پاکستانی فلموں میں کام کرنے والے غیر ملکی فنکار

November 24, 2020

ماضی میں پاکستانی ساختہ ایسی بہت سی فلمیں ہیں، جن میں مختلف ممالک کی فلم انڈسٹریز سے تعلق رکھنےوالےفن کاروں نے اپنی پروفارمنس کا جادو جگایا، لیکن ان میں ایسے فن کاروں کی تعداد معدوے چند ہی ہے کہ جن کی پروفارمنس سے آراستہ فلموں نے کام یابی حاصل کی اور ان فن کاروں کو مزید پاکستانی فلموں میں کام کرنے کے مواقع میسر آئے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے بنائی گئی جس پاکستانی فلم کا نام سامنے آتا ہے، وہ ہے 1956 میں بنائی گئی ہدایت کا شاہنواز کی فلم ’’انوکھی‘‘ ، جس کے لیے ہیروئن ’’شیلا رومانی‘‘ کا انتخاب بھارت سے کیا گیا۔

ان کے مقابل ہیرو تھے اداکار شاد۔ شیلا رامانی کی پیدائش گو کہ موجودہ سندھ پاکستان میں ہوئی تھی، لیکن انہوں نے اس وقت کے بڑے فلمی مرکز بمبئی جا کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ فلم ’’انوکھی ‘‘ کے لیے شیلا رومانی کو خصوص طور پر بمبئی سے بلوایا گیا۔ شیلا نے فلم میں بہت بے ساختہ پرفارمنس دی۔ ان پر پکچرائز گیت ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے کہیں دل کا جام نہ چھلکے‘‘۔ بے حد پاپولر ہوا، لیکن ’’انوکھی‘‘ باکس آفس پر ناکام رہی۔

1959ء میں کراچی سے تعلق رکھنے والے فلم ساز نعمان تاثیر نے لاہور سے تعلق رکھنے والے ہدایت کار اےجے کاردار کی زیر ہدایت سابقہ مشرقی پاکستان میں پہلی اردو زبان کی فلم بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ فلم کے لیے کہانی کا انتخاب بنگالی ناول نگار ’’مانک بندو بدھیائے‘‘ کے ناول سے کی گیا۔ یہ کہانی مشرقی بنگال کے ماہی گیروں کی غربت اور افلاس کی عکاس تھی، جس کی تمام تر فلم بندی ڈھاکا سے 30کلو میٹر دور ستنوئی نامی گائوں میں کی گئی۔

فلم کے لیے ہیروئن کا انتخاب انڈین آرٹ سینما کی فن کارہ ’’تریپوتی متراں‘‘ کی صورت کیا گیا، تریپوتی نے گہری رنگت والی خوب صورتی سے عاری لیکن ایک انسانی ہمدردی اور محبت سے معمور دل رکھنےوالی غریب کا کردار کمال فن کے ساتھ نبھایا۔’’جاگو ہوا سویرا‘‘ متوازی سینما کے تناظر میں بنائی گئی تھی، ایک اعلیٰ معیار کی حامل فلم تھی، جو باکس آفس پر تو نہ چلی، لیکن غیر ملکی فلم فیسٹیولز میں اسے خوب پذیرائی ملی۔ فلم کا اسکرپٹ اور نغمات عظیم شاعر و دانش ور فیض احمد فیض کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔

70 کی دہائی کے اوائیل میں ہدایت کار اقبال شہزاد نے پاک جرمن اشتراک کے تحت ’’ٹائیکر گینگ‘‘ کے عنوان سے ایک فلم کا آغاز کیا۔ پاکستان سے لیڈ کاسٹ میں محمد علی اور زیبا کو منتخب کیا گیا، جب کہ اٹلی سے ٹونی کینڈل اور جرمنی سے براڈ پیرس نامی فن کاروں کو لیڈ کردار دیے گئے۔ اس فلم کے بیش تر شعبوں میں پاکستان کے ساتھ ساتھ جرمنی کے ٹیکنیشنز کا تعاون شامل رہا۔ فلم کی عکس بندی نیو یارک سٹی، پاک افغان سرحدی پہاڑوں اور لاہور اور کراچی کی لوکیشنز پر کی گئی۔ فلم میں محمد علی نے ایک پاکستانی پولیس آفیسر کا کردار ادا کیا تھا، جب کہ ٹونی کینڈل اور براڈ پیرس نے انٹر پول آفیسرز کے کردار ادا کیے۔

