن چندر ثروت سے عُسرت کی سطح پر آ گئے۔ تاہم ،یہ سب زندگی کے تجربات تھے۔ اُن کا ناول ’’ایک گدھی کی سرگزشت‘‘ نہ صر ف پڑھنے والوں ہی میں مقبول ہوا،بلکہ ناقدینِ ادب نے بھی اُسے دل کھول کر سراہا۔یوں تو اُن کی اکثر تخلیقات مشہور ہوئیں اور قارئینِ ادب نے اُن کو بہت لُطف لے کر پڑھا،لیکن ’’کلّو بھنگی‘‘’’کچرا بابا‘‘’’غدّار‘‘’’جب کھیت جاگے‘‘ ’’آدھے گھنٹے کا خدا‘‘’’دو فرلانگ سڑک‘‘’’پشاور ایکسپریس‘‘’’اَن داتا‘‘ ’’اجنتا‘‘ ’’باون پتّے‘‘ ’’’’ایک عورت ،ہزار دیوانے‘‘’’ایک کروڑ کی بوتل‘‘’’ایک ہیروئن ،پانچ لوفر‘‘’’پودے‘‘ وغیرہ اُن کی تخلیقی اُپج کا عُمدہ اظہار ہیں۔

اُردو ادب کا یہ منفرد ، صاحبِ اسلوب افسانہ نگار اور قلم کار 8 مارچ1977 ءکو دنیا سے کُوچ کر گیا۔شکیب نیازی نے ’’کرشن چندر کے افسانوی ادب میں حقیقت نگاری‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے’’کرشن چندر نے جس حُسن کاری کے ساتھ رومانی مناظر پیش کیے ہیں ،اس حیثیت سے ان کے پیش رَو اور کیا ہم عصر، سب ہی بہت پیچھے ہیں۔اس میدان میں ان کا کوئی مدّ ِ مقابل نہیں۔ کرشن چندر کی تخلیقات میں محبت و رومان کے مختلف رنگ نظرآتے ہیں، ہر رنگ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے اور مختلف صُورتیں اختیار کرتا ہے۔‘‘

انہوں نے پچیس ناول اور پانچ سو کے لگ بھگ کہانیاں لکھیں،جن کا دنیا کی ساٹھ سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ کے کے کلّھرنے اپنی کتاب ’’اُردو کا آخری نقّاد‘‘ میں تحریر کیا ہے’’کرشن چندر وہاں کام یاب رہا،جہاں منٹو کے قدم ڈگمگا گئے۔ اس نے افسانے کو انسانیت کا رنگ دیا۔ اگر اس کے پاس انسانیت کی روح نہ ہوتی، تو محض ایک پمفلٹ باز یا پراپگینڈا باز بن کر رہ جاتا۔ کرشن چندر کے ناولزاور افسانوں کی بڑی تعداد نے یورپ کی زبانوں کا لباس پہنا ، لیکن وہ چند افسانوں جیسے ’’تائی ایسری‘‘،’’غالیچہ‘‘،’’کالو بھنگی‘‘ ’’آدھے گھنٹے کا خدا‘‘’’دانی‘‘اور کشمیری ماحول سے مملو ناولز جیسے’’دل کی وادیاں سو گئیں‘‘کی وجہ سے زندۂ جاوید ہو گیا۔