ارشادنامہ

November 23, 2020

12اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیرِ اعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیااور اپنے لئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کا ٹائٹل اختیار کر لیا۔جنرل مشرف کے اس اقدام کو لیگی رہنما ظفر علی شاہ نے نامور قانون دان خالد انور کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔تب راقم چیف جسٹس نہیں تھابلکہ میں نے آرمی ٹیک اوور کے 106دن بعد چیف جسٹس پاکستان کا حلف لیا۔عدالت عظمیٰ کے 12رکنی بنچ نے میری سربراہی میں کیس کی سماعت کی جو کئی بار جاری رہی، کیس کی سماعت کے دوران ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے عدالت کی معاونت کی۔

فیصلہ آیا توا سے بہت سراہا گیاالبتہ تنقید کرنے والوں کا اصرار تھا کہ آرمی ٹیک اوور کو غیر آئینی ’’کیوں ‘‘ نہیں قرار دیا گیااور یہ کہ فوجی حکومت کو بن مانگے تین سال ’’کیوں ‘‘دیئے گئے اور آئینی ترمیم کا اختیار ’’کیوں‘‘ دیا گیا۔اگرچہ یہ فیصلہ اکیلے راقم کا نہیں بلکہ 12رکنی بنچ کا تھا اور تو اور پٹیشنر کے وکیل خالد انور بھی فیصلے سے متفق تھے۔ ’’ارشادنامہ‘‘ میں تمام اعتراضات کا تفصیلی جواب بھی دیا گیا ہے۔

’’ارشاد نامہ‘‘ ایک ایسے سائیکل سوار یتیم بچے کی کہانی ہے جو بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا۔ اس کا بچپن،جوانی، تعلیم،وکالت، ججی اور ملک و قوم کی خدمت کی ہر منزل اور ہر مرحلہ سبق آموز ہے۔’’ارشاد نامہ ‘‘ میں اِس سارے سفر کی داستان صاف صاف بیان کر دی گئی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جنرل مشرف کے دبائو کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات بھی سنی گئی کہ اُنہیں جنرل پرویز کیانی کی حمایت حاصل تھی ۔ بہر کیف ملک بھر کے وکلاء اُن کی حمایت میں اور صدر مشرف کو ہٹانے کے لئے میدان میں نکل آئے۔ بظا ہر یہ ناممکن صرف اس لئے ممکن ہو سکا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے باعث پارلیمنٹ اور جمہوریت بحال ہوچکی تھی تب جنرل پرویز مشرف آرمی چیف نہ تھے، محض ’’آئینی‘‘ سربراہ مملکت رہ گئے تھے۔سوال یہ ہے کہ جب چیف جسٹس سعید الز ماں صدیقی کو پی سی او پر حلف نہ لینے پراور اسی طرح چیف جسٹس منیر یا چیف جسٹس انوارالحق کے فیصلوں کے خلاف کیوں نہ وکلاء میدان میں آئے یا عوامی تحریک چلائی گئی۔تنقید کرنا تو بہت آسان ہے ، لیکن مارشل لاء مسلط ہو تو ایسی تحریکیں چلانا آسان نہیں۔

ظفر علی شاہ کیس میں پٹیشنرز کی طرف سے نامور قانو ن دان خالد انور پیش ہوئے۔ اُنہوںنے خود کہا۔

''I will not request this Court to do the impossible''

یعنی نواز شریف کی حکومت کی بحالی کی درخواست تو نہیں کروں گا۔ البتہ ’’ جو ہوچکا اُسے کنڈون کریں ورنہ ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلے گی، جو ہم نہیں چاہتے لہٰذا ایک معقول ٹائم فریم دے دیں ، کہ یہ کب واپس جائیں گے۔‘‘

معاون دوست ایس ایم ظفر نے بھی کہاـ’’اگر عدلیہ جنرل مشرف کو عارضی طور پر اقتدار کے جواز کاحق دار سمجھتی ہے تو اسے اس بات سے مشروط کیا جائے کہ وہ جلد سے جلد افواج پاکستان کو ان کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے اقتدار سے رخصت کرتے ہوئے ایک طے شدہ مدت میں ملک میں انتخابات کراکر اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرے اور عدلیہ وہ غلطی نہ کرے جو اُس سے نصرت بھٹو کیس میں ہوئی جب فوج کی واپسی کا راستہ فراہم کیا گیا تھاـ‘‘.

جنرل مشرف کو تین سال(عملاً ڈھائی سال) میں انتخابات کرانے کا پابندمسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد انور (معاون دوست) ایس ایم ظفر اور دیگر وکلاء صاحبان کے دلائل اور سرتاج عزیز پٹیشن کی روشنی میں کیا گیا۔ اس مدت کا پہلا دن ٹیک اوور سے شروع ہوا۔ اُس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہوگئے تھے۔

رہا سوال ترمیم کا اختیار دینے کا تو ظفر علی شاہ کیس (PLD 2000 SC 869)صفحہ 1221 ملاحظہ فرمائیے: جہاںصاف طور پر یہ تحریر ہے کہ

6(ii) ''That Constitutional Amendments by the Chief Executive can be resorted to only if the Constitution fails to provide a solution for attainment of his declared objectives...........''

یعنی چیف ایگزیکٹو آئینی ترامیم کا سہارا صرف اُسی وقت لے سکتا ہے جب آئین کی کوئی شق ان کے اعلان کردہ مقاصد سات نکاتی ایجنڈا)کو نافذ کرنے میں رُکاوٹ بنے۔تاہم آئین میں ایسی کوئی رکاوٹ نہ تھی، یہ محض نمائشی اختیار تھا۔ (جاری ہے)