اس فلم کے انگریزی وژن کا نام ’’ایف بی آئی آپریشن پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ فلم کی نمائش جرمنی میں 1971ء میں ہو چکی تھی، جب کہ پاکستان میں ٹائیگر گینگ 1974میں نمائش پذیر ہوئی، لیکن یہ فلم عوامی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ یہ فلم عوامی سطح پرپذیرائی سے قطعی محروم رہی۔

1980 میں معروف فلم ساز و تقسیم کار ادارہ کاشف لمیٹڈ کے روح رواں رئوف احمد شمسی نے انڈونیشیا کے اشتراک سے انٹرنیشنل معیار کی حامل فلم ’’بندش‘‘ پروڈیوس کی ۔ ندیم اور شبنم کے ساتھ فلم کے تیسرے کلیدی کردا کے لیے اداکارہ ’’ڈائینا کرسٹینا‘‘ کا انتخاب کیا گیا۔ ڈائینا کرسٹینا کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔ بندش کو فلم میکر دادا المعروف نذرالاسلام نے تخلیق کیا تھا۔ ڈائنا کرسیٹنا نے فلم میں انڈونیشیا کے دور دراز جزیرے میں رہنے والے ایک ماہی گیر کی بیٹی ’’جوتیا‘‘ کا کردار ادا کیا تھا، جس کی زندگی میں ایک ٹورسٹ’’ندیم‘‘ اچانک داخل ہو کر اسے اپنی شریک حیات بنا لیتا ہے،لیکن جلد ہی پتہ چلتا ہے کہ ندیم پہلے سے شادی شدہ ہے اور ایک حادثے میں اپنی یاد داشت کھو دینے کے بعد اس نے جوتیا سے دوسری شادی کی ہے۔ ایک انتہائی جذباتی کش مکش سے دوچار لڑکی کے اس کردار کو ڈائنا کرسیٹنا نے بہت عمدگی اور کام یابی سے نبھایا۔

ان پر پکچرائز گیت (1) اچھا اچھا لاگو رے۔ (2) ہیلو ہیلو ساینکو اور بالخصوص (3) تجھے دل سے لگا لوں پلکوں میں چھپالوں‘‘ کو بے پناہ پسندیدگی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ڈائنا کرسیٹنا نے بہترین پرفارمنس پر اسپیشل نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ’’بندش‘‘ نے باکس آفس پر بھی ایک ایسی تاریخ رقم کی کہ آج بھی اس کا یہ تاریخی ریکارڈ اَن بریک ایبل ہے کہ اس فلم کے پاکستان کے دونوں بڑے فلمی مراکز یعنی کراچی اور لاہو رمیں یکساں کام یابی حاصل کرتے ہوئے دونوں شہرو ں میں عظیم الشان پلاٹینم جوبلی منائی۔ تاہم اتنی بڑی کام یابی حاصل کرنےکے باوجود ڈائنا کرسیٹنا پھر کبھی دوبارہ کسی پاکستانی فلم میں کاسٹ نہیں کی گئیں

