کورونا ویکسین کا خالق مسلمان ترک جوڑا

November 24, 2020

گزشتہ سال چین میں نئے سال کی تقریب کے فوراً بعد دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے والی مہلک وبا ’’کورونا وائرس۔ کوویڈ19‘‘ میں مبتلا ہو کر لاکھوں افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں اور اب اِس کی دوسری لہر نے ترکی اور پاکستان کو شدید متاثر کیا ہے اور ترکی میں تو اواخر ہفتہ لوگوں کے میل ملاپ کو روکنے کے لئے کرفیو بھی نافذ کیا جا رہا ہے۔

تاہم ان حالات میں طویل انتظار کے بعد دنیا کو ایک مسلمان ترک جوڑے نے خوشخبری دی ہے۔ جی ہاں جرمنی میں آباد ترک جوڑے پروفیسر ڈاکٹر اعور شاہین اور اُن کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر اوزلم تورے جی جو کہ بائیون ٹیک کے سی ای او بھی ہیں نے کویڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین تیار کی ہے۔ اِس سلسلے میں جرمن کمپنی بائیون ٹیک اور امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے چند روز قبل ایک پریس ریلیز کے ذریعے مشترکہ طور پر تیار شدہ ویکسین کے تینوں مراحل کامیابی سے مکمل کیے جانے اور نوے فیصد تک موثر ہونے والی ویکسین کی تیاری کا اعلان کیا تھا جس کے فوراً بعد اس ترک جوڑے کو دنیا بھر سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے اور حکومتِ جرمنی نے اس ترک جوڑے کو میڈیسن کے شعبے میں نوبل ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کردیا۔

برطانوی روزنامہ دی گارڈین کو دیے جانے والے پہلے انٹرویو میں بائیون ٹیک کے چیف ایگزیکٹو، اعور شاہین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’کیا اس ویکسین سے اس وبائی مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’جی ہاں اِس ویکسین کے نتیجے میں مہلک وبائی مرض کوویڈ-19 جس نے گزشتہ سال سے انسانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے گا۔ تاہم موسمِ سرما کے بعد موسمِ بہار انسانیت کیلئے بہار کا پیغام لے کر آئے گا، ہمیں موسمِ بہار تک انتظار کرنا ہوگا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ جدید سائنس اور عالمی تعاون کی مشترکہ کوششوں کی ایک شاندار فتح ہے‘‘۔ اِس جوڑے کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کردہ ویکسین کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالنے سے قبل ان دونوں کی زندگی کے بارے میں بتاتا چلوں۔

پروفیسر ڈاکٹر اُعور شاہین 19ستمبر 1965کو ترکی کے بحیرہ روم کے ساحلی شہر جو شام کی سرحدوں سے ملحقہ اسکندرون میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک غریب خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کا خاندان جب وہ ابھی صرف چار سال ہی کے تھے ترکی سے جرمنی روزگار حاصل کرنے کی غرض سے منتقل ہو گیا۔ اُن کے والد نے کولون میں گاڑیوں کے ایک کارخانے میں مزدور کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی۔ جرمنی میں اعور شاہین اور اُن کے بہن بھائیوں کے لئے بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہو گئے اور اُنہوں نے حالات سے استفادہ کرتے ہوئے میڈیسن کے شعبے میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور گریجویشن کرنے کے بعد کولون اور ہمبرگ کے مختلف ٹیچنگ اسپتالوں میں کام شروع کردیا۔ اِسی دوران وہ جرمنی میں مہلک مرض کینسر پر کام کرنے والے اور کیمو تھراپی کو متعارف کروانے والے پروفیسر پال احرلیچ کے بہت قریب آگئے اور ان کی خواہش پر اُنہوں نے ہیمبرگ یونیورسٹی میں کینسر کے خلیوں اور صحتمند خلیوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرنے اور اس کے نتیجے میں کینسر کے خلیے ختم کرنے والی ویکسین تیار کی اور پھر بڑی آنت، پھیپھڑوں، پانکریاس اور پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا افراد کے خلیوں کے خلاف مدافعتی نظام یا امیونٹی سسٹم کو طاقتور بنانے کے کام کا بیڑہ اٹھایا۔ پروفیسر ڈاکٹر اعور شاہین نے اپنی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر اوزلم تورے جی کے ہمراہ 2008میں بائیون ٹیک کے نام سے ایک کمپنی قائم کی ا ور اپنے اس کام کو جاری رکھا۔

اب ذرا پروفیسر ڈاکٹر ’’ اوزلم تورےجی‘‘ کی زندگی پر ایک مختصر سی نگاہ ڈالتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اوزلم تورے جی کے والد بھی ایک ڈاکٹر ہیں اور وہ اوزلم کی پیدائش سے قبل جرمنی شفٹ ہوگئے تھے۔ اوزلم تورے جی کی ملاقات ہمبرگ یونیورسٹی ہی میں پروفیسر ڈاکٹر اعور شاہین سے ہو ئی اور یہی ملاقات ان کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی لیکن مزے کی بات ہے دونوں ہی اپنے امور کی انجام دہی میں اتنے فرض شناس ہیں کہ انہوں نے اپنی شادی والے دن بھی چھٹی نہیں کی بلکہ اس روز بھی اپنی لیبارٹری میں کام کیا اور وہیں سے گھر پہنچ کر تیار ہوئے اور شادی کی رسومات شام کے وقت گھر پر ہی ادا کی گئیں اور ایک اہم بات دونوں میاں بیوی کا ہنی مون پر نہ جانا بلکہ لیبارٹری میں اپنے کام کو ترجیح دینا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کینسر کی روک تھام کے لیے جس ویکسین پر گزشتہ 25برسوں سےکام جاری رکھا ہوا تھا۔ اِسی کام کو اُنہوں نے اِس سال کے اوائل میں کورونا وائرس کوویڈ-19 کی روک تھام کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ ایک بات جو سب پاکستانیوں کے لئے دلچسپی کی حامل ہوگی کہ اس ترک جوڑے کی کمپنی بائیون ٹیک کی مارکیٹ ویلیو میں راتوں رات بے پناہ اضافہ ہوگیا اور اب اس کی مارکیٹ ویلیو 20ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے اور اس جوڑے کے جرمنی کے پہلے 93ویں امیر ترین گھرانوں میں شمار کئے جانے کے باوجود ان دونوں میاں بیوی کے طرزِ بودو باش میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنا ہے۔ یہ میاں بیوی اپنی چودہ سالہ بیٹی کے ہمراہ ایک عام سے اپارٹمنٹ میں سادہ سی زندگی بسر کررہے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کے بارے میں فائزر کے سی ای او ’’ البرٹ بورلا ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’اعور شاہین بڑے uniqueانسان ہیں۔ ان کو پیسوں کی کوئی پروا نہیں بلکہ وہ اپنی بھر پور توجہ ریسرچ ورک اور علمی کام کی جانب مرکوز کیے ہوئے ہیں اس لیے ان کے ساتھ مشترکہ طور پر اس ویکسین کی تیاری کے بارے میں ہمیں کسی قسم کی کوئی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘‘۔