ہماری روبوٹ ساز انڈسٹری

November 23, 2020

دنیا بھر میں روبوٹ سازی کی صنعت ترقی کر رہی ہے ،پرانے زمانے میں روبوٹ مشینی انداز میں چلتے او ربات کرتے تھے مگر اب ہوبہو انسانی خد وخال اور شکل وصورت والے ایسے روبوٹ تیار کئےجا رہے ہیں جنہیں دیکھ کر سب دنگ رہ جاتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان روبوٹس کو ایک نئی پہچان دی جارہی ہے ۔اب یہ روبوٹ ہونگے تو پروگرامڈ مگر دیکھنے میں بظاہر خودکار ،آزاد اور غیر جانبدار دکھائی دیں گے یعنی دیکھنے والے کو ہرگز معلوم نہیں ہوگا کہ انہیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔کم و بیش ہر شعبہ ہائے زندگی میں روبوٹ استعمال کئےجا رہے ہیں۔روس نے گزشتہ برس انسان سے مشابہت اور بھرپور مماثلت رکھنے والے ایک روبوٹ کو راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا اور اس نے دس دن خلا میں گزارے۔فیڈور نامی روبوٹ خلا باز کا انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر اکائونٹ بھی ہے۔’’صوفیہ‘‘تو آپ کو یاد ہی ہوگی جسے سعودی عرب نے 2017ء میں شہریت عطا کی تھی۔چند روزقبل ایک عرب اخبارمیں شائع ہونے والی خبر نظر سے گزری کہ خلیجی ممالک میں کام کررہے 75فیصد ملازمین کو اندیشہ ہے کہ آنے والے دور میں ان کی جگہ روبوٹ لے لیں گے اور وہ بے روزگار ہو جائیں گے۔چین میں ریسٹورنٹ چلانے سے نیوزچینل پر خبریں پڑھنے تک سب کام روبوٹس نے سنبھال لئےہیںاور اب تو چین مصنوعی ذہانت کے ذریعے عسکری روبوٹ تیار کر رہا ہے۔چند ماہ قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے خبر دی تھی کہ مائیکروسوفٹ نے اپنی ویب سائٹ پر خبروں کی اشاعت کے لئے صحافیوں کی جگہ روبوٹ بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ رپورٹ بھی نظر سے گزری تھی کہ جاپان میں 400سال پرانے بودھ مندر میں ایک خودکار روبوٹ کو بطور راہب تعینات کیا گیا ہے۔ترقی یافتہ مغربی ممالک سے مرعوب ہونے کی ہرگزضرورت نہیں ۔بلا شبہ ترقی و خوشحالی کی دوڑ میںہم ہرحوالے سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ہم دفاعی ساز و سامان ،ادویات ،زرعی آلات ،کارخانو ںکے لئے درکار مشینری،پیٹرول اور یہاں تک کہ چینی اور اناج درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمارے ہاں ٹماٹر کی قلت ہو جاتی ہے ،ادرک ،لہسن اور پیازمہنگے ہو جاتے ہیں۔ہمیں ہر چیز ان مغربی ممالک سے منگوانا پڑتی ہے اور بعض اوقات تو وزیراعظم بھی ’’امپورٹ کرنا‘‘ پڑ جاتے ہیں۔لیکن روبوٹک مصنوعات کے حوالے سے ہم نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ ان ترقی یافتہ ممالک سے کوسوں آگے ہیں۔محب وطن حلقوں کی صناعی اور مہارت کے باعث چابی والے کھلونے تو ایک عرصہ سے تیار کئے جا رہے تھے اور اعلیٰ ترین الگورتھم کے حامل بہترین روبوٹ بھی مقامی کارخانوں میں نہایت نفاست سے بنائے جاتے تھے مگر اب بفضلِ خدا ہمارے انجینئروں نے مغربی ماہرین کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔بھانت بھانت کی زبانیں بولنے والے روبوٹ ہر شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔کاریگروں کی ہنر مندی اور سلیقہ شعاری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسانوں کی بھیڑ میں یہ فرق کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ان میں روبوٹ کونسے ہیں اور انسان کون سے۔