1983 میں ہدایت کار نذر شباب نے سری لنکا کے اشتراک سے خُوب صورت ڈرامائی فلم ’’کبھی الوداع نہ کہنا‘‘ بنائی، تو سری لنکا کی مقبول فن کارہ ’’سبیتا‘‘ کو شبنم اور جاوید شیخ کے مقابل فلم کے تیسرے اہم ترین رول میں منتخب کیا۔ سبیتا کی پرفارمنس بہت پراعتماد اور بے ساختہ تھیں کہ پہلی ہی فلم سے وہ فلم بینوں کے دلوں میں اترگئیں۔ کبھی الوداع نہ کہنا باکس آفس پر سپر ہٹ رہی، یُوں ہر دوسرا پاکستانی فلم ساز ’’سبیتا‘‘ کی جانب متوجہ ہو گیا، جس کے نتیجے میں سبیتا کی کردار نگاری سے آراستہ مس کولمبو، روبی اور بوبی جیسی بلاک لیٹر فلمیں منظر عام پر آئیں۔

علاوہ ازیں اور بہت سی فملوں کا وہ حصہ بنیں۔ نذز شباب کی ’’بوبی‘‘ کو تو ان کی فنی زندگی کی یاد گار فلم کا درجہ حاصل ہے، جس میں سبیتا نے محمد علی جیسے لیجنڈ ری آرٹسٹ کے شانہ بشانہ بہت معیاری اور متاثر کن کارکردگی دکھائی۔ ’’بوبی‘‘ کو پاکستانی اردو سینما کی تاریخ کی تیسری بڑی کام یاب فلم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سری لنکن سینما میں سبیتا 2015کی ایک مقبول اور معروف فن کارہ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔

ہدایت کار نذر الاسلام نے پاکستان اور کینیا کے اشتراک سے 1983میں ایور نیو پکچرز کے لیے رومانٹک مووی ’’لواسٹوری‘‘ بنائی، تو فیصل الرحمن کے مقابل برطانیہ سے تعلق رکھنے والی فن کارہ لیلیٰ کو ہیروئن منتخب کیا ۔ نیلی آنکھوں والی لیلیٰ نے ’’لیلیٰ‘‘ نامی لڑکی جو ایک مغرور اور ظالم سرمایہ دار ہیروں کا تاجر ’’ایرج‘‘ کی بیٹی کا کردار بہ حسن و خوبی نبھایا۔ لو اسٹوری نے نذر الاسلام کے سپر کلاس ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ اور جُملہ خوبیوں کے باعث شان دار بزنس کرتے ہوئے پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ لو اسٹوری کی کام یابی کو دیکھتے ہوئے جاوید فاضل نے لیلیٰ کو فلم ’’حساب‘‘ میں ندیم کے مظلوم بہن کا انتہائی اہم کردار میں پیش کیا، مگر حساب باکس آفس پر متوقع کام یابی حاصل نہ کر سکی۔

ہدایت کار جاوید فاضل نے 1985ء پاکستان بنگلہ دیش اور نیپال کے فن کاروں پرمشتمل فلم ’’ہم سے ہے زمانہ‘‘ بنائی تو نیپال سے تعلق رکھنے والے فن کار شیوا نے ندیم کے مقابل بہت جَم کر پرفارمنس پیش کی۔ شیوا کے انداز اداکاری کو عوامی اور فلمی حلقوں میں بھر پور پذیرائی ملی۔ ’’ہم سے ہے زمانہ‘‘ باکس آفس پر سپر ہٹ رہی۔ اور شیوا کے لیے کام یابی کے راستے وار کر گئی۔ جس کے نتیجے میں وہ مزید پاکستانی فلموں زمین آسمان، ہم ایک ہیں، چوروں کی بارات، بنکاک کے چور کے علاوہ متعدد فلموں کا حصہ بنے۔ سبیتا کی طرح شیوا کو بھی پاکستان میں بے حد پذیرائی ملی۔

1985 میں قدیر خان نے ’’زمین آسمان ‘‘ بنائی، جسے نذر الاسلام نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس فلم سے جو فن کارہ بھر پور انداز میں ابھر کر سامنے آئی، وہ تھی نیپالی فن کارہ ششما شاہی، جس نے فلم میں شہزادی کی منہ چڑہی بے باک اور شوخ وتنگ کنیز کا کردار کمال بے ساختگی سے ادا کیا ۔ ششما شاہی کی عمدہ کردار نگاری اس فلم کے ہر منظرکو سجاتی نظر آئی۔

