چنیوٹ.... اک شہرِ بے مثال

November 29, 2020

مصباح طیّب، سرگودھا

سرگودھا اور فیصل آباد کے درمیان، دریائے چناب کی رومان پرور موجوں کے کنارے ایک خُوب صُورت شہر ’’چنیوٹ‘‘ واقع ہے۔ یہ شہر کب آباد ہوا، کس نے کیا؟ اس حوالے سے مختلف آرأ پائی جاتی ہیں۔ تاہم، تاریخی روایت کے مطابق 712ء میں بنو امیّہ کی تسخیر سے پنجاب کے بہت سے علاقوں کے ساتھ چنیوٹ، جھنگ اور شورکوٹ بھی مسلمانوں کی عمل داری میں شامل ہوگئے۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے چناب نگر میں واقع پہاڑی سلسلے کو سرگودھا ہی کا ایک حصّہ مانا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں۔ تاہم، حکومتی عدم توجہی کے باعث اسمگلنگ مافیا بلا روک ٹوک ان قیمتی نوادرات کی چوری میں مصروف ہے۔ دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں پتھر کے حصول کے لیے کی جانے والی کٹائی اور بارود کے ذریعے ہونے والی توڑ پھوڑ سے بھی اس قدیم تاریخی ورثے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

مغل تاج دار، شاہ جہاں کے عہد میں مقامی وزیر، سعد اللہ خان کا تعلق بھی چنیوٹ سے تھا،جس نے چنیوٹ کے ولی کامل، حضرت شاہ برہان کا عالی شاہ مزار تعمیر کروایا۔ مغلیہ طرزِتعمیر کا یہ مزار آج بھی ماضی کے دل کش دَور کی یاد دلاتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی کئی مذہبی، ثقافتی اورتاریخی مقامات ہیں، لیکن بادشاہی مسجد چنیوٹ، عمر حیات کا محل، دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کا مزار یہاں کے مشہور مقامات ہیں۔ یوں تو چنیوٹ شہر مختلف حوالوں سے معروف ہے، تاہم یہاں کا فرنیچر اپنی مثال آپ ہے، جو دنیا بھر میں اپنی خاص بناوٹ اور خُوب صورتی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تعزیہ سازی کے فن نے بھی چنیوٹ میں جنم لیا۔

جب کہ انواع و اقسام کے مزے دار کھانے پکانے اور کیٹرنگ کے حوالےسے بھی یہ شہر ایک خاص شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کے باورچی کھانے پکانے میں یکتا ہیں۔ کُنّے کا گوشت (مٹکے کا گوشت) اپنی لذّت کی بناء پر خاص سوغات میںشمار ہوتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کے لیے شہر میں متعدد انجمنیں قائم ہیں۔ جن میںانجمنِ اسلامیہ، انجمنِ اصلاح المسلمین، مفادِ عامّہ کمیٹی سمیت مختلف طبی، تعلیمی اور فلاحی ادارے شامل ہیں۔یہاں کے تاریخی مقامات میں بادشاہی مسجد، شیش محل، دربار بُو علی قلندر المعروف شاہ شرف، دربار شاہ برہان، عُمر حیات محل وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ تفریحی مقامات میںدریائے چناب، چناب پارک، قائد اعظم پارک، شاہی باغ، لاہوری گیٹ شامل ہیں۔ شہر کے لوگ خوش مزاج ہیں، دُکھ سُکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے اورہمہ وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے میںکمربستہ رہتے ہیں۔

چنیوٹ شہر کے عین وسط میں واقع پہاڑوں کی اوٹ اور قبرستان سے ملحقہ علاقے میں موجود میناروں سے نکلنے والی روشنیاں پورے علاقے کو جگ مگ کرتی ہیں۔ یہ روشنی محلہ مسکین پورہ میں موجود حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سُکھ کے ساڑھے دس کنال پر پھیلے مزار میں لگے برقی قمقموں کی ہوتی ہے۔

جب یہ روشنی محل کی دیواروں میں نصب شیشے پر منعکس ہوتی ہے، تو عمارت کے اندرونی حصّے میں انعکاس کی وجہ سے بلوریں چمک پیدا ہوتی ہے، جو مزار کی خُوب صُورتی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ سائیں سُکھ اپنے دَور کی روحانی شخصیت تھے۔ کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ ایک بار دریائے چناب کے کنارے اپنے لائو لشکر سمیت جارہا تھا۔

اس نے دُور سے ایک بارات کو دریا پار جاتے دیکھا،تو قافلہ روک لیا، تاکہ کارروان شاہی، بارات کی روانگی میں تاخیر کا باعث نہ بنے۔ اس پر ایک درویش نے کہا۔ ’’بادشاہ عادل، اہل کار دین دار، خلقِ خدا خوش حال۔‘‘ افسوس، اب نہ وہ بادشاہ رہا نہ درویش، لیکن سوکھتے ہوئے دریائے چناب کے کنارے یہ شہرِ بے مثال اسی آب و تاب سے جیے چلا جارہا ہے۔