جامعہ کراچی کے ’’پوائنٹس‘‘

November 29, 2020

کنزا یار خان

ضمیرجعفری کی وہ خوب صورت سی نظم ’’کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے۔‘‘ میں بس میںسفر کے دوران پیش آنے والے جملہ مراحل کا بڑی عمدگی سےتجزیہ کیا گیا ہے کہ ایک مسافر کو کس قدر تگ و دو اور تن دہی سےکراچی کی بسوں میں سفرکرناپڑتاہے۔ جو مسافر اِن دشوارگزارمراحل سےگزر جاتے ہیں، وہی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ پاتے ہیں۔ اگرچہ یہ نظم کافی پرانی ہے، مگر اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود کراچی کے باسیوں کی ’’suffering‘‘میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ دوکروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں اس وقت جتنی بسیں چل رہی ہیں، وہ اس قدر ناکافی ہیں کہ لوگ چھتوں، پائیدانوں تک پر لٹک کرسفرکرنے پر مجبور ہیں۔

خیر، یہ توکراچی کی عام بسوں کی کہانی ہے۔ آج ہم آپ کوجامعہ کراچی کی بسوں (پوائنٹس) کی کہانی سناتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں داخلہ لینے سے قبل ہمیں یہ بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کی بسوں المعروف ’’پوائنٹس‘‘ میں عملاً سمندر کو کوزے میں بند کیا جاتا ہے۔ ہمیں تویہ پوائنٹس، بسیں کم اورعمروعیّارکی زنبیل زیادہ معلوم ہوتی ہیں کہ اِن بسوں کے اندر ایک خلقت ٹوٹی پڑتی ہے۔ کالادھواں چھوڑتی یہ بسیں صبح صبح لڑکیوں، بالیوں کےحسن میں کچھ اوربھی اضافہ کردیتی ہیں۔

ویسےکراچی کی سڑکوں پردوڑتی بسوں کودیکھ کرکبھی کبھی یوں محسوس ہوتاہے، جیسے ان کے ڈرائیور پیانسٹ بننا چاہتے تھے، مگرغربت کے باعث پیانو تو نہ خرید سکے بس ڈرائیور بن گئے، تاہم پیانو بجانےکاشوق ختم نہ ہوسکا۔ اس لیے انہوں نے بس میں ہارن کی جگہ سستا والا پیانو نصب کروالیا تاکہ جب بھی کہیں ٹریفک جام ملے اور فرصت کے چند لمحات میسّر آئیں، تو کوئی بھی دُھن بجاکر لطف اندوز ہوا جاسکے۔ یقین مانیں، ہم نے تو ڈرائیورز کے پاس ہارنزکا پورا پینل لگا دیکھا ہے، جب جی چاہا کسی بھی مغربی دُھن کا پاکستانی ورژن سن لیا۔

جامعہ کراچی کے پوائنٹس اس لحاظ سے بدقسمت واقع ہوئے ہیں کہ یہاں ہارنز کا مجموعہ تونہیں ہوتا، مگر ان بسوں میںنصب ایک ایک ہی ہارن کی آواز اس قدر خوف ناک ہوتی ہے کہ ایک کان سے داخل ہوکر دوسرے کان سے نکلنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اوّل تو آخری اسٹاپ پربس میں چڑھنے والوں کے لیے پائیدان پرچڑھنا ہی محال ہوتا ہے، اور اگر سخت جدوجہد کے بعد کوئی پائیدان پر قدم رکھنے میںکام یاب ہو بھی جائے، تو ایک ہاتھ اورایک پائوں کے علاوہ جسم کا بقیہ حصّہ پوائنٹ میںداخل نہیں ہوسکتا۔ یعنی سیاست کی طرح ان بسوں میں بھی دوسروں کے لیے جگہ بنانا یا سیٹ چھوڑنے کا کوئی رواج نہیں۔

شاعرِ مشرق، حضرت علامہ اقبال نے اپنےشاہینوں کی خاص صفت بتائی تھی کہ؎ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، لہوگرم رکھنےکا ہے اک بہانہ۔ شایداقبال یہ جانتے تھے کہ یہ شاہین ایک نہ ایک دن جامعہ کراچی کی بسوں میں سفرکریں گے،تو یہ صفات ضرور ان کے کام آئیں گی۔ ہمیں تو پکّا یقین ہے کہ مذکورہ بالا شعر اقبال نے جامعہ کراچی کی بسوں میں سفر کرنے والے طلبہ ہی کے لیے کہا ہوگا۔ کیوںکہ یہ شاہین صبح سویرے جھپٹ کر، پلٹ کر، گرکر، اٹھ کر، سنبھل کر اور کپڑے جھاڑ کر ہی پوائنٹ میں موجود ذراسی خالی جگہ کو پُر کر پاتے ہیں۔

بعض اوقات کچھ طلبہ کی پوائنٹ میں چڑھنے کی مہارت دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ قبلہ مارشل آرٹس کی ٹریننگ لے کر آرہے ہیں۔ اور کُہنیوں کا آزادانہ استعمال کرکے حریف سے پہلے پوائنٹس میںبرق رفتاری سے چڑھنے میںکام یاب ہوجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ہم بس میں سوار ہونے کے لیے پائیدان پر قدم دھرنے ہی والے تھے کہ ایک لڑکی ہمیں کُہنی سے پیچھے دھکیلتے ہوئے چشمِ زدن میں سوار ہوگئی اور ہماری طرف دیکھتے ہوئے فاتحانہ انداز میں خُوب مُسکرائی۔ ہم بھی اس کی مہارت پر داد دیے بنا نہ رہ سکے، اور تاسّف سے سوچنے لگے کہ کاش، پہلے ہی سیمسٹر میں ہم نے بھی مارشل آرٹس کا چھوٹا موٹا کورس کرلیا ہوتا، تو آج یہ دن نہ دیکھنےپڑتے۔

جہاں تِل دھرنےکو جگہ نہ ہو، وہاں ہم جامعہ کراچی کی بسوں میں سفر کرنے والے، بستے سمیت دھرجاتے ہیں۔ بس کےاندرخود کوفٹ کرنے کے لیے یہ سب کرتب تو چل ہی رہا ہوتا ہے، مگر باہر موجود عوام کےلیے ہم کسی عجوبے سے کم نہیں کہ لوگ ہمارے پوائنٹ کو ’’آنکھ بھر کےدیکھتےہیں۔‘‘ ایسے حالات کا شکار ہونے کے بعد یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرکے پوائنٹ میںسفر کرنا کیا انتہائی ضروری ہے؟

کوئی دوسری گاڑی جامعہ نہیں جاتی؟ تو اس کا معقول جواب یہ ہےکہ اس گرانی کے دور میں پوائنٹ میں سفر کا کرایہ محض دس روپے ہے۔ اور ’’بس یہی بات اچھی ہے میرےہرجائی کی۔‘‘ تاہم، یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ؎ نہ انجن کی خوبی، نہ کمالِ ڈرائیور..... خدا کے سہارے چلی جارہی ہے۔