شریف برادران کو صدمہ

November 24, 2020

مسلم لیگ(ن) کے قائد، سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور صدر محمد شہباز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر کی رحلت کی خبر پورے ملک میں رنج و الم کے جذبات کے ساتھ سنی گئی۔ مرحومہ جنہوں نے 95برس کی عمر پائی‘ خاصی مدت سے علیل اور لندن میں زیرِ علاج تھیں۔ اُنہیں فروری میں لندن لے جایا گیا تھا جہاں وہ میاں نواز شریف کے ساتھ مقیم رہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے اُن کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق صدر آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت تمام سیاسی و مذہبی قائدین نے والدہ کے انتقال پر شریف برادران سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ مرحومہ کی میت پاکستان لائی جائے گی اور تدفین جاتی امراء میں اُن کے شوہر میاں شریف کے پہلو میں مختص جگہ پر ہوگی جس کے انتظامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ حکومتِ پنجاب نے مرحومہ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لئے اُن کے زیرِ حراست بیٹے میاں شہباز شریف اور پوتے حمزہ شہباز کو پیرول پر رہا کرنے کا فوری اعلان کرکے ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے جس پر کسی لیت و لعل کے بغیر عمل کیا جانا چاہئے کہ ایسے مواقع پر کشادہ دلی سے کام لینا انسانیت کا بنیادی تقاضا ہے۔ مرحومہ کی پوتی مریم نواز نے اپنے والد میاں نواز شریف کو والدہ کی آخری رسوم میں شرکت کے لئے پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا ہے اور اُس کی وجہ سیاسی انتقام کا خدشہ بتایا ہے۔ یہ اندیشہ درست ہے تو یہ بہرحال ایک افسوسناک بات ہے۔ اربابِ اختیار کی جانب سے مخالفین کو کچل ڈالنے کی جو روش ہمارے سیاسی کلچر میں مروج ہے اور جس کا مظاہرہ آج ہی نہیں کم و بیش ہر دور میں ہوتا رہا ہے‘ یقیناً اصلاح طلب ہے۔ تاہم لندن ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم کو اُن کے معالجوں نے خرابیٔ صحت کی بنا پر سفر سے منع کیا ہے۔