یہی وجہ تھی کہ بعد ازاں وہ بہت سی پاکستانی فلموں میں اپنے حُسن اور فن کے مظاہر پیش کرتی رہیں ،ایسی فلموں میں چوروں کی بارات،آندھی، لاوا اور متعدد دیگر فلمیں شامل ہیں۔ ہدایت کار اقبال کشمیری نے بعد میں انہیں شادی کے لیے پروپوز کیا۔ششما نے یہ پیش کش قبول کرلی اور یُوں وہ پاکستان کی ہوکر رہیں۔ اقبال کشمیری کے انتقال سے قبل ان کی بیماری کے دوران ششما شاہی نے ایک وفا شعار بیوی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے اقبال کشمیری کی نگہداشت اور خدمت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔

1985 ہی میں جب ہدایت کار پرویز ملک نے فلم ’’ہلچل ‘‘بتائی تو ترکی کی فن کارہ ’’نازاں سانچی‘‘ کو جاوید شیخ کے مدِ مقابل سیکنڈ ہیروئن کاسٹ کیا۔ فلم کی فرسٹ ہیروئن شبانہ تھیں۔ ’’نازاں‘‘ کے دل کش نقوس ، سفید رنگت، خُوب صورت جسمانی تراش اور سب سے بڑھ کر فلم میں ان کے ترکشش انداز کے دل فریب رقوص نے انہیں پاکستانی فلم ویورز میں مقبول و مشہور کر دیا تھا۔ فلم ’’ہلچل‘‘ باکس آفس پر گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئی، جس کے بعد ’’نازاں‘‘ زنجیر اور تلاش وغیرہ میں بھی ہیروئن کی حیثیت سے سامنے آئیں۔ فلم ہل چل میں نازاں پر پکچرائزڈ ناہید اختر کا گایا ہوا گیت ’’جان من جانان من‘‘ بے حد مقبول ہوا۔

2007 میں جب شعیب منصور نے ’’خدا کے لیے ‘‘ بنائی تو اس میں ایک نہایت اہم اور منفرد رول کے لیے بھارت سے نصیر الدین شاہ کا انتخاب کیا۔ نصیر الدین شاہ نے فلم کے عدالتی مناظر میں بہت عمدہ کردار نگاری کی،بعد ازاں انہیں فلم ’’زندہ بھاگ‘‘ میں بھی ایک اہم کردار میں پیش کیا۔ وہ فلم جیون ہاتھی میں بھی شامل رہے۔

2016 میں نبیل قریشی نے اپنی شان دار اورمنفرد تخلیق ’’ایکٹران لاء‘‘ کے لیے نامور بھارتی آرٹسٹ اوم پوری کو فہد مصطفیٰ کے ایک دیانت دار باپ بااصول وکیل کے روپ میں پیش کیا۔ اوم پوری نےاپنےکردار سے بھر پور انصاف کیا۔ ’’ایکٹر ان لاء‘‘ نے باکس آفس پر لاک بسٹر کام یابی حاصل کی۔ علاوہ ازیں پاکستانی فلموں میں کام کرنے والے فن کاروں کی فہرست بہت طویل ہے ،جن میں گیتا کماری وغیرہ، روزینہ،نوتنگامنی فونسیگا، سہیل خان۔ سنترا، فائزہ کمال، ادیتی سنگھ، شیوینا تیواڑی، جونی لیور، رشی کپور، سمرنکس وغیرہ کے نام شامل ہیں، جب کہ جمیل دہلوی کی بین الاقوامی معیار کی حاصل تخلیق ’’جناح‘‘ میں ڈریکیو لا فیم ‘‘ کرسٹوفرئی نے قائد اعظم محمد علی جناح کا رول پلے کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