سیاست ،صحافت ،عدالت ،وکالت ،شریعت، عسکریت سمیت شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جہاں انسانی شکل و شباہت والے روبوٹ نہایت تندہی سے فرائض سرانجام نہ دے رہےہو۔آپ نے کئی ایسی فلمیں دیکھی ہوں گی جن میں روبوٹ بغاوت پر اُتر آتے ہیں اور اپنے ہینڈلر یا خالق کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتے ہیں۔سائنس فکشن پر مبنی ان فلموں میں دراصل ان اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کیا گیا ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے روبوٹ ہی ایک دن اسے اپنا غلام بنالیں گے اور اس دنیا پر حکمرانی کریں گے۔مگر ہمارے ہاں ایسی ناگوار صورتحال سے بچنے کے لئے روبوٹ سازی کے وقت اس میں ایک ایسا پروگرام بھی فیڈ کر دیا جاتا ہے جسے آپ سیلف ڈسٹریکشن یا خودتلفی کا نام دے سکتے ہیں۔اگر کوئی روبوٹ بے قابو ہو جائے اور بغاوت پر اُتر آئے تو اس پروگرام کے تحت وہ اپنے خالق پر حملہ کرنے سے پہلے ہی مخصوص سمت میں چلتا ہوا خودکار پروگرام کے تحت ا سکریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر اس سے ایک نیا روبوٹ تیار کرلیاجاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں مقامی روبوٹک انڈسٹری سے متعلق ایک اور حیرت انگیز انکشاف ہوا ۔اب روبوٹ سازکئی روبوٹ بنانے پر وقت اور توانائیاں ضائع نہیں کرتے ۔وہ ایک بڑا ماسٹر روبوٹ تیار کرتے ہیں جو نہایت طاقتور اور کاریگری کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوتا ہے۔اس اسمارٹ ترین روبوٹ میں پروگرامنگ کرکے اسے ایسے شعلہ بیاں مقرر کی صلاحیت ودیعت کی جاتی ہے کہ وہ چاہے تو پانی میں آگ لگادے۔وہ خوابوں کا سوداگر ہوتا ہے ۔سب کو سبز باغ دکھاتا ہے ۔میڈیا میں بیٹھے روبوٹ اس نئے شاہکار کے گن گاتے ہیں، کارخانے سے نکلے ہوئے سب چھوٹے بڑے روبوٹ اس ماسٹر روبوٹ کے آگے کورنش بجا لاتے ہیں۔اس ماسٹر روبوٹ کو راہبر ،نجات دہندہ اور مسیحا کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے ۔لوگ دیوانے ہو جاتے ہیں۔بھلے چنگے انسان اس ماسٹر روبوٹ کے سحر میں گرفتار ہو کر ہنسی خوشی روبوٹ بن جاتے ہیں۔اس کے چاہنے والے ،عقیدت مند ،جیالے ،متوالے ہوتے تو انسان ہیں مگر اس ماسٹر روبوٹ کی بدولت خود بھی روبوٹ بن کر مشینی انداز میں اس کے پیچھے چلنے لگتے ہیں۔جب کوئی ماسٹر روبوٹ اپنے تخلیق کار کی خواہشات کے عین مطابق پہلے سے فیڈ کئے ہوئے پروگرام کے مطابق اچانک اسکریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اس کے پیچھے چل رہے معصوم انسان نما روبوٹ صدمے سے بے حا ل ہوجاتے ہیں۔تب انہیں پرسہ دینے اور ان کی غمگساری کرنے کے لئے ایک نیا ماسٹر روبوٹ تیار کروایا جاتا ہے۔

اور وہ تب تک اپنے فرائض چابکدستی سے سرانجام دیتا رہتا ہے جب تک اس کا مشن مکمل نہیں ہوجاتا۔ہماری مقامی روبوٹ ساز انڈسٹری اس قدر جدت اختیار کر گئی ہے کہ اب اسے تہس نہس کرنا مشکل ہی نہیںنا ممکن سا ہو گیا۔