قلعہ بلتت... 750سال پرانا تاریخی و ثقافتی ورثہ

November 22, 2020

وادی ہنزہ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاںزمانہ قدیم کے قلعے آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ قلعے تاریخی شاہراہ ریشم کے اس دور کی گواہی دیتے ہیںجب چین سے لے کر شمالی ہندوستان اور یورپ تک اس سے منسلک تھے۔ قلعہ التت کی اہمیت اور عظمت کے بارے میںہم آپ کو کچھ دن قبل بتاچکے ہیں، آج کی تحریر میںقلعہ بلتت کا ذکر کیا جارہا ہے۔

قلعہ التت سے دریا ہنزہ کے اس پار نظر دوڑائیں تو 750 سال پرانا پرشکوہ قلعہ بلتت آج بھی پوری شان و شوکت سے اپنا وجود قائم کیے دکھائی دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہنزہ کے شاہی خاندان کے دو بھائیوں پرنس شاہ عباس عرف شابوس اور پرنس علی خان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع کے نتیجے میں ’’قلعہ بلتت‘‘ کی تعمیر عمل میںآئی۔

قلعہ بلتت، کریم آباد میں واقع ہے جو کبھی ریاست ہنزہ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ 1945ء تک یہ قلعہ ہنزہ کے امیر کے زیر استعمال رہا لیکن بعد میں انھوں نے کریم آباد میں گرینائیٹ پتھر سے بنے خوبصورت محل میں رہائش اختیار کرلی تو یہ خالی ہوگیا۔ 1990ء میں ہنزہ کے آخری حکمران کے بیٹے نے قلعے کو باقاعدہ طور پر بلتت ہیرٹیج ٹرسٹ کے حوالے کر دیا، جس کے بعد اس کی بحالی کا کام شروع ہوا جو 6کروڑ روپے کی لاگت سے 1996ء میںمکمل ہوا۔

ایک اونچی پتھر کی چوٹی پر واقع اس قلعے کی بناوٹ تبت طرز تعمیر سے مشابہت رکھتی ہے، وہاں کے شہر لاسا میں اس سے متشابہ پوٹالہ پیلس موجود ہے۔ مقامی تاریخ دانوں کے مطابق ہنزہ کے حکمران نے بلتستان کی شہزادی سے شادی کی تھی اور جہیز کے طور پر آنے والے کاریگروں نے قلعہ بلتت کی تعمیرنو کی تھی۔ پتھروں سے بنا یہ خوبصورت قلعہ کسی ایک دور میں مکمل تعمیر نہیں ہوا بلکہ ہنزہ کے مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے وقت میں بہت سے توسیعی کام کروائے جبکہ آخری بڑی تبدیلی انگریزوں کے دور میں دیکھنے میں آئی۔

تین منزلوں پر مشتمل قلعہ بلتت مستطیل (Rectangular)شکل کا بنا ہوا ہے۔ نچلی منزل بنیادی طور پر اسٹوریج چیمبروں پر مشتمل ہے جبکہ پہلی منزل چاروںاطراف سے کھلے ہال کی طرح بنی ہوئی ہے۔ دوسری منزل زیادہ تر سردیوں کے مہینوں میں استعمال ہوتی ہے، یہاںآڈیئنس ہال، گیسٹ روم، ڈائننگ ہال، باورچی خانہ اور سرونٹ کوارٹرز بنے ہوئے ہیں۔ تیسری منزل پر گرمیوںمیں استعمال کے لیے ڈائننگ روم، آڈیئنس چیمبر، بیڈروم اور استقبالیہ ہال بنایا گیا ہے۔ 1990ء میں ہونے والے بحالی کے کام سے اس بات کی طرف اشارہ ملا کہ قلعہ کا بنیادی ڈھانچہ، ایک دفاعی لکڑی اور پتھر والا مینار آٹھویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔

یہ مینار اور بعد میںبنائے گئے دیگر اضافی مینار ایک ہی منزل کی تعمیر سے منسلک تھے، جو کہ چھوٹے کمروں اور ذیلی سطح کے اسٹوریج چیمبرز پر مشتمل تھی ۔ بعد میں قلعے کی توسیع کرکے دوسری اور تیسری منزلوں کا اضافہ کیا گیا۔ چونکہ قلعہ بلتت ایک ایسے علاقے میںتعمیر کیا گیا جہاںزلزلوں کی کثرت کی وجہ سے زمین حرکت کرتی ہے، لہٰذا اس کے بنیادی ڈھانچے میں تعمیر کی گئیں پتھر کی دیواروں کو مزید استحکام دینے کے لیے اسے لکڑی کا روایتی اندرونی فریم ورک فراہم کیا گیا ہے۔

قلعہ بلتت کی تعمیر میں لکڑی کا بہترین کام کیا گیا ہے جوکہ ماہر کاریگروں کی صناعی کا بہترین نمونہ ہے۔ قلعے میں لکڑی کی بڑی بڑی کھڑکیاں، دریچے، برآمدوں کے ستون اور گیلریاں بنائی گئی ہیں، جن پر ابھرے ہوئے لکڑی کے نقش و نگار حکمرانوں کے ذوق اور معماروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کئی جنگوں کے بعد بھی اپنا وجود برقرار رکھنے والے قلعہ بلتت میں ہنزہ کے میروں نے 62دروازے بنوائے۔ قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی گویا معلوم ہوتا ہے کہ سات صدی پرانے دور میں پہنچ گئے ہوں۔ قلعے میں53 کمرے ہیں، ایک کمرے سے وادی ہنزہ کے دلکش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ سامنے ہی دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک ’راکا پوشی‘ نظر آتی ہے۔

جب 14ویں کی رات راکا پوشی کی برف پوش چوٹیاں اور پہاڑی وادیاں چمکتی ہیں تو ایک عجیب سحر انگیز سماں بندھ جاتا ہے اور یہ منظر ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے قابل دید ہوتا ہے۔ ایک اور کمرے میںدیوار پر مقامی طور پر تیار کردہ قالین لٹکا ہوا ہے۔ قلعے میں پرانے زمانے کی ایک بندوق بھی موجود ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 18ویں صدی میں ایک روسی جاسوس نے اس وقت کے حکمران کو بطور تحفہ دی تھی۔

ہنزہ کے میر اور رانی کے شاہی لباس اور قدیم زمانے کے موسیقی کے آلات آج بھی قلعے میں محفوظ ہیں۔ موسیقی کے یہ آلات تاحال کارآمد ہیں، جن کا استعمال ہنزہ میں شادی یا کسی خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ قلعے کے باورچی خانے میں پرانے وقتوں کے لوہے کے برتن رکھے ہوئے ہیں۔ یہاںایک تہہ خانے میں جیل بھی بنی ہوئی ہے جبکہ چھت پر پرانے زمانے کی ایک توپ موجود ہے۔ قلعے میں حکمرانوںکے دربار لگانے کی جگہ اب تک ویسی ہی ہے مگر وہاں سیاحوں کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔چین نے شاہراہ قراقرم کو وادی ہنزہ سے گزارنے کے لیے ہنزہ کے حکمران سے ایک معاہدہ کیا تھا، قلعے میںاس کی تعمیر کے حوالے سے تاریخی دستاویز بھی موجود ہے۔